یوں تو کراچی میں ہر روز ہی کہیں نہ کہیں ادبی
محفل سجتی ہے لیکن ماہِ دسمبر میں کراچی میں ادبی بہار پورے جوبن پر ہوتی
ہے ۔ ایک جانب کراچی آرٹس کونسل میں چار روزہ سالانہ عالمی اردو کانفرنس کا
انعقاد ہوتا ہے تو دوسری جانب ایکسپو سینٹر میں پانچ روزہ سالانہ عالمی کتب
میلہ سجتا ہے ۔ عالمی اردو کانفرنس کے شرکاء جوں ہی کراچی پہنچتے ہیں ۔ شہر
میں ادبی محافلیں زور پکڑ جاتی ہیں جن میں دنیا بھر سے آئے ہوئے اردو ادب
سے وابستہ شخصیات شرکت کرتی ہیں ۔
اس بار کراچی میں بارہویں عالمی اردو کانفرنس جاری ہے جو گذشتہ گیارہ سالوں
سے نہایت کامیابی سے جاری ہے ۔ اس بار وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے
بارہویں عالمی اردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
اردو کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم پاکستان کو جوڑنا چاہتے ہیں۔
اس بار بھارت سے شمیم حنفی ، برطانیہ سے رضا علی عابدی، جرمنی سے عشرت معین
سیما اور عارف نقوی، جاپان سے ہیرو جی کتاؤکا، کینیڈا سے اشفاق حسین، چین
سے ٹینگ مینگ شنگ، ڈنمارک سے صدف مرزا اور امریکہ سے وکیل انصاری بھی آئے
ہیں جب کہ اندرون ملک سے نامی گرامی ادیب بھی پہنچے، اردو کے ساتھ ساتھ
پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو اور بلوچی زبان و ادب پر بھی سیشن بھی منعقد
کیئے گئے۔
عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے
خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے کہا کہ کہ جب اس شہر میں صدا کا قحط پڑا تو ہم نے
اپنی آواز بلند کی، جب آگ اور خون شہر کراچی کی پہچان بن گئے تھے تب ہم نے
شعر و نغمہ کی بات چھیڑی،ہم نے کراچی کی پہچان رنگ، خوشبو، نغمہ و موسیقی
کے حوالے سے کی۔ہم سب کا کراچی ہماری شناخت ہے، ہم اپنی شناخت مٹنے نہیں
دیں گے، آرٹس کونسل کراچی کی بارھویں عالمی اردو کانفرنس کرہ ارض پر اردو
کا سب سے بڑا میلہ ہے،ساری دنیا میں آرٹس کونسل کراچی کی پہچان بن گئی ہے
۔آرٹس کونسل کراچی کی برانڈ ہے۔
بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے پہلے دن کے اجلاسوں میں غالب ہمہ رنگ شاعر،
غالب بزبانِ ضیامحی الدین ، جشنِ فہمیدہ ریاض شامل تھا۔ کانفرنس کے دوسرے
روز کئی اجلاس ہوئے جن میں شعر و سخن کا عصری تناظر ، یارک شائر ادبی فورم
تقریب ایوارڈ ، عصرِ حاضر میں نعتیہ اور رثائی ادب کے جائزہ، کتابوں کی
رونمائی ، دبستانِ اردو اور بلوچ شعرا ، کشور ناہید سے ملاقات ،پختون ثقافت
کیا ہے،فیض احمد فیض شخصیت اور شاعری ،اردو کی نئی بستیاں اور کیا اردو ادب
اور صحافت زوال کا شکار ہے ، حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے ساتھ گفتگو۔
جدید سرائیکی ادب، سرائیکی محفلِ موسیقی،پھٹتے آموں کا کیس محمد حنیف سے
گفتگو، ایک شام انور مسعود کے ساتھ اور دوسرے روز کا آخری پروگرام محفلِ
موسیقی تھا۔
کانفرنس کے تیسرے روز کے اجلاسوں میں اردو فکشن معاصر منظر نامہ، پاکستانی
ثقافت، تخلیقی و تنقیدی جائزہ، کلیات سُرور (سُرور بارہ بنکوی) کا اجرا،
پنجابی ادب ، جاپان اور پاکستان کے ادبی ثقافتی روابط، جدید سندھی ادب ،
ایک شام نعیم بخاری کے ساتھ، یورپین لٹریری سرکل ایوارڈ،ایک شام امر جلیل
کے ساتھ، کتابوں کی رونمائی، میڈیا کتنا قید کتنا آزاد، پاکستان میں فنون
کی صورتحال اور تیسرے دن کی آخری تقریب عالمی مشاعرہ تھا گذشتہ برسوں یہ
مشاعرہ کانفرنس کے کے اختتام پر منعقد کیا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ پہلی بار
اس کا انعقاد تیسرے روز کیا گیا تھا جس میں شائقین کی کثیر تعداد شریک تھی
۔
کانفرنس کے چوتھے اور آخری دن کے اجلاسوں میں معاصر اردو تنقید، کتابوں کی
رونمائی، تعلیمی مسائل اور ان کا حل، اردو کا شاہکار مزاح ، سوشل میڈیا اور
اردو، بچوں کا ادب، پاکستان میں اظہار فن کی آزادی، ایک شام سہیل وڑائچ کے
ساتھ، یاد رفتگان، کشمیر اور خطے میں امن کی صورتحال ، مکالمہ انور مقصود ،
اختتامی اجلاس اردو کانفرنس ایک روایت اور نوجوانوں کا مشاعرہ۔ کانفرنس میں
ایک اجلاس باتیں شبنم کی تھا لیکن میڈم شبنم کی اچانک علالت کے باعث اسے
منسوخ کردیا گیا تھا ۔
کانفرنس کے چاروں روز آرٹس کونسل کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لوگ صبح سے ہی آرٹس
کونسل کا رخ کرتے اور رات کے آخری اجلاس تک وہیں رہتے ۔کئی اجلاسوں میں
لوگوں کی اس قدر شرکت رہی کہ تمام نشستیں ختم ہونے کے بعد اجلاس لان میں
لگی اسکرین پر بھی دکھایا گیا۔ کانفرس کے اختتام پر آرٹس کونسل کے صدر احمد
شاہ نے قراردادیں پیش کی جن کو تمام شرکا نے ہاتھ اٹھا کر منظور کیا۔ عالمی
اردو کانفرنس کی تاریخ میں پہلی بار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ز کے ساتھ
تین شخصیات کو ان کی بہترین خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے چیک بھی دیئے گئے ۔
ان شخصیات میں معروف اسکالر اور لکھاری جناب امر جلیل ، مایہ ناز لکھاری،
ناول نگار جناب اسد محمد خان اور معروف شاعر جناب افتخار عارف شامل تھے۔
کراچی آرٹس کونسل میں ہر سال عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے
مثبت تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں ۔ جیسا کہ ہمیشہ سے کانفرنس کے دوران
کتابوں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے آرٹس کونسل میں
کئی بک اسٹال لگائے جاتے ہیں لیکن اس بارفوڈ فیسٹیول کا بھی اہتمام کیا گیا
تھا ۔ عالمی مشاعرہ ہمیشہ سے کانفرنس کا حصہ رہا ہے لیکن اس بار نوجوانوں
کے مشاعرے کا بھی الگ اہتمام کیا گیا تھا۔ اس بار نہ صرف کراچی آرٹس کونسل
کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے بلکہ بیک وقت کئی سیسشن کا اہتمام کیا گیا تھا
اگر ایک سیشن آڈیٹوریم 1 میں تو دوسرا آڈیورریم 2 اور تیسرا لان میں منعقد
کیا جارہا ہے ان نشستوں میں شرکاء اپنی دلچسپی کے تحت شرکت کر رہے تھے ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی تمام پروگراموں کی تفصیل پر مبنی کتابچہ شائع کیا
گیا ہے جس میں شرکاء کی رہنمائی کی گئی تھی۔
اس بار کانفرنس میں انور مقصود کے مکالمے کا تمام شرکا کو شدت سے انتظار
تھا جو انور مقصود کا غالب سے مکالمے پر مبنی تھا جسے سن کر شرکا خوب محظوظ
ہوئے ۔ رضا علی عابدی نے بچوں کے ادب کے اجلاس میں بچوں کو خوبصورت گیت
سنائے اور اس بات پر زور دیا کہ بچوں کے اجلاس میں شرکا بچوں کی شرکت کو
لازمی بنائیں کیوں کہ بچوں کے حوالے سے گفتگو ہو اور بچوں کی ہی تعداد کم
ہوتو اجلاس بے مقصد محسوس ہوتا ہے، معروف ڈرامہ رائیٹر ایوب خاور کا کہنا
تھا کہ میں نے ڈرامہ لکھنا چھوڑ دیا کیوں اب ڈرامہ وہ لکھا اور دکھایا جاتا
ہے جو چینل کے سیٹھ کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ معروف اینکر اور صحافی حامد میر نے
کہا کہ یہاں ہمیں وہ کچھ کہنے کی آزادی دی گئی جو نہ ہم چینل پر کہہ سکتے
ہیں اور نہ ہی کالم میں لکھ سکتے ہیں ۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ طلبہ یونینوں
کی بحالی اچھا اقدام ہوگا لیکن ہم ماضی تعلیمی اداروں میں ہونے والے کشت
وخون سے بھی خوفزدہ ہیں ۔
دوسری جانب ایکسپو سینٹر میں جاری عالمی کتب میلہ بھی پورے عروج پر ہے صبح
10 بجے سے رات 09 بجے تک جاری رہنے والے اس کتب میلے میں ہمیشہ کی طرح اس
بار بھی عوام کا جم غفیر نظر آیا۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق کروڑوں روپے کی
کتابیں خریدی گئیں پندرہ سال پہلے یہ کتب میلہ ایکسپو سینٹر کے ایک ہال سے
شروع ہوا تھا اب تین بڑے ہالوں میں یہ میلہ منعقد کیا جاتا ہے اور کتب بینی
کا شوق رکھنے والوں کا ہجوم بتارہا تھا کہ اب یہ تین ہال بھی کم ہیں اور
مستقبل قریب میں ان ہالوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔
پانچ روزہ عالمی کتب میلے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
افراد نے شرکت کی ۔ کتب میلے میں رعایتی نرخوں پر کتابیں دستیاب تھیں ۔ کئی
اسٹالوں میں مصنفین بھی قاری کی حوصلہ افزائی کے لیئے موجود تھے جہاں وہ
قارئین کتابیں خریدنے کے بعد مصنفین سے اس پر دستخط کراکر خوشی محسوس کرتے
تھے۔ میلے کےپانچوں روز مختلف اسکولوں کی جانب سے بھی بچوں کی آمد جاری تھی
۔ میلے میں یہ بات دیکھ کر بھی اطمینان اور تسلی ہوئی کہ بچوں اور نوجوانوں
میں کتابیں پڑھنے کو شعور مزید بیدار ہورہا ہے۔اس جدید دور میں جہاں نت نئی
ٹیکنالوجی ہماری دسترس میں ہیں اس کے باوجود آج بھی دنیا کے کئی ترقی یافتہ
ممالک میں کئی کئی منزلہ کتابوں کی لائبریریاں موجود ہیں ۔ اس شہر میں علم
و دانش رکھنے والے لوگوں کا سالانہ عالمی اجتماع ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس
سرکاری سطح پر کوئی لائبریری موجود نہیں یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی
میں یہاں قائم نیشنل سینٹر لائبریری طرز کی لائبریریاں قائم کی جائیں تاکہ
کتب بینی کے شوق کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
|