کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی نااتفاقیاں، بدگمانیاں اور غلط
فہمیاں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہیں، یہاں تک کہ خونی رشتے بھی بکھر کر
رہ جاتے ہیں۔ سبھی اپنی انا کا پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ آج کل ہر کسی کو رشتوں
سے زیادہ اپنے حق پر ہونے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ کوئی یہ کیوں نہیں سمجھتا
کہ تھوڑی عاجزی دکھانے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ ساری نااتفاقیاں، بدگمانیاں
ختم ہو سکتی ہیں، قیمتی رشتوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہم اپنی
اپنی اناؤں کے جال میں کچھ اس طرح پھنس چکے ہیں کہ اسے توڑ کر باہر نکلنا
ناممکن سا لگتا ہے...
مجھے افسوس ہے، ہمارے معاشرے کے بڑوں پر ان کی اس چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی
سزا چھوٹوں کو سہنی پڑتی ہے- میں ہم سب سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم کیا
سبق دے رہے ہیں ہماری آنے والی نسل کو، کہ جہاں اپنی اور اپنی انا کی بات آ
جائے،وہاں سب سے نظریں پھیر لینی چاہییں، چاہے کوئی بھی رشتہ ہو توڑ دو
اسے، ہمیشہ کے لیے الوداع کہ دو۔ ہمیں ایسا کرتے دیکھ کر وہ ننھی نسل، جو
ہمیں اپنا آئیڈیل مانتی ہے، ہمارے نقشِ قدم پر چلنا چاہتی ہے، کس طرح صحیح
غلط میں فرق کر پائے گی؟؟؟؟؟؟؟
جب والدین اپنے بچوں کے سامنے اپنے ہی بہن، بھائیوں اور رشتہ داروں کی
برائیاں کر رہے ہوتے ہیں، تو دراصل وہ ان کے معصوم ذہنوں میں نفرت کے بیج
بو رہے ہوتے ہیں۔
خدا کے لیے رحم کیجیے خود پر بھی اور اپنے بچوں پر بھی۔ اپنے ذاتی اختلافات
کی وجہ سے بچوں کو ان کے عزیز رشتوں کے پیار اور شفقت سے محروم مت ہونے
دیجیے۔۔۔۔۔
صفیہ ہارون کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔
|