ماضی و حال کا کراچی

کراچی ایک روشنیوں کا شہر بحیرہ عرب کے کنارے آباد ایک ایساشہر جہاں یورپ سے لوگ تجارت کرنے کے لئے آرہے ہیں ایک ایسا شہر جہاں ضروریات زندگی کی تمام آسائشیں اپنے موجودہ وقت کی تمام بہترین سے بہترین سہولیات موجود ہیں یہاں موجود ایسی سڑکیں جنہیں اکثر باقاعدگی سے دھویا جاتا ہے یہاں موجود سرکولر ریلوے کے ایسے انتظامات یہ اپنے وقت کے بہترین ریلوے نظام میں شمار کیے جاتے ہیں یہاں موجود پبلک ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام سڑکوں پر سڑکوں پر ٹرام کی سواری موجود ہونا جو لوگوں کو آسان سفری سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔اکثر میں جب کراچی کا سوچتا ہوں تو ماضی کی حسین یادوں میں ان حسین مناظر میں اسی طرح گم ہو جاتا ہوں لیکن جب خیال آتا ہے کہ وہ ماضی کا میرا کراچی تھا جواب صرف میرے خیال میں ہے وہ جن کے خیالوں میں گم رہا۔میرے آج سے کراچی کو تو لوڈشیڈنگ کا گڑ کہا جاتا ہے وہ جو ماسی میں ایک ترقی یافتہ شہر تھا اسے دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کہا جاتا ہے بدقسمتی سے کراچی کے حالات اتنے بدترین ہوچکے ہیں جس کے سبب کراچی کے شہری دوہرا عذاب کا شکار ہیں جو کہ ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ کچھوے کی رفتار سے چلنے والے سست روی کا شکار کراچی کے ترقیاتی کام عوام کے لیے عذاب بن چکے ہیں کراچی میں اس وقت مختلف مقامات پر ترقیاتی کاموں کے نام پر دھول مٹی اڑانے کا مقابلہ جاری ہے اس وقت شہر کی کوئی ایسی سڑک نہیں جو ترقیاتی کاموں کے زد میں نہ آئی ہو ۔گرین لائن منصوبے کی تاخیر میں شہریوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہےمتعدد مقامات پر گھنٹوں ٹریفک دیکھنے کو ملتا ہے روزانہ ہزاروں افراد اپنے کاموں پر وقت کے مطابق نہیں پہنچ پاتے خاص کر مریضوں کے لئے بہت مشکلات کا سامنا ہے ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا بچارے مریض راستے میں تڑپ تڑپ کے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔یہ صرف ایک مسئلہ نہیں اس کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسے مسائل ہیں جن میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے بجلی پانی سیوریج گیس تعلیم اور صحت کن کن شعبوں کی بات کی جائے یہاں تو جس شعبے پر نظر ڈالی جائے وہ اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے سوال یہ ہے کہ بارہ سال سے سندھ پر قابض سائیں سرکار اندرون سندھ کو یورپ کی طرز کا بنانے کے دعوے دار کراچی کے ان معاملات پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں صرف اس وجہ سے کہ کراچی کی باشعور عوام ان کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بنتی اور انہیں ووٹ نہیں دیتی بھٹو اور بی بی کے نام پر سیاست کرتے یہ حکمران ہر وقت وفاق کے تعاون نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں اور جب کسی اور جانب سے کراچی کے ان حالات کو سدھارنے کی بات کی جائے تو یہ صوبائی خودمختاری آئین کی اٹھارویں ترمیم پر ڈاکہ ڈالنے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہنا نہیں کچھ کرنا ہے نہ کسی اور کو کچھ کرنے دینا ہے انہیں کراچی کو انہی حالات میں پھسائے رکھنا ہے انہیں سے تو صرف کراچی کے ٹیکسوں کو اکھٹا کرنے سے مطلب ہے لیکن ہم کراچی والے پھر بھی اتنی حوصلہ مند ہیں کہ ان سے باتوں کا شکوہ کم ہیں کیا کرتے ہیں اور اچھی امید وابستہ کئے رہتے ہیں سست روی کا شکار ہی سہی کچھوے کی رفتار سے ہی صحیح لیکن کراچی ترقی کرے گا اسی امید پر کے آنے والا سال 2020 کراچی کے لیے مثبت تبدیلیوں کا سال ہوگا
 

Muhammad Hamza Khan
About the Author: Muhammad Hamza Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.