علامہ اقبالؒ دوسرے خطبے میں فرماتے ہیں:
”ہم اسے کائنات موجود کہتے ہیں تو ان معنوں میں کہ وہ ایک غیر معین امکان
ہے؛چنانچہ بطور ایک نامی کل زمانے کا ہی تصور ہے جس کو قرآن پاک نے تقدیر
سے تعبیر کیا ہے لیکن جس کو نہ اسلامی دنیا ٹھیک ٹھیک سمجھ سکی نہ غیر
اسلامی دنیا؛دراصل تقدیر عبارت ہے اس زمانے سے جس کا انکشاف ابھی باقی ہے۔“
اسی بات کوانہوں نے اپنے مجموعہ کلام بالِ جبریل میں یوں بیان کیا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے صدائے کن فیکون
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
پروفیسر منور مرزا علامہ اقبال ؒ کے انہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے
ہیں:
”یہ کائنات جسے حضرت علامہ ’نامئی کل‘ کہتے ہیں، ایک غیر معین امکان اس لیے
ہے کہ بڑھنے اور تکمیل کی راہیں طے کرنے کی آزادی ہے۔اسے یکبارگی کامل
وسالم وجامع بنا کر نہیں بھیج دیا گیا اگر ایسا ہوتا تو پھر زمانہ تخلیق کے
جوہر سے محروم ہوتا۔“
پس علامہ اقبال ؒ تقدیر کے سلسلے میں آزادیئ عمل کو بڑی اہمیت دیتے ہیں جس
عمل کے ترک کرنے کی بنا پرمسلمان جمود کا شکار ہو گئے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ
کر بیٹھ گئے اور اپنی تنزلی کو تقدیر کا نام دے کر اپنے آپ کو بری
کرلیا۔انہوں نے اس خیال سے شدید اختلاف کیااور پکار اٹھے:
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا،خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
اگر تقدیر کا مفہوم آزادی ئعمل کی سلبی ہے اور انسان دنیا ئے عمل میں وارد
ہو کر بھی آزادی ئ عمل کا حق نہیں رکھتاتو پھر بڑے دعوے سے یہ بات کہی
جاسکتی ہے کہ جو مقدر میں ہے وہ تو ہو کر رہے گا سعی وسرگرمی بے سود ہے اسی
لیے علامہ اقبال اس مفروضے کو نفی خودی کا باعث خیال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں
کہ جس قوم میں نفیئ خودی پیدا ہو جائے،وہ قوم محکومی ومظلومی کے آہنی پنجوں
کی گرفت میں آجاتی ہے:
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی
قوم جو کرنہ سکی اپنی خودی سے انصاف
تو گویا ایسی قوم کے افراد ولولے اور عزم کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی
حیثیت جمادات و نباتات کی سی ہو کر رہ جاتی ہے جب کہ مسلمان صرف احکامِ
الہی کا پابند ہو تا ہے:
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الہی کا ہے پابند
نباتاتی اور جماداتی حیثیت اس اعتبار سے نہایت پست ہے جو انسان کو نیابتِ
الہی کے منصب پر فائز ہونے کے باعث حاصل ہے۔پس اگر افرادِ معاشرہ میں بے
عملی،پست ہمتی اور کج روی پیدا ہو جائے تو پورا معاشرہ اس کی زد میں آجاتا
ہے،پورا معاشرہ سست اور کاہل ہو جاتا ہے اور نتیجتاً ایسے معاشرے کے لیے
ترقی کی راہیں معدوم ہو جاتی ہیں۔حضرت ِ علامہ ؒنے جب دیکھا کہ عالمِ اسلام
میں بالعموم اور مسلمانانِ برِ صغیر میں بالخصوص تن آسانی اور کاہلی کا روگ
سرایت کرتا جا رہا ہے اور وہ تقدیر کا غلط مطلب لے کر قوتِ عمل سے محروم ہو
تے جارہے ہیں تو یہ تن بہ تقدیر صورتِ حال انہیں تکلیف دینے لگی جس کا
اظہار انہوں نے کچھ یوں کیا:
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
حضرتِ علامہ مسلمانوں کو باعمل دیکھنے کے خواہاں تھے۔وہ چاہتے تھے کہ
مسلمان اپنے مقام سے واقف ہو جائیں؛ چنانچہ اس پیکر ِ گل کو کوشش ِپیہم کے
ثمر سے آگاہ کرتے ہوئے ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ میں کہتے ہیں:
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے ا ک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پنہاں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کو ششِ پیہم کی جزا دیکھ!
علامہ اقبالؒ اگرچہ کہتے ہیں کہ انسان نہ مجبور ہے نہ مختار بلکہ ان دونوں
کے درمیان ایک زندہ اور متحرک قوت ہے لیکن کہیں کہیں وہ جبر کو پسند بھی
کرتے ہیں کیونکہ اگر انسان کو ہر معاملے میں آزاد ی اور کلی اختیار حاصل ہو
جائے تو وہ جزا اور سزا کو فراموش کرتے ہوئے بے راہروی اختیار کر لے چنا
نچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں انسان کی مجبوری کا عندیہ
ملتا ہے۔مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو:
ذرہ ذرہ دہر کا زندانیئ تقدیر ہے
پردہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
لیکن جلد ہی وہ انسان کی آزادی اور اختیار کی طرف جاتے ہیں اور اختیارکا
مضمون ان کے کلام میں بارہا جلوہ دکھاتا ہے۔ جاوید نامہ میں فلکِ مریخ پر
شہرمرغدین کی سیر کے دوران حکیمِ مریخی کی زبان سے کہتے ہیں:
گرز یک تقدیر خوں گردد جگر
خواہ از حق حکمِ تقدیرِ دگر
تو اگر تقدیرِ نو خواہی رواست
زانکہ تقدیراتِ حق لا انتہاست
ارضیاں نقدِ خودی درباختند
نکتۂ تقدیر راشناختند
رمزِ باریکش بحرفے مضمر است
تو اگر دیگر شوی، او دیگر است!
خاک شو نذرِ ہوا سازد ترا
سنگ شو بر شیشہ اندازد ترا!
شبنمی؟ افتندگی تقدیرِ تست
قلزمی؟ پایندگی تقدیرِ تست!
(اگر ایک تقدیر سے تیرا دل خون ہو تو اللہ تعالیٰ سے اور تقدیر مانگ
لے۔۔۔اگر تو نئی تقدیر چاہے تو یہ جائز بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی
تقدیرات کی کوئی انتہا نہیں۔۔۔۔تقدیر کی باریک رمز ایک حرف میں مضمر ہے
یعنی یہ کہ اگر تو بدل جائے تو تقدیر بدل جاتی ہے۔۔۔۔ اگر تو خاک بن جائے
تو تجھے ہوا کی نذر کردیا جائیگا، اگر تو سنگ ہے تو تجھ سے شیشہ توڑنے کا
کام لیا جائے گا۔۔۔۔۔اگر تو شبنم ہے،تو تیری تقدیر میں نیچے گرنا ہے۔اگر تو
سمندر ہے،تو تیری تقدیر ہمیشہ رہنا ہے)
حضرت علامہؒ مزید کہتے ہیں:
تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے
میں نے کلامِ اقبالؒ کی روشنی میں مسئلہ تقدیر کو واضح کرنے کی سعی کی
ہے۔یہ موضوع فلسفیانہ بھی ہے اور تحقیق طلب بھی؛ اس لیے اس کی گہرائیوں میں
اترنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔امید ہے میری یہ کاوش قارئین کو پسند آئے
گی۔ حضرتِ علامہ کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
-----------------------------------
|