مسلمان حساس اور بیدار قوم ہے،مسئلہ قیادت کا ہے۔

جب بھی مسلمانوں کے ساتھ سیاسی معاملات پیش آتے ہیں اور انہیں مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے توعموما تجزیہ نگاروں میں ایک جملہ گردش کرتا نظر آتا ہے کہ مسلمان بے حس ہیں ،بے ضمیر ہیں ، مردہ قوم ہیں جبکہ یہ تجزیہ خصوصا مشکلات کے وقت بالکل غیرمناسب اور مسلمانوں کی ہمت وحوصلے کو توڑنے والا ہے ۔ گوکہ ہمارے پاس ایمانی وعملی کمزوری کے ساتھ تعداد کی بھی کمی ہے ، اسلحہ جات تو ہم گھروں میں رکھتے ہی نہیں ، ہمارا بھروسہ اﷲ پر ہوتا ہے ۔ گھر میں سانپ نکل آئے تو بمشکل لاٹھی تلاش کرپاتے ہیں ، نیزہ ، بھالا اور تلواروبندوق تو دور کی بات ہے۔

اس وقت ہندوستان پوری طرح بھگوا طاقت کی لپیٹ میں ہے ،سنسد سے لیکر عدالت وکچہری تک ہرجگہ بھگوائی قوت واثر کا بول بالا ہے ،ایسے لگ رہا ہے جیسے کل ہندوستانی انگریزوں کے غلام تھے اور آج بھگوائی کے غلام ہیں ، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر فرق کہیں ملتا ہے تو بھگوائی میں دور دور تک انصاف نظر نہیں آتا جبکہ انگریزوں میں دوردور تک کہیں کہیں انصاف نظر آجاتا ہے ، انگریزکا اصل نشانہ مسلمان تھے ، کہیں کہیں ہندو بھی نشانے پر ملتے ہیں جبکہ بھگوا حکومت صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر رہی ہے اس کا جیتا جاگتا نمونہ ماب لنچنگ جوکہ اکثر مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے (بلکہ یہ کہہ لیں کہ مسلمانوں میں دہشت پھیلانے اور انہیں مٹانے کا منصوبہ ہے) اس پر بالکل سردمہری اختیار کرنا ،کشمیر سے 370 ہٹانا، طلاق پر پابندی اور سزا نافذ کرنا ،بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کا عدالت عظمی سے فیصلہ صادر کرنااور سیکولر بھارت میں صرف مسلمانوں کے خلاف کیب(شہری ترمیم بل) جیسا ظالمانہ بل پاس کرنا دیکھنے کو ملتا ہے ۔

اب تک بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جتنے بھی قوانین پاس کئے گئے ان میں سب سے زیادہ ظالمانہ ، وحشیانہ اور سفاکانہ قانون کیب ہے ۔ جس وقت کیب بل نافذ پاس کرانے کی بات چل رہی تھی تو کسی کو امید بھی نہیں تھی کہ بھاجپا سرکار دونوں ایوانوں سے کیب پاس کرالے جائے گی مگر جتنی آسانی سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے اس سرکار نے کیب پاس کرالیا اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے کہ اگر یہ قانون اٹل رہا اور پورے ملک میں نافذ کردیا گیا تو پھراتنی ہی آسانی سے بھارت سے مسلمانوں کا صفایا بھی کر لے جائے گی۔ مسلمانوں کی بقا اور تحفظ کے لئے اس بل کی روک تھام اور کالعدم قرار دینا نہایت ہی ضروری ہے ۔

اس بل کی روک تھام کیسے ممکن ہے ؟ میں نے مضمون کا عنوان قائم کیا ہے کہ مسلمان حساس اور زندہ قوم ہے ، مسئلہ قیادت کا ہے ۔ اس عنوان سے ہی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ؟۔

سب سے پہلے تو یہ بات اپنے اپنے ذہن سے نکالنی ہوگی کہ مسلمان مردہ اور بے ضمیر قوم ہے ،دشمن طاقت ہماری بیداری اور زندہ دلی کی حقیقت تسلیم کرتی ہے اور اس قدر خائف ہے کہ آج ہرجگہ مسلمانوں کے مٹانے کی بھیانک کوشش چل رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان کمزور اور مردہ قوم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم مسلمان بھارت میں ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر اپنا نہ صرف تشخص کھوبیٹھے ہیں بلکہ قوت وطاقت اور عزم وحوصلہ سب کچھ تقسیم ہوکر بے قوت ہوگئے ، ہمیں اپنی تعداد سمیٹ کر قوت وحوصلہ یکجا کرنا ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہم سارے مسلمان ایک جگہ جمع کیسے ہوں گے اور ہماری منشر طاقت کیسے یکجا ہوگی ؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہم جنگ آزادی میں کیسے جمع ہوئے تھے ؟ ہم نے انگریزوں کو ملک سے کیسے نکالا تھا ؟ سب کچھ تاریخ میں مرقوم ہے ۔ اسی طرح پھر سے یکجا ہونا ہے اور ملک کو اور ملک کے مسلمانوں کو بھگوائی طاقت سے نجات دلا نا ہے ۔

آج مسلمانوں کے تمام طبقوں کو ان سب کے علماء نے ایک دوسرے طبقے سے جدا کیا ہے، یہی جدا کرنے والے پھر سے ہمیں ایک جگہ جمع کرسکتے ہیں ۔تمام مسالک ومکاتب کے علماء کو اپنی عوام کی ذہن سازی کرنی ہوگی کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان سے مل کر رہنا ہے ، ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا ہے ، ضرورت پڑی تو ان کے لئے جان ومال کی قربانی دینی ہے ۔ ساتھ ساتھ تمام مسالک کے علماء میدان عمل میں بھی آئیں اورمل جل کر عوام کی اگوائی کریں یعنی علماء ایک طرف عوام کی ذہن سازی کریں تو دوسری طرف مل جل کر ایک ساتھ رہبری اور قیادت کے لئے میدان میں بھی آئیں ۔

میرے کہنے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کل کا ہندوستان علماء کی محنت اور قربانیوں سے انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ، اسی طرح آج بھی علماء کی مشترکہ مخلصانہ کوششوں سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔اس لئے خود کو کمزور نہ سمجھیں ، اپنوں کو بزدل اور مردہ نہ کہیں ۔ ہم بھلے تعداد میں کم ہوں مگر ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں مسئلہ بس قیادت کا ہے ۔ ہماری قیادتوں میں اخلاص آجائے ، ہم اپنے اور دشمنوں میں پہنچان کرسکیں اور ایک پلیٹ فارم سے کام کریں تو بھاجپا کیا اس سے بھی ظالم حکومت کے پنجے اکھاڑ پھینکیں ۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ بھارت کے اکثر غیرمسلم بھی کیب پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں ایسے میں اگر سارے مسلمان علماء اور عوام ایک نہ ہوسکیں تو ہمارے لئے ڈوب مرنے کی بات ہوگی ۔
 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 315 Articles with 311484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.