دسمبر پہلے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے یوم پیدائش کے
حوالے سے منایا جاتا تھا۔ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان نے دسمبر کو تلخ
کردیا اور پھر تلخیاں بڑہتی چلی گئیں۔ 2006 میں وانا میں ایک دینی مدرسے پر
بمباری سے 80 سے زائد معصوم طلبہ شہید ہوئے۔ 2007 کے دسمبر میں ہی محترمہ
بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 2014 میں آرمی
پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ڈیڑھ سو معصؤم بچے لقمہ اجل بنے۔
2019 کے دسمبر میں عدالت عظمیٰ پاکستان نے آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کو
غیر قانونی قرار دے کر قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر
مقننہ نے ہوش مندی کا فیصلہ کیا تو یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے گا۔
ریاستی اداروں کو قانون کا پابند بنائیں گے تو ملک ترقی کی طرف گامزن ہو
گا۔ اسی سال دسمبر کی دوسری خوش آئند خبر یہ ہے کہ خصوصی عدالت نے سابق
آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو دستور شکنی کیس میں ریاستی دباو کے باوجود
سزائے موت سنا دی۔ اس کیس کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ میں کیا سلوک ہوگا، اس کے
باوجود خصوصی عدالت نے قانون کی بالادستی اور آئے روز دستور کو معطل کرنے
اور مارشل لاء لگادینے کی راہ ہمیشہ کے لیے بند کردی ہے۔ افراد اور ادارے
پاکستان کے اثاثے ہیں، سب کو قانون کا پابند بنا کر ہی ہم درست سمت سفر
کرسکتے ہیں۔ مسئلہ پرویز مشرف یا جنرل باجوہ کا نہیں، یہ شخصیات عارضی ہیں،
بات اصولوں اور طریقہ کار کی ہے۔ مستقبل میں آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع
اور ملک کے نظام کو فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ چڑھانے کا چلن ختم ہونا بہت
ضروری ہے۔ ہماری بہتر سالہ تاریخ میں نصف دورانیہ فوجی طابع آزماوں کی
بھینٹ چڑھ گیا۔ یوں لگتا ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی غلام ہیں جنہیں جب چاہو
، جدھر چاہو ہانک لو۔
عدالت میں سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ، غیر ملکی شہریت اور انتخابی
طریقہ کار بارے مقدمات بھی سال ہا سال سے زیر سماعت ہیں۔ پانامہ لیکس کا
معاملہ بھی زیر التواء ہے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ کا معاملہ بھی زیرسماعت
ہے۔ ان سارے مقدمات پر اگر آنے والے چیف جسٹس خصوصی توجہ دیں تو بنیادی
نوعیت کے تمام معاملات 2020 میں یکسو ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں انتخابی عمل
میں خفیہ ہاتھوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت، غیر ملکی فنڈنگ اور بااثر طبقات کی
طرف سے پولنگ میں دھاندلی اور پھر انتخابی عذرداریوں کا پانچ سے دس سالوں
تک لٹک جانا ایسے معاملات ہیں جن کی وجہ سے عوام کا انتخابی عمل پر اعتبار
اٹھ چکا ہے۔
ہم نے نوے ہزار فوجی قید ہوتے دیکھے، کئی سال تک ان قیدیوں کی رہائی کا
انتظار کیا۔ ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے آج بھی
مشرقی پاکستان میں سولیوں کو چوم رہے ہیں۔ وانا کے مدرسے کے بچوں کی چیخیں
آج بھی ہمارا پیچھا کررہی ہیں اور آرمی پبلک سکول کے معصوموں کے چہرے کون
بھول سکتا ہے۔ بینظیر بھٹو سے لاکھ اختلاف سہی لیکن انہیں بیدردی سے راستے
سے ہٹانا یہ سب کچھ دسمبر میں ہوا۔ جس دسمبر کو ہم اپنے قائداعظم کے یوم
پیدائش کے طور پر مناتے تھے، آج کتنے زخم بھردئیے ہیں ہم نے ۔ ستر سالوں
بعد عدلیہ نے دسمبر کو امید افزاء بنا دیا کہ شاید آنے والی نسلیں دسمبر کو
قوم کی حقیقی آزادی کے مہینے کے طور پر یاد کرسکیں۔
ابھی نومبر ہی میں ہم نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم ہونے پر پاکستان کی
غلام گردشوں میں خاموشی دیکھی تو پوری قوم مایوسی میں ڈوب گئی کہ معصوم
کشمیریوں کے لیے ایک آواز تھی جو بند ہو گئی۔ وہ آواز جو خود بلند ہوتی
تھی، جو پوری دنیاء کو کشمیر کی طرف متوجہ کرتی تھی۔ اس آواز نے کشمیر کے
بجائے سکھوں، ہندوؤں اور مرزائیوں کے لیے اٹھانا شروع کردیا ہے۔ یہ وقت
پاکستان میں آنا تھا، جس خدشہ کا اظہار ڈاکٹر اسراراحمدؒ، حکیم سعیدؒ اور
شورش کاشمیریؒ نےکئی سال پہلے کیا تھا اور کسی کو یقین تک ہیں تھا، آج وہی
سانحے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
جہاں تلخ واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے وہیں اس سال کے دسمبر نے ہمیں روشن
پاکستان کی نوید بھی سنائی ہے ۔ اگر قانون کی بالادستی رواج پاجائے، دستور
شکنی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے، انتخابی عمل کو شفاف بنانے،
انتخابی عذرداری کو فوری نمٹانے، غیر ملکی و ادارہ جاتی مداخلت کو ختم کرنے
اور قومی زبان کو بلاتاخیر اپنانے کا فیصلہ 2020 میں ہوجائے تو دسمبر کی
تلخیاں بھلا کر ہم اسے قائداعظم اور حقیقی آزادی کے مہینے کے طور پر منانے
کے قابل ہو جائیں گے۔ اب ہمیں افراد کے بجائے ملک کا سوچنا چاہیے۔
مجھے موسم سے کیا لینا دینا نومبر ہو دسمبر ہو
میرے سب رنگ تجھ سے بہاروں کے خزاوں کے |