لاہور واقعہ اور انسانیت کا جنازہ

واقعی وہ وقت اچھابلکہ بہت ہی اچھاتھاجب مکان کچے اورلوگ پکے تھے۔اب تومکان پکے حدسے بھی زیادہ پکے ہوگئے مگرافسوس ہم لوگ اتنے کچے اتنے کچے ہوگئے ہیں کہ جس کی کوئی حدنہیں۔انسانیت بھی کوئی بلایاکوئی شے ہواکرتی تھی مگراب ۔۔؟اب انسان توہیں پرافسوس انسانیت نام کی وہ بلایاوہ شے کہیں نہیں۔پہلے جوہاتھ غریبوں ،درمندوں،مریضوں،بے سہاراوبے کسوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کے لئے استعمال ہوتے تھے آج وہ ہاتھ غریبوں ،درمندوں،مریضوں،مجبوروں،بے سہاراوبے کسوں کے گریبان پھاڑنے اوران کی سانس کھینچنے اورجان لینے کیلئے اٹھ رہے ہیں ۔پہلے توکوئی بیمار،کوئی مجبوریاکوئی بے سہاراوبے کس سامنے پڑا اگرتڑپ رہاہوتاتوہمارے جیسے ہی مٹی سے بنے لوگ ان کے سرہانے کھڑے ہوکرنہ صرف ان کے سروں پردست شفت رکھتے بلکہ ہاتھ دعاکے لئے اٹھاکریہاں تک کہتے کہ یااﷲ ۔۔اے پروردگار۔۔ان کوہماری جان لگ جائے۔۔اسے ہماری زندگی دے دیں پرہمارے اس بھائی یابہن کواس درد،تکلیف،بیماری،پریشانی اورمصیبت سے نکال دیں۔مٹی سے بنے جوانسان اپنی زندگیاں،جان اورمال اپنے غریبوں بھائیوں اوربہنوں کے نام کرتے تھے ۔جوانسان ہمیشہ غریبوں ،درمندوں،مریضوں،مجبوروں،بے سہاراوبے کسوں کی دردوتکلیف اورپریشانی پرتڑپ اٹھاکرتے تھے۔رحمدلی،ایمانداری،بھائی چارے،پیارومحبت جیسی خصوصیات اورعادات کی وجہ سے جوانسان اشرف المخلوقات کادرجے پرفائزہوئے ۔مٹی سے بنے وہ انسان اتنے ظالم ۔۔بے حس اوردرندے بھی ہوسکتے ہیں ۔۔؟ایساہم نے کبھی سوچابھی نہ تھا۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہورمیں ہمارے جیسے بے حس اورظالم انسانوں کے ہاتھوں جوکچھ ہواوہ نہ صرف ہم انسانوں کے منہ پرایک زوردارطمانچہ ہے بلکہ یہ انسانیت کے نام پرایک ایسابدنماداغ ہے جسے اب شائدکہ کسی انسان کے لئے دھونابھی ممکن نہ ہو۔کالے کوٹ والے جوقانون کے محافظ سمجھے جاتے ہیں انہوں نے قانون ہاتھ میں لیکرنہ صرف اس ملک کی گلیوں اورمحلوں میں قانون کورسواکردیاہے بلکہ اس ملک سے انسانیت کاجنازہ بھی نکال دیاہے۔کالے کوٹ میں ملبوس ہمارے ان پڑھے لکھے جاہلوں نے ڈاکٹروں سے دشمنی میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال کے اندرمجبوراورلاچارغریب مریضوں اوران کے لواحقین کے ساتھ جوکچھ کیا۔ایساتوکوئی دشمن بھی نہیں کرتے۔ہماراڈاکٹروں سے کوئی لینادینانہیں نہ ہی اس واقعے اورمسئلے میں ہم ڈاکٹروں کوکوئی بے قصوریابے گناہ سمجھتے ہیں ۔ہم مانتے ہیں کہ ہمارے آج کے یہ ڈاکٹرچاہے وہ لاہورکے ہوں یااسلام آباد،پشاور،سوات،چترال،ہزارہ یاملک کے کسی اورعلاقے وہسپتال کے ہوں ۔اپنے اعلیٰ اخلاق اورنت نئے کارناموں کی وجہ سے ان ڈاکٹروں کی اکثریت واقعی مرمت بلکہ اچھی طرح کی مرمت کی مستحق اورقابل ہیں ۔کالے کوٹ والے اگرایسے کسی بدمست یامسیحاکے روپ میں چھپے کسی درندے کی ٹھکائی اورمرمت کرتے توہمیں ان سے کوئی گلہ نہ ہوتامگرافسوس کالے کوٹ والوں نے بھی بغض ڈاکٹرزمیں اسے مجبوراورلاچارطبقے کونشانہ بنایاجوپہلے سے ہی اس ملک میں ڈاکٹرز، پولیس، ٹیچرز، انجینئرز، تاجر اور سیاستدانوں وحکمرانوں کی ظلم وزیادتیوں کی چکی میں بغیرکسی گناہ اورجرم کے پس رہاہے۔ کالے کوٹ والوں کواگرڈاکٹروں سے کوئی مسئلہ تھاتووہ ان ڈاکٹروں کوتارے دکھاتے۔ڈاکٹروں سے دشمنی میں بیڈپرہچکیاں اورآخری سانسیں لینے والے غریب،مجبوراورلاچارمریضوں کوفٹبال بنانایہ کہاں کی غیرت۔۔؟کونسی انسانیت۔۔؟کیسی بہادری۔۔؟اورکونساانصاف ہے۔۔؟ہم توجس مذہب کے نام لیواہیں وہ توکسی مجبور،غریب اورلاچارانسان پرہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتاپھروہ انسان جوہسپتال کے بیڈپرپڑے اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے ہوں ان پرکیسے ہاتھ اٹھایاجاسکتاہے۔۔؟ہسپتالوں اورمریضوں پرتودشمن جنگ کے دوران بھی حملہ نہیں کرتے مگریہ ہم کیسے مسلمان۔۔؟کیسے تعلیم یافتہ ۔۔؟کیسے انصاف پسند۔۔؟کیسے رحمدل۔۔؟اورکیسے بہادرہیں ۔۔؟کہ ہم سے امن میں بھی ہسپتال اورمریض محفوظ نہیں ۔کالے کوٹ والے ظاہری طورپرتوکالے تھے ہی لیکن لاہورواقعے نے ان کاکالاباطن بھی ظاہرکردیاہے۔کالے کوٹ کی طرح ان کالوں کے دل بھی کالے واقعی کوئی بہت ہی کالے ہیں کہ جنہوں نے ہچکیاں لینے والے مریضوں کی کوئی پرواہ کی اورنہ ہی زندگی کی آخری سانسیں گننے والے بیماروں کاذرہ بھی کوئی خیال کیا ۔کوئی سرخ وسفیددل والے انسان توایسی حرکت اورایساظلم کبھی نہیں کرسکتے۔ہم وکلاء کوسمجھتے کیارہے ۔۔؟ اوروہ نکلے کیا۔۔؟جولوگ ہسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑنے والے مریضوں ،مجبوروں اورلاچاروں کاکچھ خیال نہیں کرسکتے وہ کورٹ کچہریوں میں انصاف کے لئے ٹھوکریں کھانے والے مظلوموں پرکیارحم کریں گے۔۔؟ وکلاء کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں سرکارکی کرسی پربیٹھنے کے ساتھ ہی سلمان خان اورشاہ رخ خان بننے والے ہمارے ایسے ڈاکٹروں کوبھی بداخلاقی،بدمعاشی اورغنڈہ گردی کانشہ گھروں میں چھوڑکرہسپتالوں میں آناچاہیئے۔سرکاری ہسپتالوں کے ان ڈاکٹروں کوسرکارنے عوام کے زخموں پرمرہم رکھنے کے لئے بھرتی کیاہے کشتی،کراٹے اورباکسنگ کے لئے نہیں ۔ہسپتال میں آنے والے لوگ درد،تکلیف اوربیماری کی وجہ سے ہمیشہ اپ سیٹ ہوتے ہیں ۔ادھراگریہ ڈاکٹربھی اپنے ماتھے پربارہ بجائیں گے توپھریہ نظام کیسے چلے گا۔۔؟ڈاکٹرزجس طرح اپنے پرائیوٹ کلینک پرہزارقسم کے مریضوں اورہرقسم کے لوگوں کواحسن طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں اسی طرح انہیں سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے غریب،لاچاراورمجبورمریضوں اوران کے لواحقین کواسی پیاراورمحبت کے ساتھ ڈیل کرناہوگا۔ماناکہ پرائیوٹ کلینک میں کھڑک نوٹ ملتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بھی توڈاکٹرخداکی رضاء کے لئے مریض چیک نہیں کرتے۔یہاں بھی ان کوسرکارکی طرف سے بھاری تنخواہیں صرف اس لئے دی جارہی ہیں کہ یہ عوام کااچھے طریقے سے علاج کراسکیں۔ ڈنڈے اٹھانااوردوسروں کے گریبان پھاڑنایہ کوئی بہادری ہے اورنہ ہی ملک وقوم کی کوئی خدمت۔معاشرے میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اورمہذب سمجھنے جانے والے ڈاکٹرزاوروکلاء کے ہاتھوں میں جب دنیاڈنڈے،اینٹ،پتھراورپستول دیکھے گی توپھردنیاہمارے ان پڑھے لکھے ڈاکٹروں اوروکیلوں کے بارے میں کیاکہے گی اورکیاسوچے گی۔۔؟لاہورواقعہ جس نے ہمارے سرشرم سے جھکادیئے ہیں ۔اپنے ہی پڑھے لکھے طبقے کے ہاتھوں آج نہ صرف ہم دنیاکے سامنے تماشابنے ہوئے ہیں بلکہ ہم انسانیت سے بھی شرمندہ ہوچکے ہیں ۔اس واقعے سے اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہم نام کے انسان توہیں مگرہمارے اندرانسانیت نام کی کوئی چیزتک نہیں ۔اصل انسان وہ تھے جودوسروں کی جان لینے کی بجائے انہیں اپنی زندگیاں تک دیتے تھے۔انسانیت کے ماتھے کے اصل جھومروہی تھے جودوسروں کاخون گرانے کی بجائے ان کے ایک ایک آنسو پونجھتے تھے۔اس ملک میں آج ان کی طرح مٹی کے بنے لوگ توہیں مگرافسوس ان جیسے انسان نہیں ۔انسانیت سے ہماری یہ کھیلواڑ دیکھ کرہمارے بڑے بھی قبروں میں کانپ اٹھے ہونگے۔یہ ماردھاڑ،جلاؤگھیراؤ،قتل وغارت،بدمعاشی،غنڈہ گردی اوردہشتگردی یہ ہماری روایات ہے اورنہ ہی ہماری کوئی وراثت۔ہمارے بڑے انسانیت پرخودکوقربان کرکے اس دنیاسے گئے ہمیں بھی اپنے بڑوں کی طرح خودکودوسروں کی فلاح،کامیابی ،خوشی اورسکون کے لئے فناکرکے اس بے چاری انسانیت کوتباہی سے بچاناہوگا۔وکیل ڈاکٹرزسے اورڈاکٹروکیلوں سے کشتی اورکراٹے کرنے کاشوق ضرورپوراکریں لیکن خداراایک بات سب یادرکھیں کہ ہماری اناء،ضداورہٹ دھرمی کی وجہ سے اس ملک میں یہ بچھی کچھی انسانیت بھی اگرنہ رہی توپھرہم انسان بھی کسی طرح نہیں رہیں گے۔یہ انسانیت ہم اورہم اس انسانیت سے ہیں ۔ہم نہ رہے توانسانیت نہ رہے گی اوراگرانسانیت نہ رہی توہم نہ رہیں گے۔اس لئے ڈاکٹرز،وکیل،انجینئرز ،پولیس،تاجر،سیاستدان اورحکمران سب کچھ کریں لیکن خداکے لئے اس ملک میں انسانیت کومارکراپنے ہی ہاتھوں اپنا جنازہ نہ نکالیں ۔
 
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 132615 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.