تقدیر کے معانی:
علامہ اقبالؒ کے تصورِ تقدیر پر بحث کرنے سے پہلے یہ جان لینا نہایت ضروری
ہے کہ لفظ ِ تقدیر کے لغوی معنی کیا ہیں۔صاحب فرہنگِ آصفیہ نے تقدیر کے
معنی اندازہ، مقدار، قسمت،نصیب، بخت یا وہ اندازِ قدرت یا فطرت جو اللہ
تعالیٰ نے ہر چیز کے مادے میں رکھ دیا ہے، لکھے ہیں۔صاحبِ نوراللغات نے
تقدیر کا مادہ قدر بتایا ہے اور اس کے معنی رزق کے حصے کر دینا اور اندازہ
کرنا کے بتائے ہیں۔مولوی عبدالحق نے ’لغات تاریخی اصول پر‘ میں تقدیر کے
معنی وہ اندازہ جو اللہ تعالیٰ نے روزِ اول سے ہر شے کے لیے مقرر کیا ہے،
لکھے ہیں۔
تقدیر کی قسمیں:
علامہ محمد ارشدالقادری نے انہی معنوں سے اتفاق کرتے ہو ئے تقدیر کی تین
قسمیں بیان کی ہیں:
۱۔ تقدیر ِ معلق
۲۔ تقدیر ِ معلق بہ مشابہ مبرم
۳۔ تقدیر ِ مبرم
تقدیر ِ معلق:یہ تقدیر کچی ہوتی ہے اور ماں باپ، عزیز و اقارب اور نیک
لوگوں کی دعاؤں سے بدل جاتی ہے۔
تقدیر ِ معلق بہ مشابہ مبرم:یہ وہ تقدیر ہے جو قدرے پکی ہوتی ہے،مگر مطلق
مبر م نہیں ہوتی اوریہ اولیا اللہ اور انبیاعلیہمالسلام کی دعاؤں سے تبدیل
ہو جاتی ہے۔
تقدیر ِ مبرم:یہ تقدیر کسی کی دعا سے نہیں بدلتی،جیسے موت کا آنا مبرم ہے
کہ کسی کی دعا سے نہ ٹلے گا۔ یاد رہے کہ ایسے مقام پر اللہ اپنے برگزیدہ
پیغمبروں کو دعا کرنے سے ہی روک دیتا ہے کیونکہ اللہ اپنے انبیا کی دعائیں
رد نہیں کرتا۔
حضرت مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی ؒ نے مکتوبات میں قضا یا تقدیر کی دو
قسمیں لکھی ہیں:
۱) قضائے معلق (۲)قضائے مبرم
وہ لکھتے ہیں:
”قضائے معلق میں تغیر و تبدل کا احتمال ہے اور قضائے مبرم میں تغیر و تبدل
کی مجال نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے: مَاَ یُبَدِّ لُ القَولُ لَذَیَّ(میرا
قول کبھی تبدیل نہیں ہوتا)۔
یہ قضائے مبرم کے بارے میں ہے اور قضائے معلق کے بارے فرماتا ہے:
یَمحُو اللَّہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثبِتُ وَ عِندَہ‘اُمُّ الکِتَابِ(جسے
چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب
ہے)
مسئلہ تقدیر پر مزید اظہارِ خیال فرماتے ہو ئے امام ربانی لکھتے ہیں:
”مسئلہ تقدیر کی تحقیق میں لوگ حیرت میں اور گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور
ناظرین میں سے اکثر لوگوں پر باطل وہم اور بے فائدہ خیالات غالب آچکے ہیں۔
یہاں تک کہ بعض بندے سے جو کچھ اس کے اختیار سے صادرہوتا ہے اس میں جبر کے
قائل ہوئے ہیں اور بعض نے، بندے سے جوکچھ اس سے صادر ہوتا ہے اس کی خدائے
واحد کی طرف نسبت کی نفی کی ہے اور ایک گروہ نے قضا و قدر کے عقیدے میں
میانہ روی اختیارکی ہے اور یہی صراط ِ مستقیم اور مضبوط راستہ ہے“۔
حضرت امام ابو حنیفہؓ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت امام جعفر بن محمد باقرؓ سے
دریافت کیا اے رسول اللہ کے بیٹے! کیا اللہ تعالیٰ نے اختیار بندوں کے سپرد
کردیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سے عظیم اور برتر ہے کہ
ربوبیت کو بندوں کے حوالے کردے پھر امام ابو حنیفہ نے عرض کی۔ کیا اللہ
تعالیٰ نے بندوں کو مجبور پیدا کیا ہے؟ تو امام جعفرؓ نے فرمایا: اللہ
تعالیٰ اس بات سے بہت عدل والا ہے کہ وہ بندوں کو پہلے تو مجبور پیدا کرے
اور پھر انہیں عذاب میں ڈالے۔ پھر امام ابو حنیفہؓ نے عرض کیا کہ اس معاملے
کی اصل حقیقت کیا ہے؟ توامام جعفر ؓ نے فرمایا کہ یہ معاملہ اختیار اور جبر
کے درمیان ہے کہ نہ تو انسان بالکلیہ مجبور ہے اور نہ بالکلیہ مختار ہے اور
نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر کوئی جبر ہے اور نہ کوئی بات خواہ مخواہ
انسان پرمسلط کی گئی ہے۔
علامہ اقبالؒ بھی اس سلسلے میں اسی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں اور انہوں نے
حضور اکرمﷺ کے ارشاد کو یوں بیان کیا ہے:
چنیں فرمودہء سلطان بدر است
کہ ایماں درمیانِ جبرو قدر است
مسئلہ تقدیر علم ِ کلام کے مباحث کا اہم موضوع بنا رہا اور متکلمینِ اسلام
نے اسے سلجھانے کی بڑی کامیاب کو ششیں کیں۔اس مسئلے پر بحث کرنے والے علما
اور فلسفی دو گروہوں میں منقسم ہو گئے، ایک اس نظریے کے قائل ہیں کہ اللہ
تعالیٰ قا درِ مطلق ہے اور اس کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی اپنی جگہ سے ہل
نہیں سکتا،پس اللہ کی مرضی و منشا کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ انسانی اعمال
بھی اسی کے تابع ہیں اور انسان مجبورِ محض ہے،وہ جو کچھ کرتا ہے اور جو
اعمال بھی اس سے سرزد ہو تے ہیں،ان میں اس کی مرضی اور ارادے کو کو ئی دخل
نہیں ہو تا؛ بلکہ یہ سب کچھ پہلے سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر شدہ ہوتا
ہے اور اسی کا نام تقدیر ہے۔ تقدیر کے اس نظریے کو ’نظریہ جبر‘ کہا جاتا
ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک بندے کی حیثیت جمادات کی سی ہے اور ان کا گمان یہ ہے
کہ بندے کو نہ تو نیکی پر ثواب ملتا ہے اور نہ برائی پر عذاب۔ بہرحال اس
نطریے کے قائل قرآنِ مجید سے بھی استدلال کرتے ہیں اور ایسی بے شمار آیات
مبارکہ ہیں جو وہ اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں تاہم سطورِ ذیل میں ان میں سے
چند ایک رقم کی جارہی ہیں:
وَ لَوشَآءَ لَھَدٰ کُم اَجمَعِین۔ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے
دیتا۔
(سورہ النحل)
وَ مَا تَشَآءُ ونَ اِ لَّا اَن یَّشَآ ءَ اللَّہ۔ اور تم نہیں چاہ سکتے ہو
مگر وہی جو اللہ چاہتا (سورہ الانسان) ہے۔
یَغفِرُ لِمَن یَّشَا ءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَآ۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے
گابخشے گا اور جس کو
(سورہ العمران) چاہے گاعذاب دے گا۔
وَ لَم یَکُن لَّہ‘ شَرِیک فِی المُلکِ اور خدا کی سلطنت میں کوئی اس کا
شریک
وَخَلَقَ کُلِّ شَی ءٍ فَقَدَّ رَہ‘ تَقدِیراً۔ نہیں اس نے ہر چیز کو پیدا
کیا اور پھر اس کی (سورہ الفرقان) تقدیر معین کر دی۔
اِنَّ اللّٰہ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیر۔ بے شک اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے۔
جبر کے مقابلے میں دوسرانظریہ قدر کا ہے،اس نظریے کے قائل انسان کو اپنے
اعمال و افعال میں کلی طور پر آزاد اور خود مختار سمجھتے ہیں اور قرآن ِ
حکیم کی جو آیات حوالے کے طور پر پیش کرتے ہیں،ان میں سے کچھ یہ ہیں:
وَ قُلِ الحَقُّ مِن رَّ بِّکُم فَمَن آپ کہہ دیجیے اے پیغمبر کہ یہ قرآن
جو
شَآءَ فَلیُو مِن ُ وَ مَن شَآء حق ہے تمہارے رب کی طرف سے نازل
فَلیَکفر ۔(سورۃ الکہف) ہوا ہے۔ اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر
کرے۔
مَن عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفسِہِ وَ مَن جس نے نیک کام کیاتو اپنے لیے کیا
اور برا
أَ سَآءَ فَعَلَیھَا وَ مَا رَبُّکَ بِظَلاّم کیا تو اس کا وبال خود اس پر
پڑے گا اور
ٍ لِلعَبُید۔(سورۃحٰمٓ السجدہ) آپ کا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
مذ کورہ آیات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو
نہ تو مجبورِ محض بنایا ہے اور نہ ہی اتنا مختار کہ اس کا جو جی چاہے کرے
اسے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا،گویا انسان مجبور اور مختار دونوں کے
درمیان ہے یعنی نہ تو اسے کلی طور پر مختار بنایا گیا ہے اور نہ ہی اسے اس
قدر مجبور بنایا گیا ہے کہ وہ اگر چاہے بھی تو برائی سے نہ بچ سکے اور
اعمال صالح کرنے کی استطاعت کے باوجود اچھے اعمال نہ کرے کہ مجبور محض ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر انسان کو انتخاب کا اختیار نہ ہو تا تو اس کی آزمائش کے کیا
معنی ہو تے؟ انسان کے اختیار و آزادی کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کریم میں
اس کو نیک عمل کی ترغیب دی گئی ہے اور برے اعمال کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے۔
جیسا کہ میں ابھی ابھی اوپر بیان کر آیا ہوں کہ ارشاد ربانی ہے:
”اب جو شخص بھی ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا اور جو ذرہ
برابر بدی کرے گا اس کی سزا پائے گا۔“
تو گویا انسان کو اپنے ارادہ اور عمل میں ایک خاص حد تک اختیار عطا کر دیا
گیا ہے لیکن اس کا یہ اختیار محدود ہے اور اسی حد تک ہے جس تک اللہ تعالیٰ
کے کامل ارادے میں اس سے نقص پیدا نہیں ہوتا۔پس انسان کو انتخاب اور آزادی
کا حق حاصل ہے۔
علامہ اقبال بھی تقدیر کے اسی نظریے کے قائل تھے۔وہ بخوبی جانتے تھے کہ ایک
مومن کے لیے صحیح راستہ جبرو قدر کے درمیان ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
؎ چنیں فرمودہء سلطان بدر است کہ ایماں درمیانِ جبرو قدر است
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ علامہ اقبال کے نزدیک انسان نہ مجبور ِ محض ہے نہ
اسے مکمل آزادی حاصل ہے۔ تقدیر انسانی آزادی کی حد نہیں بلکہ اس کی حد بندی
کرتی ہے اور اس کے لیے محرک عمل کا حکم رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں
انسانی خودی اور اس کی تقدیرکا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر انسان اپنی خودی
کی تربیت میں ان اصولوں کا خیال رکھے جن کی وجہ سے باطنی صلاحیتیں ظاہر
ہوتی ہیں تو وہ اپنی تقدیر کا خود مالک بن سکتا ہے،اسی لیے تو وہ کہتے ہیں:
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
گویا انسانی خودی تربیت کے مراحل سے گزر نے کے بعد تقدیرِ یزداں بن جاتی
ہے۔علامہ کہتے ہیں:
؎ تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں ں ۃٰن ہے
عبث ہے شکوہ تقدیر ِ یزداں
تو خو د تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
علامہ اقبال نے نہ صرف اپنے اردو اور فارسی کلام میں بلکہ اپنے خطبات
’تشکیلِ جدید الہیات ِ اسلامیہ‘ [Reconstruction of Religious Thoughts]میں
دوسرے، تیسرے اور چوتھے خطبے میں اس مو ضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔وہ اگر
تقدیر کے اس تصور کے قائل نہ ہوتے جس کا ذکر انہوں نے اپنے خطبات میں کیا
ہے تو ان کا تمام تر فلسفہ بے معنی ہو جاتا، ان کے اپنے کلمات ملاحظہ
کیجیے:
”قرآنِ مجید نے بارہا تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے؛ لہٰذا ہمیں تقدیر کے اس
مسئلے پر بھی غور کر لینا چاہیے بالخصوص اس لیے کہ زوالِ مغرب میں اسپنگلر
نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام خودی کی نفی کا خواہش مند ہے۔“
(جاری ہے) |