جانباز وطن سے شہید وطن تک اور بعد کے حالات

قارئن! ایک ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے ۔اسکے بدلے میں شہریوں کا فرض ہے وہ اپنی صلاحیتیں قومی مقاصد کیلئے بروئے کار لائیں۔اگر ریاست میں آئین و قانون کی جگہ خواہشات غالب ہونگی تو پھرریاستی کے شہریوں کو آئین کے تحت دئیے گئے حقوق ملنا مشکل ہوجائیگا۔اور قانون بھی امتیازی بن کررہ جائیگا ۔کمزور الگ ،طاقتور الگ سلوک کا مستحق قرار پائے گا۔جبکہ اس کیفیت میں مادر وطن کا محافظ بھی ’’بے توقیر‘‘کرنے سے گریز نہیں ہوگا۔زیرنظر تحریرمیں دیکھتے ہیں کہ ملک وقوم کے محافظ اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دیتے ہوئے جانیں بھی قربان کرنے پر تیار رہتے ہیں حالانکہ وہ قلیل سی تنخواہ/مراعات لیتے ہیں۔دُنیا کوئی آدمی محض روزگار کی خاطر اپنی جان جوکھن میں نہیں ڈال سکتا۔لیکن’’ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اﷲ‘‘پر کاربندپاکستانی فوجی کا جینا ،مرنا وطن اور اہل وطن کیلئے ہے،یہی اِسکا مقصد حیات بھی ہے۔یہی وجہ ہے ،کہ جب موت سامنے آکھڑی ہو ،تب بھی اِسے صرف اپنا مقصد (یعنی دفاع وطن و اہل وطن)یاد ہوتا ہے ،اور اپنے ماں باپ ،بہن بھائی ،بیوی بچوں سے اپنا والہانہ پیار ’’عزم کی راہ میں حائل‘‘نہیں ہونے دیتا ۔یہاں تک کہ دفاع وطن کا عظیم فریضہ انجام دیتے ہوئے دھرتی ماں کی گود میں سما جاتا ہے۔شہید وطن نائیک سید محمد حسین شاہ سیکنڈ اے کے رجمنٹ کی مثال کافی ہے جو ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔اور زمینداری ہر دور میں فکر معاش سے آزادرکھتی ہے۔لیکن موصوف پاکستان سے محبت اور کشمیرکی آزادی کیلئے کچھ کرلینے کی تڑپ لیکر پاک فوج میں بھرتی ہوئے۔اور وقت آنے پر اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا ۔حالانکہ وہ چاہتے تو ’’ٹیلی گرام‘‘وصول ہی نہ کرتے اورچھٹی ختم ہونے تک گھررہ جاتے تو جان بچ سکتی تھی۔ مگر وہ پاکستان سے محبت اور کشمیرکی آزادی کی خاطرقربان ہوئے ۔اُنکے پیارے، پاؤں کی زنجیرنہ بن سکے۔نہ بیوی بچے ،نہ والدین اور نہ کوئی دوسرا ۔۔۔مگر ایک فوج کی قربانی سے شروع ہونیوالی کہانی کہاں تک پہنچتی ہے؟آج سکا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب سے پاکستان قائم ہوا ،تب سے لیکر اب تک فوجیوں نے جتنی قربانیاں دیں ،وہ وطن اور اہل وطن کیلئے ہیں، شہید ہونیوالے فوجیوں کی قربانی کا احساس کرنا ’’ریاست کی ذمہ داری‘‘ہے لیکن کیا احترام ہورہا ہے؟؟حالانکہ قومی غیرت کی علامت ، یہی جانبازہیں۔اہل وطن کا اولین فریضہ ہے کہ وہ ناصرف وطن سے محبت کا عملی اظہار کریں ،بلکہ شہید کے لواحقین کیلئے بھی خصوصی معاون و مددگار بن جائیں،تاکہ سرحد پر ،ملک کے اندر اور کہیں بھی ’’دفاع وطن ‘‘کیلئے برسر پیکار ’’فوجی ‘‘تک یہ پیغام جائے ،کہ اُسکی خدمات کیلئے اہل وطن میں کتنا احترام ہے ،اور شہید کی قربانی سے حاصل ہونیوالی ’’عافیت ‘‘کے تناظر میں یہی اہل وطن ’’اپنے شہید فوجی‘‘کے وارث ہیں۔مگر کیا ایسا ہے؟؟؟۔۔۔۔ہرگزہرگز نہیں ،پھر یہ بیان بازیاں کیوں ؟۔۔۔وطن پر جان قربان کرنیوالے جانباز کا تابوت کتنا بھاری ہوتا ہے ،اسکا احساس صرف اور صرف ’’لواحقین‘‘کو ہوتا ہے ،اولاََماں باپ کو ۔۔جن کا لخت جگر خون نہایا ہوا وردی سمیت ’’دھرتی ماں‘‘کی گود میں سماتے دیکھنا پڑتا ہے ۔۔۔ایسا بھی ہوتا ہے ،کہ وطن پر مرمٹنے والا اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور بڑھاپے کی لاٹھی ہوتا ہے ۔۔۔ایسا بھی ہوتا ہے ،کہ شہید وطن کا منصب پانیوالے فوجی کی شادی ہوئی ہو ،اورلواحقین میں ایک یا اس سے زائد بچے بھی چھوڑے ہوں۔۔۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ فوجی جب شہید ہوا،تب اُسکے والدین پہلے ہی فوت ہوچکے ہوں ،اور بیوی ،بچے ہی ہوں،جن کا واحد سہارا خود یہی فوجی ہے ۔۔۔یہ تو ایک پہلو ہے ،اب دوسرا پہلو بھی دیکھ لیجئے ،فوجی نے اپنی جان قربان کردی ،اُ سکا تابوت فوجیوں کے کندھوں پر آیا ،عوام کی بڑی تعداد کے سامنے پورے فوجی اعزاز کیساتھ ’’سپردخاک کردیا گیا ،اورقبرپرسلامی دی گئی ۔سبز ہلالی پرچم بھی لہرا دیا گیا،اور پھر تھوڑے وقت میں شہید کے واجبات ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے ،تو شہید فوجی کے لواحقین باہمی طور پر ’’رشتوں کے احترام‘‘سے دستبردار ہونے لگتے ہیں ۔۔۔شہید فوجی کے والدین /بیوی /بیوی بچے /بھائی بہن سبھی حصہ بقدر جثہ ’’واجبات‘‘سے استفادہ چاہتے ہیں۔فوجی رولز کیمطابق اگرشہید فوجی کے والدین بقید حیات ہیں ،اور بیوی بچے نہیں ،پھر واجبات شہید کے والدین کو ملیں گے۔۔۔اگر والدین کیساتھ ساتھ شہید کی بیوی ہے ،اور بچہ/بچے نہیں،تو وہ ’’واجبات‘‘میں نصف کی حقدار کہلائے گی ،اور باقی نصف والدین کو ملے گا۔۔۔اگر شہید کے والدین کے علاوہ بیوی اور بچے بھی ہیں ،تو یہاں پہنچکر ’فوجی رولز میں’والدین فارغ‘‘ہوجاتے ہیں۔اگر شہید کے سسرال والے اچھے خاندانی لوگ ہوں تو پھر بیوہ خاتون اپنے بچوں سمیت اپنے شہید شوہر کے والدین کیساتھ ’’بیٹا‘‘بن کر رہنے لگتی ہے ۔ایسا بہت کم ہوتا ہے ،زیادہ تر بیوگان اپنے ماں باپ ،بھائیوں سمیت دیگر رشتہ داروں پر اعتماد کرتے ہوئے اُنکی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتی ہیں۔اور فوج کی جانب سے ملنے والے مالی وسائل سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔۔۔وطن کے جانبازوں کی ذاتی زندگیوں پر بھی نظر دوڑائی جائے تب معلوم ہوتاہے کہ یہ سپاہی کتنے عظیم لوگ ہیں ،جو اپنے وطن اور اہل وطن کیلئے جانیں تک قربان کرجاتے ہیں۔تو کیا وطن اور اہل وطن پر شہید جانبازوں کے جو قرضے ہیں ،وہ ادا ہوتے ہیں؟وطن سے مُراد وہ قیادت ہے ،جسکے ہاتھ میں ملکی باگ ڈور ہے ،قیادت کا اولین فریضہ بنتا ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے ،جس سے شہدائے وطن کے گھرانوں کو یہ احساس رہے کہ وطن کی خاطر اُنکے پیاروں نے اپنی جان قربان کی ،اب وطن شہید کی قربانی کا احترام و احساس کرتے ہوئے ایک طرف شہید کی قربانی سے نئی نسل کو روشناس کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے ،تو دوسری طرف شہید کے والدین ،بیوی بچوں کو مسائل کی دلدل سے بچانے کیلئے اُسی جذبے سے کام لے رہا ہے ،جس جذبے کیساتھ اپنی عسکری زندگی میں فوجی جانباز اپنے والدین ،بیوی بچوں کیلئے ’’آسانیاں‘‘پیدا کرنے کیلئے کیا کرتا رہا۔۔۔۔یہ تو ملکی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔اب اہل وطن کی ذمہ داری ۔۔۔مملکت میں بسنے والا چاہے کوئی بھی ہو ،اُسکے نام ،نسل ،قبیلے ،علاقے ،مذہب ،مسلک کوئی بھی ہو،شہدائے وطن سب لوگوں پر مشتمل ’’قوم‘‘کے محسن ہیں۔جب قوم کے سپوت نے ’’اپنی جان‘‘قربان کردی ،تو اب کسی دعوے دلیل کی گنجائش کہاں،عملی طور پر جانباز شہید ’’سرخرو ‘‘ہوچکا۔اس لئے اہل وطن کا بھی یہ فرض اولین بنتا ہے کہ وہ ناصرف وطن عزیز کے جانبازوں کی قربانیوں سے عملی عقیدت ظاہر کریں ،بلکہ شہیدوں کے گھرانوں کیساتھ احساس واحترام کا رشتہ استوار کریں ،اورکسی مقام پر اُنکا استحصال نہ ہونے دیں۔۔۔۔جب وطن اور اہل وطن کے محافظوں نے اپنے ذمہ کوئی قرض باقی نہ چھوڑا ،بلکہ وہ اپنی جانیں دیکر مقروض کرگئے ،تو کیا وطن اوراہل وطن نے مسلح افواج کے شہیدوں کا قرض اُتارا؟؟؟یہ بہت عام ،سادہ اور سیدھا سا سوال ہے۔مگرجواب تسلی بخش ہو،شاید ناں میں ۔مجھے ذاتی طور پر اُن ’’عناصر‘‘پر افسوس ہورہا ہے ،جو کسی بھی شہید وطن کے بارے میں پُرجوش بیان جاری کرنے اور وقتی طور پر ’’فوٹو سیشن‘‘کے اہتمام کیساتھ لواحقین کے پاس حاضری دیتے ہیں،یہ عناصر چاہے ،وطن سے ہوں ،یا اہل وطن سے ۔مقصد صرف حاضری لگانا ہوتا ہے ،اپنی وابستگی ظاہر کرنا ہوتا ہے۔۔۔پھر کسی اور تابوت کے انتظار میں ہوتے ہیں شاید ۔۔۔یہ بد بخت نہیں جانتے ،کہ جس شہید وطن کے حوالے سے پُرجوش لفظوں پر مشتمل بیان داغ کر حاضری لگوئی ہے ۔جس شہید وطن کے اہلخانہ (والدین ،ودیگر)کے پاس جاکر حاضری لگوانے کی فوٹو بنوائی ہے۔وہ شہید وطن ،مادر ِوطن اوراہل وطن کیلئے اکیلا’’قربان نہیں ہوا‘‘بلکہ اُسکے ساتھ ساتھ والدین ہیں ،بے شک اُنھیں بیٹے کی قربانی پرفخر ہوگا،مگر اُنھیں تاحیات اپنے لخت جگر کی یاد ستاتی رہیگی ۔۔۔۔دوسرے نمبر پر بیوی /بچے ہیں،اگر والدین ہیں ،تو شہید کا تابوت اُنکے حصے میں آتا ہے ،اوراُنکی یہ ذمہ داری بنتی ہے ،کہ وہ ’’عملی طور‘‘پر ایسا رویہ اپنا لیں ،جس سے ’’شکرگزاری و اظہار عقیدت‘‘کا عملی اظہار ہوتا ہو،یقینی بات ہے ،فوج کی طرف سے شہید کے تمام واجبات ’’بیوی بچوں ‘‘کیلئے وقف ہوتے ہیں۔بڑھاپے کی لاٹھی (سہارے)کا چھن جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوسکتا۔ اِس حقیقت کا احساس اور ادراک اُنھیں ہی ہوسکتا ہے ۔جو زندہ دِل ،زندہ ضمیر لوگ ہوں ۔۔۔مادر وطن پر قربان ہونیوالا جانباز’’اگرچہ شہید‘‘قرار دیا جاتا ہے ،مگر میرے نزدیک وہ صرف شہید نہیں ،بلکہ انتہائی’’مظلوم شہید‘‘ہے ۔اِسکی مظلومیت کا بڑا سبب ’’واجبات‘‘ہیں۔حیرت ہے ،اسلامی ملک کی اسلامی فوج ،جسکا نصب العین ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اﷲ ‘‘ہے ۔اسِکے رولز میں ایک فوجی کے والدین ،بیوی بچے میڈیکل کی بِلامعاوضہ سہولیات کے یکساں مستحق قرار پاتے ہیں ،مگر دوسری طرف اسی فوجی کی قربانی(شہادت)کے بعد فوج کی تمام تر سپورٹ صرف اور صرف بیوی بچوں تک محدود ہوجاتی ہے۔والدین کے حصے میں خون کے آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔۔۔اِن زمینی حقائق کا احساس و ادراک ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔بِلاشُبہ وطن سے محبت ایمان ہے،اور محبت ایسے جذبے کا نام ہے ،جس میں دیا جاتا ہے ،لُٹایا جاتا ہے ،یہ جذبہ جب عروج پر ہو تو ’’ایمان ‘‘بن جاتا ہے ۔محبت اور ایمان کا پیمانہ ’’عمل‘‘ہے ۔اگر وطن سے محبت ہوگی ،عمل سے نظر آئیگی ،وطن سے محبت ہوگی ،تو ’’ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اﷲ ‘‘کا نصب العین اختیار ہوگا۔پھر اس مقام پر پہنچنے والے کیلئے زندگی کے معنے بدل جاتے ہیں۔اور اس مقام پر کھڑے جانباز،سپاہی کا اعزاز پاتے ہیں۔پھر موت آئے ،یا موت پر جاپڑیں ،دائمی فتح و کامرانی اُنھی کی ہوتی ہے ۔مقام فکر ہے ،سپاہی تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے اپنے فرض کو بجا لاتا ہے ،اور وقت آنے پر کسی خوف ،رنج و غم کے بغیر جان دے دیتا ہے ۔دُنیا میں سب سے قیمتی شئے ’’جان‘‘ہے ،اورسپاہی تواپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان جیسی انمول دولت لُٹا کر سرخرو ہوگیا۔وطن میں بسنے والے کسی بھی علاقہ ،صوبہ ،قبیلہ ،مذہب ،مسلک ،زبان سے تعلق رکھتے ہیں ۔اُنکی حفاظت کرتے ہوئے جانیں قربان کرنیوالوں کے گھرانے مسائل کے شکار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وطن اور اہل وطن نے عملی طورپر’ ’اپنی ذمہ داریوں‘‘کااحساس نہیں کیا۔اس ساری کیفیت/زمینی حقائق کا فوجی خدمات پر اثرانداز ہونہ ہو ،مگر اُن لوگوں پر ضرور اثر ہوتاہے ،جو فوجیوں کی مظلومیت اور شہادت کے بعد کے منظر نامے سے محسوس کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Zeeshan Askari
About the Author: Zeeshan Askari Read More Articles by Zeeshan Askari: 5 Articles with 4700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.