ساختیات، ادب اور سوسئیر
(Structuralism, Literature & Ferdinand de Saussure)
ساختیات نے ناقدین اور قارئین کی بیشتر من پسند، قیمتی اور عزیز آراء کو
چلینج کیا۔ جیسا کہ یہ رائے کہ ایک ادبی تحریر ایک مصنف کے ذہن اور شخصیت
کی عکاسی کرتی ہے اور یہ بھی کہ ادب دراصل ہمیں انسانی زندگی کے بارے میں
کسی طرح کی حقیقی سچائی سے روشناس کراتا ہے۔
ساختیاتی مفکرین نے دو ٹوک انداز میں یہ واضح کر دیا کہ مصنف مر چکا ہے اور
ادبی ڈسکورس کے پاس سچائی نام کی کوئی چیز نہیں۔1968 میں لکھے گئے ایک اہم
مضمون میں، فرانسیسی تھیورسٹ رولاں بارتھس نے ساختیاتی نکتہ نظر کو شاید اس
کی موثر ترین صورت میں پیش کیا۔اس نے دعوٰی کیا کہ مصنفین زیادہ سے زیادہ
یہ کرسکتے ہیں کہ پہلے سے موجود تحریروں کو باہم ملا کر کسی نئی ترکیب میں
یکجا کر دیں۔وہ تحریر کو اپنی ذات کے اظہار کے لیے استعمال نہیں کر سکتے
بلکہ وہ تو پہلے سے وضع شدہ زبان کی نقشہ کشی کر سکتے ہیں اور یا پھراس
کلچر کی جو زبان میں پہلے سے ہی (اساسی طور ر)اظہار شدہ ہوتا ہے ۔ رولاں
بارتھس کے اپنے الفاظ میں:
It is “always already written”. (Roland Barthes)
ساختیاتی مفکرین خود کو اینٹی ہیومانسٹ کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔کیوں کہ
وہ ادبی تنقید کی ان تمام صورتوں کی مخالفت کرتے ہیں جو اس با ت پر یقین
رکھتی ہیں کہ معانی کا تعلق ایک انسانی "موضوع "یعنی ہیومن سبجیکٹ سے ہے۔
فرڈی نینڈ ڈی سوسیئر (1913-1857ء):
ایک ایسا انسان جس کے پیش کردہ تصورات نے جدید ادبی تھیوری پر عظیم اثرات
مرتب کیے۔ہم سوسئیر کو ساختیاتی مفکرین میں شمار کریں گے کیوں کہ یہی وہ
میدان ہے جہاں اس کے افکار خصوصی طور پر مضبوط اور ٹھوس اثرات کا سبب
بنے۔لیکن کلچرل تھیوری اپنے آپ میں مکمل طور پر انھی امتیازات کی بدولت
وسعت آشنا ہوئی جنھیں سب سے پہلے سوسئیر نے واضح کیا۔اگر اس دعوٰی میں کوئی
سچائی ہے کہ تمام تر مغربی فلسفیانہ روایت دراصل افلاطون کے فلسفیانہ افکار
کے حواشی کا ایک سلسلہ ہے تو پھر ہو بہو یہی بات سوسئیر اور کلچرل (اور اسی
طرح ادبی) تھیوری کے تعلق کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
سوسئیر کا" لانگ" اور "پیرول" میں امتیاز یا فرق کی نشاندہی کرنا،ساختیاتی
تھیوری کے لیے اہم ترین مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔"لانگ" زبان کا وہ نظام ہے
جس سے ہم مشترکہ طور پر وابستہ ہوتے ہیں اور جس کو ہم گفتگو کرتے وقت
لاشعوری طور پر برت رہے ہوتے ہیں۔"پیرول" وہ زبان ہے جسے دراصل ہم انفرادی
اظہار، تکلم یا پھر گفتگو کے دوران محسوس کرتے ہیں۔
(Launge & Parole)
سوسئیر کے نزدیک، زبان کے انفرادی اظہار یا تکلم کی بجائےزبان کے اساسی
نظام کا منظم مطالعہ ہی دراصل لسانیات کا بنیادی وظیفہ ہے ۔ساختیاتی ادبی
ناقدین کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی ادبی کام کے اساسی اصولوں یا گرامر
کا مطالعہ کیا جائےنہ کہ مخصوص طرز اظہار،جذبے یا خیال کا۔
سوسئیر کا ایک اور اہم کارنامہ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں امتیاز قائم
کرنا ہے۔سوسئیر کے نزدیک لفظ اپنے آپ میں اشیاء یا چیزوںکا براہِ راست
حوالہ ہر گز نہیں ہوتے۔دوسرے لفظوں میں ، لفظ اور اس شے کے بیچ (جسے لفظ
بیان کرتا ہے) کوئی قابل فہم یا قابلِ امتیاز تعلق موجود نہیں ہوتا۔الفاظ
اصل میں نشانا ت ہیں(سائن) ہیں جس کے دو پہلو ہیں: سگنی فائر اور سگنی
فائیڈ۔
(Sign = Signifier + Signified)
لفظ جو لکھا اور بولا جاتا ہے وہ سگنی فائر (معنی نما)ہے اور وہ تصور (ذہنی
تصور)جو کسی لفظ کو لکھتے یا بولتے وقت ہمارے دماغ میں ہوتا ہے یا ابھرتا
ہے، سگنی فائیڈ (تصورِ معنی)کہلاتا ہے۔
ہمیں معانی کا اداک ، کسی لفظ کے کسی شے کے ساتھ تعلق کی بدولت نہیں ہوتا
بلکہ ہم معنی کا ادراک اس لیے کر پاتے ہیں کیوں کہ ہر لفظ رشتوں کے ایک
نظام یا نشانات کے نظام (سائن سسٹم) کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
اس تجزیاتی طریقہ کار کا اطلاق زبان کے ساتھ ساتھ دیگر مظاہر پر بھی بخوبی
کیا جا سکتا ہے۔اس اصول کی بہترین عمومی اور آسان وضاحت ٹریفک کی بتیوں کی
مثال کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔سرخ، پیلا اور سبز رنگ بنیادی طور پر کوئی
معانی نہیں رکھتے لیکن (تینوںرنگوں سے) "رک جاؤ"، "تیار ہو جاؤ" اور "چل
پڑو" جیسے معانی کا اظہار ان رنگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اُس رشتے یا تعلق
کی بدولت ہے جو ٹریفک کی بتیوں کے ایک مخصوص (ساختیاتی)ربط کے تناظر میں
(ان تینوں رنگوں کے درمیان) قائم ہو رہا ہے۔اس طرح کے نشانات کی سائنس
سیمیاٹک یا سیمیالوجی کہلاتی ہے جس کا تعلق ساختیات سے ہے ۔چونکہ ساختیات
تہہ نشین یا اساسی نشانیاتی نظام میں دلچسپی رکھتی ہے لہذا ساختیات کا یہی
وظیفہ ادب کے مطالعے میں ساختیات (کے اطلاق) کی بنیادی اہمیت کو واضح کرتا
ہے۔
(Semiotics, Semiology)
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی ساختیں ہیئت کی نسبت زیادہ اساسی نوعیت
کی حامل ہیں بلکہ یہ ساختیں ادبی ہیئتوں کی نسبت اوران کے بارے میں روایتی
خیالات یا اندازوں سے بھی کہیں زیادہ گہری اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
کسی نہ کسی طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ساختیں ہی دراصل معانی کے اظہار یا قیا
م کو ممکن بناتی ہیں۔
Reference:
(The Pocket Essential: LITERARY THEORY by David Carter, Pages 41-43,
2006)
|