اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ "ہم نے
انسان کو معزز بنایا ہے".
سابق آرمی چیف و صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے ٣ نومبر ۲۰۰٦ کو ملک میں
ایمرجنسی نافذ کر کے آئین شکنی کرنے کے کیس پر خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلہ
جاری کیا جس کے مطابق:
"اگر پھانسی سے پہلے مشرف فوت ہو جائیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک
لایا جاۓ تین روز لاش لٹکتی رہے صرف لاش لٹکتی نہ رہے اس دوران پانچ بار
پھانسی دی جائے".
ججوں کا یہ انتہائی متنازعہ فیصلہ تشدد، بغض اور ذاتی اختلافات سے بھری سوچ
کی عکاسی کرتا ہے. فیصلے میں استعمال کی گئی زبان مذہب، آئین، اخلاقیات اور
تہذیب سے بالاتر ہے. لاشوں کی پامالی کی اجازت دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا
تو کیا (معاذ اللہ) اس کیس کا شریعت کے اصولوں کے خلاف جا کر فیصلہ لکھنے
والے جج دینِ محمدیﷺ سے زیادہ طاقتور ہو گئے؟
یہ فیصلہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ اداروں کو لڑوانے اور پاک فوج کو دنیا
میں بدنام کرنے کی سازش ہے. جنرل مشرف کو اس وقت کے آئین کو توڑنے کی سزا
سنائی گئی جس وقت یہ ایسا سنگین جرم نہ تھا. موجودہ آئین کے مطابق اگر کوئی
شخص ماضی میں کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کی اس وقت قانون میں سزا نہیں تھی
تو اسے حال میں یا آئندہ وقت میں نئے قانون کے مطابق ماضی کے جرم پہ سزا
نہیں دی جا سکتی.
لیکن پھر بھی اگر جنرل مشرف کی غلطیاں ناقابلِ معافی ہیں تو شفاف ٹرائل
ضرور کرنا چاہیے مگر یہ کیسا ٹرائل ہے کہ ملزم کی غیر موجودگی میں اس کی
سنوائی کے بغیر اس کے وکلاء کو موقف پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر عدالت
فیصلہ سنا دے؟ اگر یہ امر جائز ہے تو عدالتیں آج تک مفرور اور اشتہاری
ملزمان اسحاق ڈار، حسن و حسین نواز کا فیصلہ کیوں نہ سنا سکیں جو ملک و قوم
کے اربوں ڈالرز لوٹ کر کھا گئے؟ ہزاروں معصوم لوگوں کے قاتل اور لندن میں
بیٹھ کر پاکستان مخالف نعرے لگانے والے الطاف حسین کو آج تک عدالتیں کیوں
نہ کچھ کہہ سکیں؟ کیوں ایک سزا یافتہ مجرم علاج کے نام پر غیر مشروط ضمانت
حاصل کر کے عوام کو انگوٹھا دکھا کر بھاگ گیا؟ اگر ملزم کی غیر موجودگی میں
اس کے وکلاء کو دلائل پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو کیسے سیاسی
ڈاکو ضمانتوں پر رہا ہو رہے ہیں؟ جنرل مشرف کا ٹرائل ضرور کریں مگر اس سے
پہلے کارگل کے مقام سے اپنی فوج کو واپس بلانے والے شخص کا ٹرائل کیا جائے.
ایمرجنسی نافذ کرنا جرم سہی مگر پہلے ان عناصر کا ٹرائل کیا جائے جنھوں نے
ملک کے حالات اس قابل بنائے کہ ایمرجنسی نافذ کی گئی. لیکن اگر سیاسی
چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے جرائم کو بھلا کر صرف و صرف ملک و قوم پر
جانیں نچھاور کرنے والی پاک فوج کے سربراہ رہنے والے شخص کو نشانہ بنا کر
"غدار" قرار دے کر موت کا حقدار ٹھہرایا جائے گا تو سوالات ضرور اٹھیں
گے...
پاکستان کے لئے کئی محاذوں پر جنگیں لڑ کر نعرۂ تکبیر بلند کرنے والا، ۲۰
نومبر ١۹٦۹ کو جب مسلح شدت پسندوں نے خانہ کعبہ پر قبضہ کیا تھا تو اللہ کے
گھر کا محافظ بننے والا اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وطنِ عزیز کا
دفاع کرنے والا شخص کسی جرم کا مرتکب تو شاید ہوا ہو مگر غدار کبھی نہیں ہو
سکتا. اس متنازعہ فیصلے کو نہ حکومت قبول کرے گی، نہ فوج اور نہ ہی
پاکستانی عوام. پوری قوم افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے. دنیا دیکھ لے کہ
ہم متحد ہیں.
پاک آرمی زندہ باد!
پاکستان پائندہ باد!
|