اک طوق فرد جرم تھا کس کے گلے میں تھا!

آقائے دوجہان ، سردارالانبیاء وافضل الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمدمصطفی ﷺکی حیات مبارکہ رہتی دُنیا تک سراپائے رشدوہدایت ،جن کاہرکوئی معترف، جن کے ذاتی اوصاف ،اخلاق حمیدہ، صادق وامین ہونے کی گواہی بدترین مخالف بھی دیں،کہ اگرآپ ﷺ فرمادیں پہاڑ کے اُس طرف سے لشکرآرہا ہے تو یقینا سچ ہے،لیکن اس کے باوجود وہ کہتے تھے ،ہمارے معمولات اورمعاملات جیسے ہیں ،ویسے ہی رہنے دیں،اُن سے ہم باز نہیں آئیں گے۔ آج ہمارے معاشرے کی حالت بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہم اﷲ کوایک مانتے ہیں لیکن اﷲ کی ایک نہیں مانتے ۔رسول ﷺ سے محبت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگرآپ ﷺ کے طرزحیات سے کوسوں دورہیں۔

قربان جائیں آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم پرجو اﷲ کے احکام کے سوفیصد فرمانبردار،صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم کوجومحبت وعشق ذات مقدس حضور سرور کائنات سے تھا اسکی بنا پرتمام صحابہ آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اشارہ ابرو پرہرحکم کی تعمیل کے لئے ہروقت آمادہ رہتے۔ایک صحابیہ کا واقعہ سنے عرصہ ہوا کچھ اس طرح یاد پڑتا ہے،کہ وہ راستہ میں تھیں کہ پردہ کے حکم کی خبرملی،وہیں راستے سے ایک طرف ہوکربیٹھ گئیں ،کسی دوسرے کوگھرسے چادر لانے کے لئے بھیجا،اس حکم پرعمل کے بغیر وہاں سے ایک قدم آگے نہ بڑھایا، دل میں یقین اُترچکاتھا کہ اس حکم پرعمل کئے بغیرجوقدم اُٹھے گااُس قدم میں یقینی ناکامی ہے،کہیں روزقیامت شمار نافرمانوں میں نہ ہو۔آپ ﷺ پرنازل ہونے والی اﷲ پاک کی مقدس کتاب قرآن کریم کے احکامات قیامت تک کے آنے والے آخری انسان کی راہنمائی اوردُنیا وآخرت کی کامیابی کے لئے یقینی،رسول کریم ﷺ کے اوصاف وحالات،اخلاق وطریقہ تعلیم۔ مکی ومدنی ادوارمیں پیش آنے والے واقعات وحالات،صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم کاطرزعمل اورقربانیاں، قرون اولیٰ کے مسلمانوں اوران کے شبانہ روزکے معمولات دیکھ لینا کافی ہے، کہ انسان کوبدلنا آسان نہیں،انسان کوراہِ راست پر لانا آسان نہیں، اصلاح معاشرہ آسان نہیں،اس کے لئے قربانی ،صبر ، استقلال کے ساتھ مسلسل ریاضیت درکارہے۔

اصلاح معاشرہ کے عمل کے تسلسل میں ذرا بھی کمی وبیشی ہو تواس کے اثرات پورے معاشرے کولمحات میں متاثرکرتے ہیں۔جیسے ملک کے کسی ایک حصہ میں سردی پڑے تواس کے اثرات سردی کی لہرکی صورت میں پورے ملک کی آبادی کولمحات میں متاثرکرتے ہیں ویسے ہی اصلاح معاشرہ کونظرانداز کرنے کے اثرات لمحات میں پوری انسانیت کواپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔پھرمعاشرہ میں اجتماعی طورپربگاڑپیداہوتاہے،بدامنی، افراتفری کی ہوائیں چلتی ہیں ، کسی کوکچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخرہوکیا رہا ہے۔ہرکوئی حق پرہونے کا دعوی کرتا ہے اورہرکوئی اپنے نفس کی تسکین کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کے لئے ہروقت آمادہ نظرآتا ہے، پھرشدت پسندی بڑھتی ہے،ملک وملت کا خیال رہتا ہے نہ ہی کسی قسم کا احساس زیاں اورنہ ہی قانون کااحترام باقی رہتاہے،جائزناجائز کی تمیزختم ہوجاتی ہے۔نہ توپیشہ کا لحاظ باقی رہتا ہے نہ ہی جنس کاخیال۔انسانیت نام کی چیزمعاشرے میں باقی نہیں رہتی،ہرکوئی خودکوحق پراوردوسرے کوقصوروار گردانتاہے۔

معاشرے کی اصلاح کی بنیاداورابتداگھرکے ماحول اوربچپن کے ابتدائی ایام کی تربیت بنتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں کوصرف راحت وآرام کی فروانی،لباس، خوراک اورآرائش کے سامان کی فراہمی ہی ہماری ذمہ داری ہے۔ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کا ابتدائی کام اوراس کے قلب و ذہن پردین اسلام کا نقش قائم اورمستحکم کرنا،اﷲ عزوجل اوررسول اﷲ ﷺکے احکامات کا تابع اورمطیع بنانے کی تربیت،اسلامی تہذیب ومعاشرت سے آگاہ کرنا اور غیراسلامی افکار سے بچانا،صرف دنیاوی ترقی ہی کوزندگی کامقصد،کامیابی اورعروج کی دلیل سمجھنے سے حفاظت،راست گوئی اورراست بازی کی عادت، خدمت وایثار کا شوق، خدمت خلق اوروطن دوستی کاجذبہ پیداکرنا بچپن کی تربیت سے ہی ممکن ہے، اگریہ کام بچپن میں گھروں کے اندرنہیں ہوا تودُنیا کی بڑی سے بڑی ڈگری، یونیورسٹی اور تربیت گاہ اس مقصدمیں کامیاب نہیں سکتی۔

انسان انفرادی طورپربگڑتاہے تواس کی بدعملی کی سزا ضرورملتی ہے،چاہے اسی دُنیا میں ورنہ آخرت میں جس دن نامہ اعمال پیش کیا جائے گا اورحساب کتاب ہوگا، مگرقومیں جب اجتماعی طورپربگڑ جائیں توان کی بداعمالیوں کی سزابھی اجتماعی طورپراسی دُنیاہی میں ملتی ہے۔انتشاراوربدامنی سے معاشرہ کا جوحال ہوچکاہے، اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔اصلاح معاشرہ آسان نہیں،اس کے لئے نیک نیتی کے ساتھ مسلسل اجتماعی کوشش اور ریاضیت درکارہے۔ معاشرہ میں امن واستحکام اورپرامن معاشرہ کی تعمیرکی اصل بنیاد ، جسے ہم مکمل طورپر فراموش کرچکے ہیں۔مثالی معاشرہ کا قیام اورامن وسکون کی دولت اﷲ عزوجل کے احکامات کے تابع اورمطیع ہونے،خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺکی حیات مبارکہ کواپنانے اوردوسروں کواسی بات کی دعوت دینے سے نصیب ہوتی ہے ۔یہی حقیقت ہے اور اصلاح معاشرہ کی صرف یہی صورت ہے ۔مسلمان جوعلمبردار پیغام الہٰی تھا،اس نے اپنا منصب چھوڑدیا اور حب دُنیا نے اُسے بکھیرکررکھ دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا ذاتی مفاد،جھوٹی انااورمادیت پرستی نے معاشرے کی روح کوبگاڑ کر رکھ دیاہے اور یہ بگاڑ اس حدتک بڑھ گیا، کہ آج پورا معاشرہ شتربے مہار ہوگیا ہے جس کے دل میں جوآتا ہے وہ بلاخوف وخطر کئے جارہا ہے ۔ مفادات کی جنگ جاری ہے، ادارے وافراد ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
اک موج خون خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اک طوق فردجرم تھا کس کے گلے میں تھا
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.