حضرت ابو مسلم خولانی رحمتہ اللہ

وہ حضور اقدس ﷺ کے عہد مبارک میں مسلمان ہوگئے تھے لیکن آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا۔ان کی زندگی زہد و عبادت میں بے مثال ہے۔آپ رحمتہ اللہ اکثر سفر جہاد میں روزے رکھا کرتے تھے۔ایک مرتبہ کسی نے کہا سفر میں روزے رکھنے سے آپ بہت کمزور ہوجائیں گے فرمایا وہی گھوڑے منزل کو پہنچتے ہیں جو چل چل کر دبلے ہوگئے ہوں۔آپ غلاموں کو بھی بہت آزاد کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے پاس صرف ایک کنیز رہ گئی تھی۔ایک دن دیکھا کہ وہ کنیز رو رہی تھی و جہ پوچھنے پر بتایا کہ آپ رحمتہ اللہ کے بیٹے نے مارا ہے۔اس پر بیٹے کو بلایا اور کنیز سے پوچھا کہ کس طرح مارا ہے عرض کیا تھپڑ مارا تھا فرمایا تم بھی اس تھپڑ لگاؤ کنیز بولی میں اپنے آقا کو کس طرح تھپڑ مار سکتی ہوں فرمایا کیا تم نے اسے معاف کردیا عرض کیا کہ معاف کردیا آپ رحمتہ اللہ نے فرمایا دنیا و آخرت میں کہیں اپنا حق تو نہیں مانگو گی کہا نہیں ۔تو آپ رحمتہ اللہ نے فرمایا دو گواہوں کے سامنے اقرار کرو آخر اس نے دو گواہوں کے سامنے اقرار کیا تو آپ رحمتہ اللہ نے فرمایا میں بھی ان دو گواہوں کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ یہ کنیز اللہ کی رضا کیلئے آزاد ہے ۔اس پر کسی نے کہا آپ رحمتہ اللہ نے صرف ایک تھپڑ کی وجہ سے اسکو آزاد کردیا ہے جب کہ آپ کے پاس اور خدمت گار بھی نہیں ہے۔ فرمایا چھوڑو بھی کاش ہم برابر سرابر چھوٹ جائیں نہ کسی کا حق ہم پر ہو اور نہ ہمار ا کسی پر ہو۔

آپ رحمتہ اللہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنا دیا تھا حضورﷺ کی مبارک زندگی کے آخری آیام میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اس وقت اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رحمتہ اللہ کو اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کیلئے دعوت دی لیکن آ پ رحمتہ اللہ نے صاف انکار کردیا پھر اس نے کہا تم محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو آپ رحمتہ اللہ نے فرمایا جی ہاں اس پر اس ظالم نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور آپ رحمتہ اللہ کو اس میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو بے اثر کردیا اور وہ صحیح سلامت نکل آئے۔یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے ساتھیوں پر ہیبت طاری ہوگئی پھر ان سب نے یہ طے کیا کہ آپ کو جلا وطن کردیا جائے ورنہ اسود عنسی کی نبوت خطرے میں پڑ جائے گی اور اس کے ماننے والے ہل جائیں گے ۔چناچہ آپ رحمتہ اللہ وہاں سے نکل کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔یہاں تشریف لاکر معلوم ہوا کہ آپﷺ کا وصال ہوگیا ہے۔اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ خلیفہ مقرر ہوگئے ہیں۔ اب وہ مسجد نبوی ﷺ کے ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنے لگے ۔تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ آپ رحمتہ اللہ کو ایک اجنبی مسافر سمجھ کر ان کے پاس آئے وہ نماز پڑھ چکے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہاں سے آئے ہو۔فرمایا یمن سے اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ ہمارے ایک دوست کو اللہ کے دشمن (اسود عنسی )نے آگ میں ڈال دیا تھا لیکن آگ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا تو بعد میں اسود عنسی نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا اس پر حضرت ابو مسلم خولانی رحمتہ اللہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ ان کا نام عبداللہ ثوب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ بول اٹھے کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں فرمایا جی ہاں بس یہ سننا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ان کی پیشانی کو چوم لی۔اور ان کو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ کے پاس لے آئے تو انھوں نے ان کو اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ کے اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا معاملہ کیا۔

شانِ اولیاء کرام و اکابرین امت صفحہ نمبر ۱تا ۲
Muhammad Ali Checha
About the Author: Muhammad Ali Checha Read More Articles by Muhammad Ali Checha: 25 Articles with 104115 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.