تعلیم آپ کے بچے کا مستقبل

جدید سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پیدائش کے بعد انسان 2 سے 3 سال تک اپنے والدین پر انحصار کرتا ہے اور اس دوران والدین خصوصا ماں کی عدم موجودگی یا کوئی غفلت انسان کے دماغ پر گہرے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے، کیوں کہ ایک سے 2 سال کے دوران بچے کے اندرونی دماغ کی نشوونما کے علاوہ اس میں نیوران تشکیل پاتے ہیں اور اسی دورران وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور رویوں کو سمجھنے اور ان کا مؤثر و مثبت جواب دینے یا ان پر رد عمل کا اظہار کرنا سیکھتے ہیں۔ بچہ اپنے والدین اپنے اردگرد کے ماحول،رویوں کو اپناتے بھی ہیں۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ جیسے اپنے بزرگوں،والدین کو کرتے دیکھتا ہے وہ بھی ایسے ہی کرتا ہے چند دن پہلے میں ایک کام سے جا رہا تھا تو ایک چھوٹے سے بچے نے مھجے رکنے کا اشارہ کیا میں نے بچے کو اپنے ساتھ بٹھا لیا بچے اور والدین کا نام معلوم کرنے کے بعد چند سوالات کیے جوابات مایوس کن تھے میں نے بچے کو سمجھانے کی کوشش کی بچے کی منزل آ گئی میں نے اسے ڈراپ کیااور آگے چل دیا لیکن میں ایک گہری سوچ میں گم ہو گیا کہ میرے سمجھانے کا فائدہ اس لیے نہیں ہو گا کیونکہ اپنے بزرگوں،والدین کو جیسے کرتا دیکھے گا بچہ ویسے ہی کرے گا حقیقت کھچہ یوں تھی میں نے بچے سے منزل کا سوال معلوم کرنے کے بعد سوال کیا کہ آپ مسجد،مدرسہ یا سکول جاتے ہیں بچے نے جواب دیا مسجد،مدرسے تو نہیں جاتا نا ہی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی بلکہ قرآن کریم کے الفاظ کو سمجھنے کے لیے قرآنی قاعدہ بھی نہیں پڑھا سکول ل ل ، سکول کا لفظ کافی لمبا کر کے کہنے لگا کبھی کبھی جاتا ہوں اس نے بتایا کہ والد صاحب لکڑی کا کام کرتے ہیں بڑے بھائی نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی اور والد صاحب کے ساتھ لکڑی کاٹنے اور بیچنے کا کام کرتے ہیں مجھے اس پر اور اس کے بڑے بھائی پر افسوس ہو رہا تھا کہ ہاے افسوس ہم نے اپنے بچوں کو اسلام کے بنیادی ارکان بھی نہ سکھائے قرآن کریم کی تعلیم بھی نہ دی ہمارے بچوں کی زندگی کا یہ حصہ لڑکپن تک اور لڑکپن سے جوانی تک ایک ننھے پودے جیسا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کے رخ کو جس طرف موڑے مڑ جاتا ہے زندگی کے اسی حصے سے بچے اپنی زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں اسی بچے کی طرح کئ مثالیں ہمارے معاشرے میں ملتی ہیں کہ کئ بچے بازار میں شاپنگ بیگ، انڈے ، دانے فروخت کر رہے ہوتے ہیں اور کئ بچے ٹرک کے انجن صاف کر رہے ہوتے ہیں بے شک غربت بھی اس نہج تک پہنچا دیتی ہے لیکن نوے فیصد بچے اپنے والدین کی طرف سے صحیح تربیت نہ ملنے پر اپنی ایک نئی زندگی یعنی جوانی کو مسل دیتے ہیں اور علم حاصل نہ کر کے اندھیروں میں چلے جاتے ہیں۔ ہماری معاشرے میں ذمہ داری ہے ہمیں عملی طور پر سارا سال ان بچوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل کے لیے کام کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے،ہمیں اپنے بچوں کو وہ تمام بنیادی حقوق مہیا کرنے ہوں گے جن سے وہ محروم ہیں۔جو والدین کسی مجبوری کے باعث بچوں کو تعلیم نہیں دلو اسکتے یا معاشی مسائل کے سبب بچوں سے پر مشقت کام کروانے پر مجبور ہیں، حکومت کو ان بچوں پر خصوصی توجہ دینی چائیے اور ان بچوں کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا وظیفہ مقرر کرنا چائیے۔

پیارے ساتھیو!آپ کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،اپنے اطراف میں دیکھیں بہت سے بچے جو محنت مزدوری کرتے ہیں، ان کا بھی دل چاہتاہوگا پڑھنے لکھنے کو آپ فارغ وقت میں ان کو پڑھائی میں مدد کر سکتے ہیں ۔ اپنے اطراف میں دیکھیں بہت سے بچے تو کچرے میں سے کھانے کی چیزیں ڈھونڈ کر کھاتے ہیں کیا کریں بھوک ہے ہی ایسی چیز، اگر آپ اپنے کھانے میں سے ان بچوں کو بھی کھلا دیں گے تو اس کا بڑا ثواب ملے گاکمی نہیں ہو گی بلکہ خوب برکتیں حاصل ہوں گی۔ اگر معاشرے کا ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے توڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر نہیں ہوں ۔ بھوکے پیٹ سڑک کے کسی کنارے سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے نہیں سوئیں گے اللّٰہ پاک نے جس کو مال دیا ہے اور علم بھی دیا ہے اگر وہ ایسے کام میں حصہ لیتا ہے تو اس کے لیے اللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشخبری دی کہ  "وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے اور صحیح طریقہ زندگی کا علم بھی اس کو دیا ہے پس وہ اس مال کے صرف واستمعال میں اللّٰہ سے ڈرتا ہے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی (یعنی عزیز واقارب معاشرے،محلے میں لوگوں کے ساتھ سلوک) کرتا ہے اور اس میں جو عمل اور تصرف کرنا چاہے اللّٰہ پاک کی رضا کے لیے ہی کرتا ہے پس ایسا بندہ اعلیٰ وافضل مرتبے پر فائز ہے

Hafiz Bilal
About the Author: Hafiz Bilal Read More Articles by Hafiz Bilal: 3 Articles with 2046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.