3روز سے جاری میگا ایجوکیشن ایکسپو و کتب میلہ بین
الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اپنے اختتامی مراحل میں داخل تھا۔
اسلامک یونیورسٹی میں پروگرام سالانہ ہے جو کہ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے
طلبہ کی جانب سے، تمام ٹیم خوشی سے صرف اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ گزشتہ
دو دنوں کی طرح آج بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ تمام دوستوں اور احباب
کو اکٹھا کیا گیا اور اختتامی سیشن کے لئے معززین کو بھی مدعو کیا گیا۔ ہر
کسی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا اور ہر ایک بڑے وثوق سے اپنی ذمہ داریاں
ادا کر رہا تھا۔ اسلامک یونیورسٹی ملک کی بڑی جامعات میں شمار ہوتی ہے جس
میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان کے لیے یہ پروگرام بڑا
معنی رکھتا ہے۔ تمام سیشن انتہائی خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوئے، یہ آخری
سیشن تھا جس میں احباب جمع تھے اور پروگرام بھی آخری مراحل میں تھا۔ لیاقت
بلوچ صاحب حاضرین سے مخاطب تھے کہ یکایک شرپسند طلباء پروگرام پر حملہ آور
ہوئے، ان شرپسند طلبہ کو روکنے کے لئے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان پہنچے
اور انہیں باہر ہی روکنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اسلحہ سے لیس ڈنڈا بردار رکے
نہیں بلکہ پنڈال پر سیدھی گولیاں چلا دیں انہوں نے، جس باعث اسلامی جمیعت
طلبہ کے کارکنان کو گولیاں لگیں اور وہ شدید زخمی ہوئے۔ مگر اس کے باوجود
او ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے بھاگے نہیں بلکہ ان شر پسند عناصر میں سے
کچھ کو پکڑ لیا۔ لیاقت بلوچ صاحب کو بھی بحفاظت نکالنے میں وہ طلبہ کامیاب
ہوئے۔ مگر بڑی تعداد میں اسلامی جمیعت طلبہ کے کارکنان زخمی ہوئے جنہیں بعد
میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ان میں ایک انتہائی
خوب رو نوجوان سید زادہ طفیل الرحمن ہاشمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید
ہوگئے، اور اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے۔
ایک پر امن پروگرام پر دھاوا بولنا اور وہ بھی اسلحہ سے لیس ہوکر یہ کہاں
کی انسانیت ہے؟ آپ کے کسی سے لاکھ اختلاف ہوں مگر آپ پھر بھی کسی پر اسلحہ
تان کیسے سکتے ہیں؟ اور پھر انتظامیہ بھی غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے کہ وفاقی
دارالحکومت میں اس قدر لاقانونیت کہ ایسے ہی کوئی شرپسند اسلحہ اٹھا کر ایک
پر امن پروگرام میں طلبہ پر حملہ کر دیتا ہے۔ طلبہ کو زخمی کر دیتا ہے اور
ایک شہادت ہو جاتی ہے، اور اس تمام معاملے سے اپنی جان چھڑوانے کی خاطر آپ
اس معاملے کو تصادم کا نام دے دیتے ہیں، جو کہ تصادم ہرگز نہیں تھا۔ اور یہ
تصادم ممکن بھی کیسے ہے کہ ایک تنظیم اپنا انتہائی اہم پروگرام منعقد کرکے
کسی سے الجھ پڑے، کیا انہیں اپنے پروگرام کا خیال نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے
سے تصادم مول لے لیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک جانب اتنا بڑا پروگرام منعقد
کیا جائے اور پھر شر پسند عناصر سے الجھا جائے اور پھر جہاں پر آپ ملک کی
نامور شخصیات کو مدعو کر رہے ہیں اس وقت آپ کسی سے جاکر جھگڑا مول لے لیں۔
اور جہاں پر آپ کا سارا دیہان پروگرام کے بہترین اختتام کی جانب ہو وہاں پر
کوئی بھی یہ بھار اپنے سر نہیں اٹھا سکتا۔ مگر اپنی نااہلی چھپانے کی خاطر
انتظامیہ نے یہ تمام بیانات دیے، جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی
ناک کے نیچے یہ معاملہ ہو گیا مگر وہ کچھ نہ کر سکے۔ مگر اسلامی جمیعت طلبہ
کے کارکنان اورذمہ داران بیشک داد کے مستحق ہیں جنہوں نے صبر و تحمل کا
مظاہرہ کیا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا، اور کچھ شرپسندوں کو پکڑ کر
پولیس کے حوالے کیا۔ بلاشبہ یہ لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں ورنہ حالات
ہاتھ سے نکل بھی سکتے تھے، جمیت کے کارکنان بھی مشتعل ہو سکتے تھے۔
سید طفیل الرحمن انتہائی خوبرو نوجوان تھا۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا
اور سب کا لاڈلا، جسے خزاں پرستوں نے وار کر کے شہید کر دیا۔ وہ گلگت کا
رہائشی تھا، جب والدین تک خبر پہنچی تو یہ بھی ایک رشک کرنے کا مقام ہے۔
ساتھیوں نے دوستوں نے تو صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہی کیا مگر والد نے جس قدر
صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا وہ کمال ہے۔ والد لکھتے ہیں جب مجھے شہادت کی خبر
ملی میں نے اس پر صبر کیا، اپنے ہوش و حواس قائم رکھے صرف ان ﷲ وانا الیہ
راجعون پڑھا، بلکہ جمعیت کے ناظم اعلی سے کہا ناظم صاحب میرا بیٹا تو اﷲ کی
راہ میں شہید ہوگیا میرا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ مگر آپ کا ایک کارکن نہیں
رہا آپ حوصلہ رکھنا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا، اور میرا ایک بیٹا کیا میرے
سارے بیٹے بھی رب کی رضا کے لئے قربان ہیں۔ باپ کا بھی کیا صبر و تحمل ہے۔
ہر ایک نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے ریاستی حق ادا کردیا اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں پر ہی یہ معاملہ رہنے دیا۔ بلاشبہ یہ فیصلہ ریاست اور امن
و امان کے حق میں بہترین فیصلہ ہے۔
میں نے سید طفیل الرحمٰن شہید کا چہرہ شہادت کے بعد دیکھا، وہ چہرہ مسکرا
رہا تھا۔ اس چہرے پر ذرا برابر بھی شکن یا تکلیف کے آثار نہ تھے۔ اس کے
چہرے پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔ اس خوبصورت گلگتی لڑکے کا چہرہ بہت سوں کو رلا
گیا، اس کے جنازہ میں اس کے دوست آنسوبہاتے دکھائی دیے اور پہلے سے زیادہ
پرجوش پرعزم بھی۔ بلاشبہ ہر اک نے رب کے حضور جانا ہے تو کسی بھی صورت جو
رب نے لکھ رکھی ہے مگر قانون ہاتھ لینا یہ انتہائی برا فعل ہوتا۔ مگر
اسلامی طلبہ کے کارکنان اور ذمہ داران اس برائی سے بچے رہے اور انہوں نے
قانون ہاتھ میں نہ لینے کا فیصلہ بہترین کیا۔
امید ہے ہمارے تعلیمی اداروں سے شر پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے حکومت اس
واقعہ کے بعد عملی اقدامات ضرور کرے گی۔ اور ریاستی ادارے اپنے بالادستی
قائم کرکے بہترین امن و امان کی صورتحال فراہم کریں گے۔ جہاں پر ہر کوئی
آزادی سے صحت مندانہ سرگرمیاں جاری رکھ سکے اور امن و امان کی صورتحال
بہترین ہوسکے، اور طلبہ کی قیمتی جانیں محفوظ ہو سکیں۔
|