ہمیں دیمک نے چاٹا ہے شجرکاری کے موسم میں

ہرسال16 دسمبرہی اپنی دلخراش یادوں سے ہم دل جلوں کواشکبارکرنے کیلئے کیاکم تھاکہ ایک اورقیامت صغریٰ نے بھی اس میں اپناایساحصہ ڈال دیاہے کہ زندگی بھراس دردکی ٹیسیں ہمیں تڑپاتی رہیں گی کہ پھولوں کے شہرپشاورمیں پھولوں کو مسل کررکھ دیاگیا،وہ جواپنے ہاتھوں میں قلم اورکتاب تھامے اپنے نبی ﷺکے احکام کی تعمیل میں علم حاصل کررہے تھے ، ان کواتنی بھی مہلت نہ ملی کہ اپنی ماں سے یہ کہہ سکیں کہ دیکھ اماں! میرے لباس پراس لہورنگ روشنائی ہم سب کی عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن گئی ہے۔آج دل ایک مرتبہ پھر دردسے پھٹتاجارہاہے بلکہ دردجیسالفظ بھی ماتم کررہا ہے، ایک ایسازخم ہے جس کامداواہوتانظرنہیں آتا،جسم تھرتھرارہاہے،ہاتھوں کی لرزش اورکپکپاہٹ نے دماغ کوماؤف کر دیاہے ۔وہ تمام مناظرمیراتعاقب کررہے ہیں جب اس سانحے کی خبرسن کرمیں کئی مرتبہ ٹی وی کوبندکرکے خودسے راہِ فرار اختیارکررہااتھالیکن پھراس امیدپرٹی وی آن کردیتاتھاکہ مبادا دل کی تسکین کیلئے کوئی خبرسننے کومل جائے لیکن ہرمرتبہ قیامت خیزمناظر ،ماؤں کی چیخ وپکار،اسکول کی دیواروں کے باہرکسی اچھی خبرکے منتظراوربے چین باپ دکھائی دے رہے تھے۔کیاکروں میرابراحال ہوگیاہے،سانس لینامشکل ہوتاجارہا ہے۔پھرسوچتاہوں ہزاروں میل دوربیٹھے مجھ جیسے لوگوں کایہ حال ہے توان کادردکیاہوگاجن کے گھروں کے یہ معصوم چراغ اس بیدردی سے بجھادیئے گئے۔مجھے وہ قیامت خیزمنظر بھی یادہے جب میں ٹی وی کودوبارہ بندکرنے کا سوچ رہاتھاکہ ٹیلیفون چیخ اٹھا،”کیاکہہ رہے ہو،تم ہوش میں توہو؟؟ ”، ”خود کو سنبھالیںاوراس بات کایقین کرلیں کہ سکندربھائی کے دونوں نوجوان بیٹے (انیس اوربلال) بھی فلاح پاگئے۔باپ انہی درندوں کے خلاف جنگ میں مصروف ،شہادت کامتمنی لیکن بیٹے بازی لے گئے ۔ میرے بھائی کی کل یہی متاع تھی !میں تواسے پرسہ دینے کی بھی ہمت نہیں پارہاتھا لیکن اس کے پرعزم الفاظ کے سامنے میں ہارگیا”میں توپچھلی دودہائیوں سے شہادت کامتلاشی ہوں اوراب بھی میراسفرجاری ہے لیکن رب العزت کاشکرگزار ہوں کہ ”مالک الیوم الدین”کے سامنے میں دوشہید بچوں کے باپ سے بلایاجاؤں گا!
یہ قدم قدم قیامتیں بہ سوادِ کوئے جاناں
جنہیں زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائیں

آج سے پانچ سال پہلے پشاورکی سڑکوں پر اچانک چیختی چنگھاڑتی سائرن بجاتی ایمبولنسوںکااژدہام جہاں قیامت صغری کاسماں پیش کررہاتھاوہاں پوری قوم بلکہ پوری دنیاغم واندوہ اورشدیدصدمے اور سکتے کی حالت میں گم صم اپنے رب کے حضورگڑگڑاکر رحم وکرم کی فریادکررہی تھی۔یہ دلدوز خبرسنتے ہی ننگے سراور پاؤں ماں باپ اپنے پیاروں معصوموں کو دیوانوں کی طرح ڈھونڈنے کے لئے سڑکوں پر دوڑرہے تھے کہ وہ آنے والی قیامت صغری ٰکواپنے سینے پرروک کراپنے بچوں کو بچالیں۔

اس میں شک نہیں کہ یہ قوم کے نونہال اس فانی دنیاسے دار بقا کی طرف تشریف لے گئے ہیں،اس عارضی زندگی کی بہاروں اورگلوں کی خوشبووں سے منہ موڑکردائمی بہار ، سدا خوشبوؤں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہوگئے ہیں اوراپنے ہر تعلق رکھنے والوں کوچھوڑکراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق کارشتہ جوڑچکے ہیں۔ موت توکوئی نئی چیز نہیں،موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔موت کے قانون سے کوئی ذی روح مستثنیٰ نہیں ہے ،جو بھی آیا ہے اپنا مقررہ وقت پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے ۔ہم سب اس کی امانت ہیںپھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے لیکن اس بھری معصومیت میں اس طرح حالتِ ایمان میں قربان ہوجاناان کے حق میں بڑی نعمت ہے اورپھر کیوں نہ ہو،ایسی موت تووصل حبیب اوربقائے حبیب کا خوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اورپھربقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت کیاہوگی؟؟؟اس دنیامیں جوبھی آیاہے اسے یقینا ایک دن جاناہے اوراس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنے ماں باپ ،لواحقین اوراہل وطن کے لئے دائمی دولت اور فخر و انبساط کی ایسی وراثت چھوڑجاتے ہیں کہ جس کے آگے خزائن وحشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سوفقیروں کے فقیراورسو کنگالوں کے کنگال لگتے ہیں۔

پشاور کے معصوم شہدا نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسول ﷺ کے نقوش کوایسااجاگرکیا کہ ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے ۔ ان نونہالوںکی للہیت، اخلاص نیت اوربے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیںجس کی تمناانبیائ،اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔ان معصوم عظیم شہدا کاخون پاکستان کی ان بنیادوں میں جاکراپنے آباؤاجدادمیں جاکر جذب ہوگیاہے جنہوں نے اس ملک کوکلمہ کی بنیادپروجود میں لانے کیلئے اپنی جانیں قربان کی تھیںاورمیراوجدان،ایقان اورایمان اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ ان کی قربانیاں اب تاقیامت تک کفر وگمراہی کے ان تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی جنہوں نے یہ ناپاک منصوبہ تیار کیا ۔

پشاور کے معصومین کی شہادتوں نے جہاں اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالم اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیر وجودبھی تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میںاپناحصہ رکھتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتاہے اورمیزان نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے اوریوںآخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہونگے تویہ معصوم بھی شہدا کے کے گروہ میں شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضرہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا البتہ ان کو قتل کر نے والے سفاک ہاتھوں کو رسوائی اور ذلت ، شکست اور بربادی کاعذاب ……خداسے ہم نے بھی ایک روز ملاقات کرنی ہے،خداجانے کب….؟خداجانے کہاں … . . . .؟ اورکس حال میں ہوں گے؟کتنی بڑی ملاقات ہوگی جب ایک بندہ ذلیل وحقیراپنے معبوداکبر وبرحق سے ملے گا!جب مخلوق دیکھے گی کہ خوداس کاخالقِ اکبراس کے سامنے ہے ، خداکی قسم……!کیسے خوش نصیب ہیں یہ نوجوان کہ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پرخداکونذرکرنے کیلئے خداکا کوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجودہوگا۔جی ہاں!ان کفنوں کی جھولیوں میں جن میں بدن اورسچے ایمان وعمل کی لاش ہوگی مگر شہادت کے طمطراق تمغے سے سجی ہوگی۔ان تمغوں کوخدائے برتر کی رحمت لپک لپک کر بوسے دے گی۔ قاتلانِ سفاک دل کیا یہ جانتے ہیں کہ یقیناً ان بچوں کے دھڑ شیطانی قوتوں کاشکارہوگئے ہیں مگراشک بارآنکھوں سے سوبارچومنے کے لائق ہیں کہ فرشتےان کو اٹھاکراللہ کے ہاں حاضرہوگئے ہیں اوران کی معصومیت اس بات کی گواہی دے رہی ہیںکہ دنیا پرنہیں یہ آخرت پرنثارہوئی ہیں ،اسی لئے انہیں شہادت کے پرشوق سائے میں پناہ مل گئی۔ وہ اپنے معصوم بچپن ،شباب و حسن سے وجدکرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضر ہوگئے ہیں کہ حسن وجوانی باربارایسی حسرت کرے!!!

وہ زندگی اوردنیاپرجھومنے کی بجائے سچائی اورآخرت پرمرجانے کی ایسی رسم اداکرگئے کہ زمین وآسمان ان کی موت پرآنسو بہائیں۔ایسامعلوم ہوتاہے کہ اس شہادت عظمیٰ کے رتبے نے انہیں یہ پیغام دے دیا کہ ان کاگھر اس دنیامیں کہیں نہیں بلکہ اس دنیامیں ہے جوجسم وجاں کاتعلق ٹوٹتے ہی شروع ہوتی ہے ، جہاں امن واطمینان ہے ، جہان دہشت گردوں کی سنگ دلی ا ور بزدلی نہیں بلکہ فرشتوں کی مہمانی ا ور سدا بہار آو بھگت ہے ، ایسی دنیا جہاں خودخدا اپنے بندوں کا منتظر ہے کہ کون ہے جودنیاکے بدلے آخرت اورآخرت کے بدلے اپنی دنیافروخت کرکے مجھ سے آن ملے۔جہاں وہ جنت ہے جس کے گہرے اورہلکے سبزباغات کی سرسراہٹوںاورشیروشہد کی اٹھلاتی لہراتی ہوئی ندیوں کے کنارے خوف وغم کی پرچھائیوں سے دورایک حسین ترین دائمی زندگی،سچے خوابوں کے جال بن رہی ہے۔جہاں فرشتوں کے قلوب بھی اللہ کے ہاں پکار اٹھیں گے کہ خدایا!یہ ہیں وہ شہدا بچے! جن کی ساری دنیا تیرے عشق میں لٹ گئی ہے،یہ سب کچھ لٹاکرتیری دید کوپہنچے ہیں، شائد ان کے قلوب میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ راہِ حق میں ماراجاناہی دراصل تجھ تک پہنچنے کاذریعہ ہے اورشہادت کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہناہے۔یہ توسب کچھ لٹاکراس یقین تک پہنچے ہیں!

اورہاں!کتناقابلِ رشک ہے ان نوجوانوں کایقین اورایمان،جن پرملائکہ ایسی گواہی دیں گے اورکس قدررونے کے لائق ہیں ہمارے ایمان جن کیلئے ہمارے دل بھی گواہی دیتے دیتے کسی خوف سے چپ ہوجاتے ہیں۔کل جب میدان حشرمیں اشک ولہومیں نہائے ہوئے یہ بچے خداوندی لطف واعزاز سے سرفرازکئے جارہے ہوں گے تو ان کو جان سے مارنے والے دہشت گرد کف ِ افسوس مل رہے ہوں گے ۔آئیے ہم بھی آج اپنی اولادکے قلب وذہن میں عمل خیرکاایسابیج بودیںتاکہ اس بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات سے عمل صالح اور نیک انجام کی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگ جائے کہ جب اس فصل کی تقسیم شروع ہوتوسب کواپنادامن تنگ نظرآئے، لیکن اسے کیاکہیں کہ سفاک دشمن نے اس دردناک سانحے کیلئے بھی اسی تاریخ کاانتخاب کیاجب 48 سال قبل پاکستان کودولخت کیاگیاتھا۔اس سانحے نے ارضِ وطن کی تاریخ ہی بدل ڈالی کہ اس وقت فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل نے اسے اپنے دل پر حملہ قراردیا۔ایک ملاقات میں مجھے انہوں نے بتایاکہ میں نے ان تمام شہداء بچوں کی تصاویرکاایک البم اپنے میزپرسجارکھاہے جوہروقت میرے عزم اورحوصلے کوایک لمحے کیلئے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ اسی خونی واقعے کے بعدضرب العضب آپریشن شروع کردیاگیاجس کی تائیدمیں آج تک ردّالفساد آپریشن جاری ہے اور ہمارے جانبازوں نے سرفروشی کی ایک ایسی ناقابل یقین مثال قائم کردی ہے جس نے دشمنوں کے دلوں پر دھاک بٹھادی ہے۔

سوچتاہوں کہ دم تو ڑتا انسان بھی امید پر زندہ رہتا ہے،چاہے چند لمحات ہی کیوں نہ ہوں۔امید ایک چراغ روشن ہے،امید نشان راہ ہے،آس ہے،لاکھ بلائیں راہ روکے کھڑی ہوں،امید سہارا بن کر ساتھ کھڑی رہتی ہے۔آگے بڑھنے پر اکساتی ہے امید، محبت ،فاتح عالم ہے ۔دلوں کو تسخیر کرتی ہے محبت ۔ انسان ہار کر بھی خوش رہتا ہے۔ایثار سکھاتی ہے محبت۔قیام کرنا ، ڈٹے رہنا سکھاتی ہے محبت،جو امید و محبت کا پیکر ہوں ،انہیں کون تسخیر کر سکتا ہے!وہ زیر ہو کر بھی سر بلند رہتے ہیں،سر خرو ٹھہرتے ہیں،زندگی کا پیغام لاتے ہیں،زندگی پر اکساتے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ اب امید بھی خشک ریت کی طرح مٹھی سے نکلتی محسوس ہو رہی ہے۔

ایوان رڈلے کو ہدائت اللہ رب العزت نے نصیب فرمائی لیکن وجہ طالبان کا حسن سلوک اور خواتین کی عزت ٹھہری تھی لیکن پاکستانی طالبان کے بھیس میں اسلام اور شریعت کو بدنام کرنے والوں کے بارے میں بجا طور پرجس یقین کامیں شروع دن سے اظہارکرتاچلاآرہاہوں کہ ٹرائیکا(سی آئی اے، موساد اوررا)کی مکمل پشت پناہی سے یہ تکفیری گروہ کونہ صرف دین اسلام بلکہ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے وجودکے خلاف اپنے مخصوص مفادکیلئے میدان میں اتاراگیا۔تحقیق کے بعدیہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ وہ ان مدرسوں اور لٹریچر کی پیداوار نہیں،جس نے ملا عمر تخلیق کئے۔ان طالبان علم نے جب افغانستان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھاتو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر بندوق اٹھائی اور وہاں اسلامی شریعت نافذ کر دی۔آج سے دس بارہ سال قبل میڈیااس قدر فعال نہیں تھااب تو میڈیا پھیلنے کے ساتھ ساتھ غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کو جن میں اکثر صحافی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے،اپنے اندر سمیٹ چکا ہے اور بڑی تعداد میں ایسی خبریں فراہم کر رہا ہے جن سے دین کے علمبرداروںکو تعلیم دشمن،امن مخالف اور خواتین دشمن قرار دینے میں انہیں دقت اٹھانا نہیں پڑتی ۔ لیکن آج سے ایک دہائی قبل مغرب کے صحافیوں کو انٹیلی جنس اہلکار کی دہری ذمہ داری ادا کرنی پڑتی تھی۔

افغانستان کی امارات اسلامی کو چلانے والے طالبان کی خامیوں کی متلاشی ایوان رڈلے جب افغانستان پہنچی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ان کو مقید کرنے والے ”وحشی”طالبان کچھ اور طرح کی مخلوق ہوں گے۔ایوان رڈلے نے خواتین کے حقوق کے” علمبرداروں” سے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اگر وہ کہیں ان ”جنگلی درندوں ” کے ہتھے چڑھ گئی تو وہ اسے نوچ ڈالیں گے اور ہلاک کردیں گے اوروہ بھی کوڑے برسا برسا کر اور اذیت دے دے کر۔افغانستان کے طالبان، طالبان علم رہ چکے تھے،وہ علوم جو دینی تعلیمی اداروں کی برکت سے نبی مہربان ﷺسے ہوتے ہوئے ان تک پہنچا تھا۔وہ علم جس کے تحت دوران جنگ خواتین اور بچے تو درکنار،درختوں کو کاٹنا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔یہ طالبان نہ تو ایوان رڈلے کی باتوں سے طیش میں آئے اور نہ ہی ان کو اس کا رویہ ناگوار گزرا بلکہ وہ اسی طرح برتاؤ کرتے رہے جس طرح ان کے دین نے ہدائت کی تھی۔

ایوان رڈلے طالبان کے حسن سلوک سے متاثرہوکر مسلمان ہوئیں اور آج وہ ظلم کے خلاف مضبوط آوازبن چکی ہیں۔آج امریکا ،برطانیہ اور ان کے تمام حواریوں کے ظلم کے خلاف شمشیر برہنہ بن کر اپنے قلمی جہاد میں پیش پیش ہیں۔افغانستان کے ریگزاروں سے اٹھنے والی ایک بیٹی کی آوازکسی مسلمان مرد نے تو نہیں سنی کہ اب محمد بن قاسم نہیں رہے مگر یہ آواز برطانیہ کی اس بہادر اور باغیرت نومسلمہ ایوان رڈلے نے سنی۔جی ہاں!پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کی آواز،جس کو ہمارے کمانڈو صدر نے ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا تھا۔ میرے کانوں میں ایوان رڈلے کی رقت بھری آواز آج بھی گونج رہی ہے جب اس نے عافیہ صدیقی کے بارے میں مغربی دنیا میں قصر سفید کے مظالم کاپردہ چاک کرتے ہوئے ایک طوفان برپا کر دیا تھااور یقینا ایوان رڈلے کے اس انکشاف کے بعد پاکستانی صحافیوں کو بھی خیال آیاکہ ان کی ایک مظلوم بہن پر کیا بیت رہی ہے لیکن آج وہ خودپشاورکے اس بہیمانہ واقعے پربلک بلک کر رورہی تھی ۔

یہ طالبان وہ طالبان تو یقیناً نہیں جن سے ایوان رڈلے متاثر ہوئی اورجن کی مزاحمت نے امریکا اور اس کے صہیونی لشکر کو افغانستان کے کوہساروں میں ناکوں چنے چبوائے۔میرا ماتھاتواسی وقت ٹھنکا جب ٹی وی چینلز پر”سوات کے طالبان”کی طرف سے لڑکیوں کے اسکولوں پر پابندی،اسکول تباہ کرنے کی خبریں باربار چلائی جارہی تھیںتو میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جوجہادکے مقدس نام کوبدنام کرنے کیلئے ایسے قبیح افعال کرتے ہوئے ذرہ بھرنہیں شرماتے تاکہ وہ اسلام اورپاکستان کے خلاف قوتوں کو پروپیگنڈے کیلئے مواد فراہم کرتے رہیں؟؟کیا یہ اس جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو مرزا غلام محمد قادیانی الگ مذہب بنا کرختم نہیں کر سکا؟ جہاد جاری رہے گا اور تا قیامت جاری رہے گا،یہ ہمارا ایمان ہے لیکن کیا تباہی پھیلانے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کر نا ضروری نہیں کہ آج دنیا سب کو جہاد ی کہہ رہی ہے چاہے وہ فلسطین میں غاصب صہیونیوں کے خلاف ہو یا بھارتی کشمیر پر قابض مکار ہندوؤں کے خلا ف، افغانستان اور عراق پر جارحیت کرنے والے عالمی دہشت گرد امریکہ کے خلاف ہو یا چاہے وہ ”جہاد”جو لڑکیوں کے اسکول جلا کر سوات میں شروع ہواتھا،اورآج وہ بدبخت اورشیطان صفت پشاورجیسے بہیمانہ واقعہ کوبھی جہادسے تشبیہ دینے والابھی جہنم واصل ہوچکاہے لیکن یہ لکھتے ہوئے دل پرقابونہیں رہتاکہ میرے ملک کاوزیراعظم بھی میڈیاپر کشمیرکی زادی کیلئے جہادجیسے عظیم الشان عمل سے ہمیں منع کررہاتھا۔

ان ناہنجارظالمان کے افعال کونقل کرکے کیاافغانستان میں جاری جہادکومطعون کیاجاسکتاہے؟مجھے یادہے کہ آج سے دس سال پہلے بڑے ہی جیدعالم ِ دین نے فرمایاتھاکہ قوم کوجہاد کانام لیتے ہوئے شرمانانہیں چاہئے۔میں نے اس وقت بھی ان سے مخلصانہ گزارش کی تھی کہ وہ خود بغیر شرمائے سوات کے طالبان کے جہاد کی تشریح ضرور فرمائیں جو اب تک ساڑھے چار سوسے زائد بچیوں کے اسکول خاکستر کرچکے تھے اورحکم عدولی پر سوات کے باسیوں کی گردنیں تن سے جدا کرکے شقاوت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔قبروں سے لاشیں نکال کرکھلے چوک میں لٹکا کر کس جہاد کا پرچار کر رہے تھے؟ آج وہ خودہی ان کوظالمان سے تشبیہ دے رہے ہیں لیکن کیاہی بہترہوتااگراس وقت ان کایہ ردّعمل ہوتاتوآج یہ شرمندگی نہ ہوتی ۔آج اس واقعے پرافسوس توکیاجارہاہے، ہرچینل پراس سانحے پربڑی ڈھٹائی سے تبصرے توہورہے ہیں لیکن ٹی ٹی پی کا نام لیتے ہوئے ان پر منافقت طاری ہوجاتی ہے۔

ہمارے علماء اہل علم دانش کا فریضہ ہے کہ وہ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو جہاد کے بارے میں بتائیں اور جہاد کو بدنام کرنے والوں کو بھی بے نقاب کریں۔اگرہمارے علماء اہل علم دانش اپنے اس عظیم فرض سے کوتاہی برتیں گے اور آگے بڑھ کراس فتنہ کی سرکوبی کیلئے ارض پاکستان کو بچانے میں اپنا کردار ادانہیں کریں گے تواللہ اپنی سنت پوری کرتے ہوئےہمارے علماء اہل علم دانش کواس منصب سے نہ صرف ہٹادےگا بلکہ تاریخ کی کتابوں میں ان کانام بطورعبرت محفوظ کردیاجائے گا

میں نے پچھلے دنوں ہی ایک واقعہ پڑھا تھا ۔کیا بات تھی اس میں،مجھے نہیں معلوم!حضرت شیخ عثمان خیر آبادی غزنی میں رہتے تھے۔سبزی پکاتے اوربیچتے تھے۔اگرکوئی شخص آپ کے پاس آتااورکھوٹادرہم دے کرجوکچھ آپ نے پکایاہوتاخریدنا چاہتاتووہ کھوٹادرہم لے لیتے اگرچہ انہیں معلوم ہوتا کہ یہ درہم کھوٹا ہے لیکن وہ خریدار کے منہ پرکچھ نہ کہتے اورجو کھرادرہم لاتااس کو بھی پوراسالن یا ترکاری دیتے تھے۔لوگوں کوگمان ہونے لگا کہ شیخ عثمان کھوٹے اورکھرے میں امتیاز ہی نہیں کرسکتےچنانچہ بہت سے لوگ آتے اور انہیں کھوٹے درہم دے کر چلے جاتے اور یہ ان کو کھرا سمجھ کر واپس نہ لوٹاتے اور خریدار کو شرمندہ نہ کرتے۔اس طرح کھوٹے سکوں کے کئی ٹوکرے جمع ہو گئے اور آہستہ آہستہ ان کھوٹے سکوں کی وجہ سے خسارے نے ان کا سارا کاروبار ٹھپ کر دیا۔جب ان کے انتقال کا وقت آیا تو ان کے چند جاننے والے دوست ان کے پاس عیادت کیلئے آئے ہوئے ۔ شیخ عثمان نے اپنے ایک قریبی دوست کو ان تمام ٹوکروں کو چارپائی کے نیچے سے نکالنے کی درخواست کی۔دوست کو بڑا گراں گزرا کہ شیخ عثمان اب نزع کی حالت میں اپنی خفیہ دولت کو دیکھنے کا متمنی ہے۔ دوست نے حکم کی تعمیل کی ۔ شیخ عثمان نے ان تمام ٹوکروں کے کھوٹے سکوں کو دیکھ کرایک لمبی آہ بھری اور آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا”اے بار الہٰ اورستارالعیوب!تودوسروں سے زیادہ آگاہ ہے کہ لوگ مجھے کھوٹادرہم دیتے تھے اورمیں انہیں شرمندگی سے بچاتے ہوئے کھراسمجھ کررکھ لیتاتھااوران کورد نہیں کرتاتھا۔اب میں تیرے پاس اپنی کھوٹی عبادت لے کرحاضر ہو رہا ہوں تواسے اپنی عنایت سے قبول فرمالینا،اس کورد نہ کرنا،تو بڑا کریم اور غفور الرحیم ہے۔

ہمیں رب نے بڑا کھرااور پیارا ملک دیا ہے اور ہم تمام کھوٹے سکے ہیں جو ابھی تک اللہ کی بارگاہ میں رد نہیں کئے جارہے لیکن کب تک؟ہمارے پیارے نبی ﷺنے تو جنگی قیدیوں کیلئے یہ شرط رکھی تھی کہ تم ہمارے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاؤ اور اس کے بدلے میں تم کو رہائی ملے گی ۔ لیکن ہمارے ہاں توتعلیمی نصاب میں سے جہاداورختم نبوت کاباب ہی نکال دیا گیااورایسے الفاظ شامل کردیے گئے ہیںجس کو را،سی آئی اے اور موساد نے ترتیب دیا ہے!

ایوان رڈلے اب بھی بڑی پر امید ہیں۔وہ جب بھی کسی کانفرنس یا کسی ایسے پروگرام میں شرکت کرتی ہیں ،ہمیشہ وہ لباس پہن کر آتی ہیں جوطالبان نے ان کو اسلام قبول کرتے وقت تحفہ میں دیا تھا۔اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھ کرزادِراہ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہیں لیکن نجانے کیوں آج مجھے اس سے آنکھیں ملاتے ہوئے ندامت محسوس ہورہی تھی جبکہ اس نے تومجھے11سال قبل سوات کے طالبان کی حقیقت سے آگاہ کیاتھا۔ اس نے آج بھی بڑے یقین اورعزم کے ساتھ کہا کہ”پاکستان کے حکمرانوں کوبھی اس بات کاعلم نہیں کہ یہ صہیونی طاقتیں کیوں پاکستان کے درپے ہیں؟ کیونکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی امیدوں کامرکز پاکستانی افواج ہے اورمیں ان امیدوں کے چراغوں کی ایمانی روشنی سے ان صہیونی طاقتوں کی ظلمت کوختم ہوتاہوادیکھ رہی ہوںلیکن یہ ایک بڑی گہری سازش کے تحت پاکستانی افواج کوافغان طالبان کے ساتھ جنگ کرانے کی کوشش کررہے ہیں،اللہ ان کی سازشوں سے محفوظ رکھے،آمین ”۔

ایوان رڈلے!آپ کھوٹے سکے لیکرکھرے کام کر رہیں ہیں۔مجھے آپ سے یہی امید ہے۔اللہ ہمارے ان معصوموں اورضربِ عضب اورردّ الفسادکے شہداء کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے کہ ہمیںان پر ناز ہے۔مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے کہ محبت اور امید کا ہتھیار سب سے بڑا ہے،محبت فاتح عالم ہے،پاکستان کو ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے خود نیست و نابود ہو جائیں گے۔انشاء اللہ

پشاور کے بہادر ننھے شہیدو!تمہارے پاک لہو کی قسم! قاتلوں کو تم نے اور تمہاری پرنسپل صاحبہ اور عملے کے دوسرے ارکان نے بے تیغ ہوکر بھی ایک ہی لخت میں اپنی معصومیت ومظلومیت کی چیخوںسے شکت فاش دی ہے لیکن کیاکروں جب یہ تصورکرتاہوں توخوپرقابونہیں رہتاکہ جن ہاتھوں نے ان کواسکول کی یونیفارم پہناکر،ماتھاچوم کرخداحافظ کہاتھا، کیاان کومعلوم تھاکہ اب قیامت تک ملاقات نہ ہوگی اورجو ہاتھ اس امیدپراسکول چھوڑکرگئے تھے ،کیاان کومعلوم تھاکہ اب انہیں ہاتھوں سے اپنے ان پھولوں کوسردقبرمیں اتارناپڑے گااورہرسال تمہاری پاکیزہ یادوں کے چراغ اپنے لہوسے جلانے کاعزم دہراتے رہیں گے۔خداجانے عباس تابش یہ شعر کہہ کرخودکتنارویاہوگا
ہمارے کھلنے اورجھڑنے کے دن اک ساتھ آئے ہیں
ہمیں دیمک نے چاٹاہے شجرکاری کے موسم میں

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.