چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے پر پولیس ہوش کے ناخن لے

 تحریر:محمدرضاایڈووکیٹ(ہائی کورٹ)

وکلاء کے گھروں، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے پر حکومت ہوش کے ناخن لے۔وکلاء پر ظالمانہ تشدد کی آمرانہ دور میں بھی مثال نہیں ملتی،پولیس دو ہفتوں سے ڈاکٹرزکیخلاف درج ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کو گرفتار کر لیتی تو ایسا دلخراش سانحہ ہرگزپیش نہ آتا، حکومتی وزرا کے بیانات معاملہ حل کرنے کی بجائے خراب کر رہے ہیں۔ حکومت تمام گرفتار وکلاء کو فوری طور پر رہا کر کے وکلاء کے خلاف درج مقدمات خارج کرے۔اصل حقائق میڈیاپرجاری خبروں سے برعکس ہیں۔11 دسمبر 2019 کو کارڈیالوجی ہسپتال میں کیا ہوا؟کیوں ہوا؟ اور اس کی وجہ کیا تھی ؟ ڈاکٹرزنے کیسے مریضوں کو قتل کیا؟جومریض آکسیجن کی کمی سے ہلاک ہوئے ان کی آکسیجن کس نے اتاری؟اس میں اسپتال کا عملہ کس طرح ملوث ہے اور ڈاکٹرز مافیا نے کس سفاکی کے ساتھ مریض قتل کئے تاکہ وکلاء کوبدنام کیاجاسکے اور اپنے مافیا کوبے نقاب نہ ہونے دے۔کارڈیالوجی دل کے امراض کا سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں روزانہ ہزاروں مریض آتے ہیں اس ہسپتال کو ینگ ڈاکٹرز کا ہیڈکوارٹر بھی کہا جاتا ہے دوائیں بنانے والی کمپنیاں ان ینگ ڈاکٹرز کی پشت پناہی کرتی ہیں اور ان کے ذریعے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو ادویات بناتی ہیں انہوں نے ہسپتال کی سپلائی لائن پر قبضہ کیا ہوا ہے اسی کمپنی کی دوائی پاس ہوتی ہے یا وہاں پر مریضوں کو فراہم کی جاتی ہے جو ان ڈاکٹرز کو کمیشن کے طور پر پیسے دیتی ہے یا ان کو مختلف آسائشیں فراہم کرتی ہے اور یہ اسے تسلی دیتے ہیں کہ صرف اسی کمپنی کی دوائیاں خریدی جائیں گی اور کسی کمپنی کی ادویات ہوں تو یہ ایم ایس کو بھی ٹھوکنے سے باز نہیں آتے یہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی بات ہے اور ان ینگ ڈاکٹرز کے اکاؤنٹس اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ شاید عام ڈاکٹرز اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں ۔شہباز شریف کے دور میں ایک ایسی کمپنی جس کی جعلی ادویات کی وجہ سے درجنوں اموات ہوئیں تب یہ معاملہ دبا دیا گیا اور اس کمپنی کی ادویات بھی صرف ینگ ڈاکٹرز کے پریشر پر استعمال کی جا رہی تھیں۔اسی طرح ایک کمپنی جس کے سٹینٹ کی قیمت چند ہزار روپے ہے وہ لاکھوں میں یہاں پر لگایا جارہا تھا اس میں بھی ینگ ڈاکٹرز اس کمپنی کے مفادات کی نگہبانی کیا کرتے تھے۔اب آتے ہیں موجودہ واقعے کی طرف۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہر روز مریضوں کو مفت ادویات دی جاتی ہیں۔ان میں بہت سارے مریضوں کو ادویات کم فراہم کرکے انٹری لاگ میں زیادہ ادویات درج کرکے خرد برد کرلی جاتی ہیں اور یہ چوری شدہ ادویات جیل روڈ پر واقع مختلف میڈیکل سٹوروں پر بیچ دی جاتی ہیں یہ بھی کروڑوں کا دھندہ ہے جس میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا عملہ ملوث ہوتا ہے مریضوں کو انتہائی بدتمیزی اور سختی سے ٹریٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو فری ادویات میں جتنا حصہ مل جائے اتنا ہی غنیمت سمجھتے ہیں اور باقی بازار سے خرید لیتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے فرنٹ مین کے طور پر پیرا میڈیکل اسٹاف کام کرتا ہے اور یہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر عرصہ دراز سے ایک گینگ کی صورت میں اسپتال کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، جو ذرا ذرا سی بات پر بھی کئی کئی ماہ تک ہڑتال پررہتے ہیں اپنی پسند کی جگہ پر پوسٹنگ کرواتے ہیں اور اپنی پسند کی ڈیوٹی کرتے ہیں جبکہ ان ینگ ڈاکٹرز کے جنرل سیکرٹری گردہ فروشی میں ابھی بھی جیل میں ہے۔ چند روز قبل چندوکلاء جو کہ فری ادویات اپنے قریبی عزیزوں کے لیے لینے گئے توکم ادویات دے کر جب ان سے زیادہ لاگ انٹر کیا گیا تو وکلاء نے باز پرکی جس پر پیرا میڈیکل اسٹاف نے ڈاکٹرز کو آگاہ کیا اور وہاں پر موجود اس گینگ کے گروہ اور اس کمپنی کے لوگوں نے وکلاء پر شدید تشدد کرنا شروع کردیا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی اس کے بعد وکلاء شدید زخمی حالت میں جب ہسپتال میں پہنچے تو ڈاکٹرزنے اپنے بھائی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بچانے کے لئے وکلاء کا میڈیکل کرنے سے انکار کر دیا یہ امر واضح ہے کہ میڈیکل کے بغیر کوئی بھی ایف آئی آر بے معنی ہوجاتی ہے ڈاکٹرز نے اپنے تمام تر پیشہ وارانہ فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتتے ہوئے اور مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے اپنے بھائی ڈاکٹرز کو بچانے کے لئے میڈیکل نہ کی۔وکلاء نے جب ایف آئی آر درج کروائی تو میڈیکل نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایف آئی آر کافی کمزور تھی وکلاء نے پوری کوشش کی کہ انہیں میڈیکل مل جائے لیکن متعلقہ ڈاکٹرز نے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے MLC جاری نہ کیا ۔اس حد تک کہ مجسٹریٹ کے حکم پر بھی میڈیکل بورڈ کی تشکیل نہ ہوسکی جس سے اس امر کا اندازہ لگائیں کہ یہ مافیاکتنا بڑا ہے اور کتنے منظم گروہ کی صورت میں ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں۔ اب وکلاء کے پاس اگلی قانونی چارہ جوئی ان ملزمان کو گرفتار کروانا تھا۔ تاہم تمام ممکنہ کوشش کرنے کے بعد آئی جی پولیس پنجاب کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے بعد اور چیف سیکریٹری کے دفتر کا محاصرہ کرنے اورپنجاب بار کی ہرتال کے بعد وکلا ء کی بے بسی عیاں تھی۔ تمام ادارے ڈاکٹرز مافیا کے سامنے بے اثر معلوم ہوئے۔ تمام ترکوششوں کے باوجودملزمان کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔جس کے بعد وکلاء نمائندوں نے سمجھ بوجھ سے کام لیا، جو مافیا ہسپتالوں میں کم قیمت پر ناقص ادویات فراہم کرتا ہے انہوں نے بھی وکلاء رہنماؤں کے ساتھ اپنے انداز میں رابطہ کیا اور معاملہ ختم کروانے کے لیے دباؤ بڑھایا۔ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بچانے کے لئے اور معاملہ دبانے کے لئے اس مافیا نے بھرپور انداز میں کرداراداکیا۔اس سارے معاملے میں نوجوان وکلاء اور پروفیشنل وکلاء بہت زیادہ حساسیت کا شکار تھے تاہم اپنی عزت اور بھرم کو بچانے کے لئے انہوں نے اپنی قیادت کی ہاں میں ہاں ملائی اور ایک مناسب انداز میں صلح جوئی پر بات ختم ہوئی جس میں ڈاکٹرز حضرات نے پریس کانفرنس میں معافی مانگی اور وکلاء بھی مطمئن ہوگئے کہ چلو ان کا بھرم رہ گیا، ڈاکٹر عرفان کی وائرل ہونے والی ویڈیو نے تمام معاملات کا بھانڈا پھوڑ دیا جس سے وکلاء کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ۔ ڈاکٹر حضرات مکمل طور پر مافیا کی صورت میں بدمعاشی اور ان کی تذلیل پر اترا آئے ہیں اس صورت حال کے تناظر میں بار روم لاہور میں ایک اجلاس ہوا۔ غم غصہ اتنا زیادہ تھاکہ قانون کا محافظ وکیل بھی بے بس ہوگیا اور وکیل کی غیرت نے جوش مارا اور وکلاء نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس وقت تک وہاں سے نہیں ہٹا جائے گا جب تک ان ملزمان کو گرفتار نہ کیا جائے وکلاء پہلے گورنر ہاؤس گئے لیکن شنوائی نہ ہوئی پھر شادمان چوک اور پھر جیل روڈ پر پہنچے اوروکلاء نے گیٹ کے باہرپرامن احتجاج کرناشروع دیاجوایک گھنٹے تک جاری رہاکہ اچانک ہسپتال کی چھت سے اکٹرزاورنرسسزنے پرامن وکلاء پرپتھربرساناشروع کردیئے جس پروکلاء مشتعل ہوگئے اورداخلی گیٹ سے ہسپتال کے اندرداخل ہوگئے20منٹ بعدپولیس نے لاٹھی چارج اورآنسوگیس سے وکلاء کومنتشرکردیا۔اچانک ہسپتال کے اندرسے ڈاکرزاورپیرامیڈیکل سٹاف کے سینکڑوں ڈنڈابردارافرادنے پولیس کے ساتھ مل کروکلاء کوشدیدتشددکانشانہ بنایاجس میں درجنوں وکلاء شدید زخمی ہوگئے۔پولیس نے ہسپتال کے اندرآنسوگیس کے شل پھینکے جس کے باعث مریضوں کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔اسی دوران پیرامیڈیکل سٹاف نے ڈاکٹرزکی سازش کے تحت مریضوں کے آکسیجن ماسک اتارنے شروع کر دیئے جس سے مریضوں کی ڈیتھ ہوئی۔انتظامیہ نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہسپتال کے اندر کی تمام ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں جس سے یہ واضح طور پر نظر آ سکتا تھا کہ یہ آکسیجن ماسک اتارنے والے کون تھے؟کیونکہ وکلاء کو میڈیکل آلات اور آکسیجن کے معاملات میں اتنی مہارت نہیں ہے جبکہ پیرامیڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر زایک لمحے میں تمام آپریشن کو خراب، ختم یا ماسک کو اتار سکتے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ آکسیجن سلنڈر والو بند کیا گیا تھا وکلاء اگر ہنگامہ آرائی کرتے تو اتنی باریکی سے وہ آکسیجن سلنڈر کیسے بند کر سکتے تھے جو کہ انتہائی قابل غور بات ہے. اب بات کرتے ہیں میڈیا کی۔ جن جعلی ادویات ساز کمپنیوں کا ہم نے ذکر کیا ہے جو ان ڈاکٹرز کے پشت پناہ اور پنجاب کے واحد کاڈیالوجی ہاسپٹل سے دونوں ہاتھوں سے دولت بنا رہی ہیں انہوں نے بھرپور انداز میں میڈیا پر انویسٹمنٹ کی لوکل چینل کے رپورٹر کو تو باقاعدہ گاڑیوں کی صورت میں نوازا گیا۔اورمیڈیا مسلسل تصویر کا ایک رخ دکھانا شروع ہو گیا حیران کن طور پر وکلاء پر جو تشدد ہوا اس کی تمام فوٹیج میڈیا نے نہ صرف دکھائی نہیں بلکہ بہت ساری فوٹیج ضائع کردی اور واضح طور پر معاملے میں وکلاء کو مورد الزام ٹھہرایا اس معاملے میں نیوز کے مختلف اینکر احمدفراز اور دیگر درجنوں صحافی جن کو ان ادویات بنانے والی کمپنیوں جو اپنی دس روپے کی گولی گیارہ سو روپے میں فروخت کر رہی ہیں نے دونوں ہاتھوں سے نوازا جس کا انہوں نے بھرپور حق نمک ادا کیا اب وکلاء کو کیا کرنا چاہیے وکلاء کو بڑے سیدھے سادے انداز میں جن لوگوں نے وکلاء پر تشدد کیا ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے،پنجاب بار کے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو پی آئی سی میں ہونے والی اموات پر انکوائری کرے کہ کس طرح آکسیجن سلنڈر بند کیے گئے اور کیوں مریضوں کے ماسک اتارے گئے اور ذمہ داروں کے خلاف قتل کی FIR درج کروائے اور یہ بھی دیکھے کہ ہسپتال سے فوٹیج کیوں ضائع کی گئی اور ہسپتال کے اندر توڑ پھوڑ کرنے والے ڈنڈوں سے مسلح پیرامیڈیکل سٹاف کے غنڈے تھے۔ اس کے بعد ہائی کورٹ میں پٹیشن کے ذریعہ ینگ ڈاکٹرز جو ادویات ساز کمپنیوں کے آلہ کار اور کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے ہیں اس ایسوسی ایشن پر فوری پابندی لگانی چاہیے قاتل ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کواگر گرفتار نہ کیاگیا تو یہ ڈاکٹر مافیا ہر چوتھے روز اپنے مذموم عزائم کے لئے دو چار مریضوں کو قتل کردیں گے یہ وقت ہے پاکستان کی عوام کو ان قاتلوں اور مافیا کے کارندوں سے بچانے کا۔لاہورہائی کورٹ میں پی آئی سی حملہ کیس میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے سماعت کی۔گرفتاروکلاء کی رہائی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وکلاء برادری نے اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے افسوس کااظہارکیا،عدالت نے پولیس کوحکم جاری کیاکہ وہ پی آئی سی واقع کے ذمہ داران کاتعین کئے بغیرکسی وکیل کوگرفتارنہ کرے اورایس ایس پی لاہورکوپیرکے روز گرفتاروکلاء حضرات کی تفصیل کے ساتھ طلب کرلیا۔سابق صدور سپریم کورٹ بار حامد خان۔قیوم احمد و دیگرعہدے داران کی پریس کانفرس میں میڈیا اور حکومت کی جانب سے معاملہ حل کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیا۔ وکلاء کے کردار کو مسخ کرنے کی بجائے حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملہ کو حل کیاجائے۔وکلاء کیخلاف یکطرفہ کارروائی کرنیوالے، کروانے والے ان سوالات سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ ہمت ہے تو دلیل سے جواب دیں
پہلا سوال)پولیس نے 15دن پہلے درج ہونے والے مقدمے میں وکلاء پر تشدد کرنے والے ایک دو چار دس چالیس ڈاکٹرزیا پیرامیڈیکس اہلکاروں کوگرفتار کیوں نہیں کیا؟
دوسرا سوال)دو ہفتے وکلاء انصاف کیلئے مظاہرے کرتے رہے تو حکومتی اداروں کے کان پر جوں تک کیوں نہیں رینگی؟
تیسرا سوال)جب صلح ہو گئی تھی تو ڈاکٹر عدنان کی اشتعال انگیز ویڈیو کیوں جاری کی گئی اور وکلا ء کو پی آئی سی کے باہر بلایا گیا؟
چوتھا سوال)جب اڑھائی تین سو وکلاء لاہور بار سے نکلے تو پی آئی سی پہنچنے تک پونے دو گھنٹے تک کسی پولیس افسر نے انہیں مذاکرات کیلئے کیوں نہیں روکا؟
پانچواں سوال) پی آئی سی پہنچ کر پورا ایک گھنٹہ وکلاء پرامن مظاہرہ کرتے رہے تب بھی موقع پر موجود کسی کو خیال کیوں نہیں آیا مذاکرات کا؟
چھٹا سوال)جب پونے دو گھنٹے وکلاء پرامن تھے تو پھر کارڈیالوجی کے اندر سے پتھراؤ کیوں شروع کروایا گیا، ہسپتال کے اندر چھ سات سو تیار کردہ ڈنڈے کس نے پہنچائے ؟
ساتوان سوال)وکلاء کے لاہور بار تا کارڈیالوجی تک سفر اور دو گھنٹے کے پر امن مظاہرے کے دوران پونے دو گھنٹے کے وقت میں کیا یہ ممکن ہے کہ چھ سات سو ڈنڈے تیار ہو سکیں؟
آٹھواں سوال) لاہور بار تا کارڈیالوجی سفر اور پھر ایک گھنٹہ احتجاج کے دوران کیا کسی نے وکیل کے ہاتھ میں ڈنڈا پتھر وغیرہ دیکھے ؟
نواں سوال) جب وکلاء کارڈیالوجی پہنچ گئے، تعداد بھی بڑھ گئی تھی تو پھر کارڈیالوجی کے تمام گیٹس کو بڑے بڑے وائر لاک کیوں نہیں لگائے گئے؟
دسواں سوال) وکلاء کو گیٹس پر معمولی مزاحمت کے بعد اندر گھسنے کے 20 منٹ بعد تک پولیس خاموش تماشائی کیوں بنی رہی؟
گیارہواں سوال)حکومتی ٹاؤٹ کے ایک ویڈیو بیان کے مطابق ایک مریضہ بچی کا ماسک وکیل نے اتارا اور اسکی ویڈیو بھی موجود ہے تو وہ ویڈیو 3 دن گزرنے کے بعد بھی منظر عام پر کیوں نہیں لائی گئی؟ میڈیا یہ ویڈیو لا کر وکیل کی نشاندہی کرے؟
بارہواں سوال) جس پولیس نے پوری طاقت سے وکلاء کوریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنایااس نے ایف آئی آردرج ہونے کے بعد بھی ملزمان کوگرفتارکیوں نہ کیا؟
جب ان سوالوں پر غور کرینگے تو آپ کو وکلاء کیخلاف جنرل مشرف دور سے بھی زیادہ بدترین ریاستی دہشتگردی کا اصل مقصد سمجھ آ جائیگا
 
 

Sidra Ali Shakir
About the Author: Sidra Ali Shakir Read More Articles by Sidra Ali Shakir: 17 Articles with 19149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.