ملک آج دوسری جنگ آزادی کے دور سے گزر ررہاہے ، یہ
آزادی اب انگریزوں کے سے حاصل کرنے کی نہیں ہے بلکہ ان طاقتوں سے حاصل
کرنے کی ہے جنہوںنے اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے لئے پہل کی ہے ۔ یہ پہل
عام لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہے، یہ حالات کل کے جنگ آزادی کے وقت پر بھی
تھے آج بھی ہیں ۔ جس وقت ملک میں انگریزوں کی آمد ہورہی تھی اس وقت ملک
کے حکمران خصوصََامسلم حکمران محلوں میں مشاعروں و قوالیوں کی محفلوں کا
اہتمام کررہے تھے ، علمائے دین مناظروں کے سرپرست بن چکے تھے ، امراء
دولتیں جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے تو خواص اپنی واہ واہی بٹورنےمیں لگے
ہوئے تھے ۔ آج بھی وہی دور ہے ۔ ملک پر براوقت آچکاہے ، آج بھی ہمارے
درمیان مشاعروں کی محفلیں سج رہی ہیں ، وہ اسکی واہ واہی کررہا ہے ، یہ اس
کی واہ واہی کررہاہے ۔ امیرگھروں میں شان بڑھانے کے پروگرام و اجلاس منعقد
ہورہے ہیں اور علماء اپنے اپنے مفادات کی خاطر حکومتوں کی چاپلوسی کے لئے
کمر بستہ ہوچکےہیں ۔ جس مدنی خاندان نے انگریزوں کےخلاف جہاد کے فتویٰ کو
لبیک کہا تھا وہی مدنی خاندان اور دارالعلوم دیوبند کا عملہ جہاد کرنے کی
بات تو دور احتجاج کرنے کو بھی غیر شرعی قرار دیا رہاہے اور علماء و طلباء
کو احتجاجی سرگرمیوں سے دور رہنےاور اپنے گھروں و رہائش گاہوں میں گھسے
رہنے کی ہدایتیں دے رہاہے ۔ یہ وہی دور لوٹ آیا ہے جس میں غدر کااعلان ہوا
تھااور 1803 میں جنگ آزادی پر جیسے جہاد کا فتویٰ جاری ہو ا تو موکانا امد
اللہ مہاجر مکی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا
فضل حق خیر آبادی جیسے علماء نے اس جنگ کی باگ ڈور سنبھال لی ۔ ایسا نہیں
تھا کہ اس دور میں انگریزوں کے غلام علماء بھی تھے باوجود ان علماء نے
آزادی کو اہمیت دی اور انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے ۔ آج بھی ہمارے درمیان
علماء کا ایک گروہ ہے جو بظاہر ہماری قیادت کا دعویدار ہے لیکن انکی قیادت
بارش میں ہونے والی تباہی ، بچوں کے اسکالر شپ ، سیلاب متاثرین کی مدد،
زلزلوں سے تباہ ہونے والے مکانات کی تعمیر اور زیادہ سے زیادہ فرقہ وارانہ
فسادات کے بعد ہونے والے نقصانات کی بھر پائی کے لئے چندہ کرنا اور
بازآباد کاری کے کام کرنا ہے اسکے علاوہ انکی قیادت اگر کہیں اور ہے بھی
تو وہ ہے اتحاد بین المذاہب کے جلسوں میں چٹکلے لے لے کر خطبے کرنا ہے ۔
آج جامع ملیہ اسلامیہ ، جے ین یو ، ملاپورم کااحتجاج وغیرہ ہمارے لئے
نمونہ ہے اس نمونے سے ہم سبق لے کر ہندوستان میں نافذ کئے جانے والے کالے
قانون کی مذمت کرنے کے بجائے ہم مسلک مسلک اور میری تنظیم تیری تنظیم کا
کھیل کھیل رہے ہیں ۔ جو علماء آج اپنی اپنی تنظیم کا بیانر اور جھنڈا
اونچا کرنے کی سوچ رہے ہیں انہیں ماضی کا وہ دور یاد کرنا ہوگا جس میں
جمیعت العلماء ہند نے اس ملک کی آزادی کی پہلی تنظیم ہوتے ہوئے بھی جنگ
آزادی کو مضبوطی دینے کی خاطر انڈین نیشنل کانگریس اور انڈین مسلم لیگ کا
ساتھ دیا اور ملک کو آزاد کرانے کے لئے کانگریس و مسلم لیگ کو اہمیت دی ۔
افسوس کامقام ہے کہ آج ملک میں شہریت ترمیم ایکٹ اور ین آر سی کے خلاف
ملک بھر میںاحتجاجات سراپا ہورہے ہیں تو ہمارے قائدین کھل کر آواز
نہیںاٹھارہے ہیں ۔ یہاں بیانر اور تنظیم کا نام اونچاکرنا اہم نہیں ہے بلکہ
ملک میں اسی ین آر سی اور سی اے اے کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے غیر مسلم
و ہم وطن ہندوبرادران اور کچھ مسلم دانشوروں اورحقوق انسانی کے علمبرداروں
کی جانب سے عارضی تنظیموں کا قیام کیاگیاہے ان تنظیموں کو ساتھ دیں تو بہتر
نتائج آسکتے ہیں ۔ جو مسلم تنظیمیں اب تک کام کرتے رہے ہیں وہ ین آر سی
اور سی اے اے کے معاملے میں براہ راست جانے کے بجائے کوشش کریں کہ دوسروں
کوآگے رکھیں اور ہرگز بھی ان تنظیموں کے بیانر تلے کام کرنے سے گریز کریں
جو اسلامی شناخت کو ظاہر کرتے ہوں ۔ اس سے یہ بات غیروں میںآجائیگی کہ یہ
لڑائی ہندو ۔ مسلم کی ہے ۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف قانون بنایا ہے تو
مسلم تنظیمیں قیادت کے لئے آگے آئی ہیں اس لئے انکا ساتھ نہ دیں ۔ ساتھ
ہی ساتھ ایسی مسلم تنظیموں کے بیانر میں بھی کام نہ کریں جو ماضی میں
مسلمانوں کی تنظیموں کے طورپر کام کرتی رہی ہیں اس سے ہندوئوں میں شدت
آنےکے امکانات ہیں ۔ آج ہندوستان کو فرقہ پرستوں کے اندھے اور ظالمانہ
قوانین سے ملک کو بچانا ہے اگر ہم اب بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کل
ہماری اپنی تنظیمیں بھی بچیں گی ، ہمارے ادارے بھی بچیں گے اور ہمارے جھنڈے
بھی لہراتے رہیں گے ۔ جب دستور ہی ہم سے چھین لیاجائے تو ادارے اورتنظیمیں
رکھ کر کیا کریں گے؟۔
|