گزشتہ سے پیوستہ شب ہمارے تایا جان نے اپنے گھر دعوت حلیم
کا مثردہ سنایا اور انتہائی پرخلوص انداز میں ہمیں بار بار آنے کی تاکید کی
جوکہ ہم نے بادل نخواستہ سعادتمندی سے قبول کرلی۔
لفظ حلیم ہمارے مذہبی حلقوں میں آجکل متنازعہ حیثیت اختیار کرچکا یے۔کچھ
بھائی صاحبان کافی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ چونکہ حلیم اللہ تعالی کا صفاتی
نام ہے لہذا کسی کھانے کی ڈش کو اس نام سے پکارنا بے ادبی کے ضمرہ میں آتا
ہے۔
اس کو دلیم کہہ کر مخاطب کیا جائے ۔
دارافتاہ سے اس مسئلہ پر یہ راہنمائی ملی کہ اردو کی لغت میں ”حلیم“ کے
معنی لکھے ہیں ”ایک قسم کا کھانا جو اناج گوشت اور مسالے ڈال کر پکایا جاتا
ہے“ اسے کھچڑا بھی کہتے ہیں۔
چناچہ اس پس منظر میں اس مخصوص کھانے کے لیے ”حلیم“ کا لفظ بولے جانے میں
کوئی قباحت نطر نہیں آتی۔
جو حضرات دلیم کہنا چاہیں دلیم کہہ لیں کیونکہ گلاب کو کسی نام سے بھی
پکاریں وہ گلاب ہی رہے گا۔ مگر قوم فی لحال اس نئی تبدیلی کیلیے تیار نہیں
ہے کیونکہ
ابھی پہلی تبدیلی یضم ہی نہیں ہوسکی ہے۔
ویسے قوم کا معاملہ بھی عجیب ہے۔اس کا تذکرہ اکثر و بیشتر ہم اپنے اکابرین
سے سنتے رہتے ہیں ۔مگر اپنی کوتاہ بینی کے باعث ابتک قوم کو دیکھنے سے قاصر
رہے ہیں ۔
حکمران کہتے ہیں کہ قوم چوروں لٹیروں کو برداشت نہیں کرے گی۔
اپوزیشن کہتی ہے کہ قوم نااہل حکمرانوں سے تنگ آچکی ہے۔
فوجیوں کے مفادات پر زک پہنچے تو فرماتے ہیں کہ قوم میں غم و غصہ بپا پے۔
ہماری نظر میں تو قوم کا سرے سے ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔
ہماری دانست میں شاید قوم کوئی گائے یا چوپایہ ہے جو ملک و ملت کی فکر سے
بے نیاز شکم سیری کو ہی مطمع نظر جانتی ہے ۔ اسی لیئے کبھی کسی چراگاہ میں
گھاس چر تی رہتی ہے یا روڈ کے کنارے کچرا کونڈیوں سے بھوسی ٹکڑے کھانے میں
مصروف رہتی ہے تاآنکہ کوئی اسے ڈسٹرب نہ کردے ۔ ایسے میں خشمگین نگاہوں سے
گھورتی ضرور ہے۔
عموما دعوت حلیم کا اہتمام مروجہ طور پر ماہ محرم میں کیا جاتا یے۔
یہ اس بات کا غیر رسمی اعتراف سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا گوشت
اختتام پزیر ہوچکا ہے۔
اب چونکہ ریفررجریٹر اور فریزرز کا دور ہے اس لیے اس پر پر آشوب دور میں
اگر کوئی دعوت حلیم دے تو سن کر کان کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
بہرحال ہم نے دعوت میں اپنی حاضری کو یقینی بنایا
اور حفظ ما تقدم کے طور پر ORSوغیرہ لا کر گھر رکھ دیا۔
پھر بمع ایل وعیال دعوت دلیم میں جا پہنچے ۔
ہم خاموشی سے اپنے میزبان اور ا نکے ایل خانہ کو بغور دیکھتے رہے ۔ان کے
چہروں پر ایک عجیب طمانیت و سرشاری تھی جیسے کسی عمر رسیدہ باپ کے چہرے پر
اپنی آخری بیٹی کی رخصتی کے موقع پر اس بار گراں کے اترنے کے خیال سے عیاں
ہوتی ہے۔
یا جیسے قاتل کے چہرے پر مقتول کی لاش ٹھکانے لگانے کے بعد اطمینان یوتا
ہے۔
ان کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکان بھی رقصاں تھی۔
یہ پراسرار مسکراہٹ ہمیں معنی خیز محسوس ہوئی ۔
مقدس ڈش سرو ہونے پر تیار تھی ۔
تیز مصالحہ جات اور لحمیات کی خوشبو سے فضا مہک رہی تھی۔
ہم نے پلیت میں حلیم نکالا اور کھانا شروع ہوگئے ۔چند ہی لمحوں میں ہمارے
رخساروں پر آنسو رواں تھے اور ناک سے پانی بہنا شروع ہوگیا ۔
حلق سے سی سی کی آوازیں خود بخود جاری ہوگئیں ۔
ایک پلیٹ دوسری اور پھر تیسری۔
حلیم کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ انسان کھاتا ہی چلا جاتا ہے۔
روٹی کی طرح شمار ممکن نہیں ۔
اسی کمرے کے کونے میں کرسی کا رخ دیوار کی جانب کیئے ایک صاحب نان کے ساتھ
حلیم تناول فرمارہے تھے۔انہیں شک تھا کہ کوئی انکی روٹیاں نہ شمار کررہا
ہو۔
روٹی کے ساتھ حلیم کھانا ایسا ہی ہے جیسے strow سے پانی پینا۔
حلیم کافی مزیدار تھا مگر اس حلیم میں اک عجبب بات یہ تھی کہ ہر لقمے میں
چمچے کے ساتھ میں آنے والی بوٹی کا ذائقہ دوسری بوٹی سے جدا تھا۔
بیک وقت مٹن بیف ،اونٹ، دنبہ اور مرغ کے زائقے حلیم میں بدرجہ اتم موجود
تھے جوکہ تعجب خیز تھے۔
بہر کیف ہم کھانے میں مگن تھے اور ہمارے ساتھ ہی ایک بزرگ مست۔
وہ ڈونگے کے ڈونگے صاف کرچکے تھے۔
انکی آنکھ ناک منہ سے چشمے ابل رہے تھے۔
بے شمار ڈونگے کھانے کے بعد اچانک انہوں نے اپنے شکم مبارک پر ہاتھ پھیرا۔
ہاتھ کا پھیرنا تھا کہ جیسے کمرے میں ایک بھونچال سا آگیا۔
دفعتا ایسا لگا جیسے صور اسرافیل پھونک دی گئی ہو یا پھر ایک ساتھ کئی
گائیں بکرے اونٹ دنبہ اور بھینسے ٹکریں مار مار کر مستانہ وار ڈکار رہے
ہوں۔
صور تھی ! نعرہ مستانہ ! یا ڈکار !
ہمارے کمزور اعصاب اسکی تاب نہ لاکر ڈھیر ہوگئے۔
کثیف فضا میں مزید کھانا تو کجا سانس لینا بھی محال ہوگیا۔
ہمارے دل و دماغ اس گھتی کو سلجھانے میں مصروف تھےکہ اخر ان بزرگ کے اندر
سے بیک وقت گائے بکرے دنبے اور اونٹ کی آوازیں اور بو کیسے برآمد ہوئیں ۔
اسی سوچ میں ہماری نطر کیلینڈر پر پڑ گئی ۔
بقر عید کو گزرے ابھی صرف چار ہی ماہ تو ہوئے ہیں ۔
ایک بجلی سی ہمارے دماغ میں کوندی ۔
ہم پر اہل خانہ کے چہروں پر طمانیت کی کا راز منکشف ہوگیا ۔
ریفریجریٹر میں برف جمے گوشت کی جداگانہ شناخت ممکن نہیں ہوتی ۔فریزر میں
موجود تمام گوشت کو دیگ میں ڈال کر حلیم بنادیاگیا تھا۔
یہ اقدام بحالت مجبوری لوڈ شیڈنگ کے باعث اٹھایا گیا تاکہ گوشت کو مکمل
ضائع ہونے بچایا جاسکے کیونکہ اسمیں ہلکی ہلکی بساند آنا شروع ہوچکی تھی۔
برسبیل تذکرہ ہمارا گزشتہ آرٹیکل "پیٹ ہے یا لالو کھیت" پڑھکر ہمارے لخت
جگر جو Medical student ہیں مستقبل میں Gastrologist بننے کیلئے سنجیدگی سے
غور کر رہے ہیں ۔
انکا ارادہ جان کر ہم چشم تصور میں ایک بڑے سے آپریشن تھیٹر میں پہنچ گئے۔
کیا دیکھتے ہیں کہ قطار در قطار مریض اسٹریچرز پر پڑے ہیں ۔
سب کے پیٹ چاک ہیں ۔
کوئی آواز لگا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مجھے جلدی فارغ کردیں ۔
کوئی صدا لگا رہا ہے ڈاکٹر میرا کام ہوگیا ہو تو ٹانکے لگا کر پیٹ بند
کردیں۔
کسی کے اندر سے گائے بکروں کی باقیات نکل رہی تھیں کسی کے اندر سے قومی
خزانہ ۔
ڈاکٹر صاحب کو ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں تھی۔
میزبان یقینا آج کے دن قربانی کے گوشت کے اس عظیم الشان زخیرے سے جان
چھڑانے میں کامیاب ہوگئے تھے جو بڑی محبت اور محنت شاقہ سے انہوں نے جمع
کیا ہواتھا۔
یہ طمانیت اور سکون اسی فرض غیر منصبی سے نجات پاکر حاصل ہوئی تھی۔
دعوت حلیم دراصل عید قربان کے گوشت کو ٹھکانے کی رسم تھی جوکہ دھوم دھام سے
ادا کی گئی۔
آخر میں انور مقصود کا شعر !
حلیم ٹھیک نہیں تھا چچا کے چہلم کا
بغیر لوٹے کے گھر لوٹے کو بہ کو کرتے
( محمد منورسعید )
|