جب بھی کوئی اہل حق خدائے بزرگ و برتر کے کرم اورخاص
اشارے کے تحت جہالت کفر میں ڈوبی کسی بستی میں آکر رشد و ہدایت معرفت کا
چراغ روشن کر تا ہے تو اُس علاقے میں پہلے سے موجود ایسے علما کرام جن کا
علم ان کے قول میں نظر آتا ہے فعل میں نہیں ‘ ظاہر میں نظر آتا ہے باطن میں
نہیں ‘ زبان میں دماغ میں ہو تا ہے باطن دل و جان قلب کردار انداز میں نہیں
لیکن ایسے عالم دین علمی زعم تکبر میں مبتلا ہو کر اُس درویش کے خلاف
سازشوں یا مقابلے پر اُتر آتے ہیں اور پھر اہل دنیا نے ہر بار دیکھا جب
ایسے علما ظاہری کو اِن بو ریا نشینوں کے سامنے شکست کھاتے اورپھر وہ مریدی
اختیار کر تے ہیں ایسا ہی ایک ایمان افروز واقعہ ہمیں بابا فریدؒ کے تذکروں
میں بھی تواتر سے ملتا ہے جب ایک متکبر عالم کو علمی خارش ہو ئی اور وہ
بارگاہِ فریدیؒ میں علمی پھوارچھوڑنے آجاتاہے حضرت نظام الدین اولیاء ؒ
فرماتے ہیں اجو دھن کے پاس ایک مُلا رہتے تھے جن کو اپنے علم دانش و حکمت
فہم و فراست کا بہت غرور ہو تا ہے وہ فقیروں درویشوں کو بے عمل سمجھ کر
حقارت کی نظر سے دیکھتے طنزیہ باتیں بھی کر تے بابا فریدؒ کی مجلس جاری تھی
شہنشاہ ِ معرفت علم و دانش کے موتی حاضرین میں بانٹ رہے تھے کہ ملا صاحب
آدھمکتے ہیں اور اپنا علمی بخار اتارنا شروع کر دیا اپنی ذا ت اور علم کا
متکبرانہ اظہار شروع کر دیا بابا فریدؒ درویشی رواداری سے اُس کی باتیں سن
رہے تھے مریدین مُلا کی جسارتوں کو بے چینی سے دیکھ رہے تھے لیکن مرشد کے
ادب کی وجہ سے خاموش تھے جب مولوی صاحب نے اپنا غبار نکال لیا تو درویش اجو
دھن بو لے جناب یہ تو فرمائیں کے اسلام کے رکن کتنے ہیں تو مو لو ی بہت
کروفر سے بو لا جناب یہ بھی کو ئی سوال ہے اِس کا جواب تو بچہ بچہ جانتا ہے
اسلام کے پانچ رکن ہیں ایک کلمہ دوسرا نماز تیسرا روزہ چوتھا زکوۃ پانچواں
حج تو بابا فرید بو لے میں تو چھٹے رکن کی بات کر رہا ہوں تو مُلا جھلا کر
بولا کونسا چھٹا رکن ایسا کو ئی رکن اسلام میں نہیں ہو تا تو بابا فریدؒ
شیریں اور دھیمے لہجے میں بو لا میں نے تو اہل حق لوگوں سے سنا ہے کہ اسلام
کا چھٹا رکن روٹی ہے تو مو لوی دھاڑنے لگے یہ آپ ؒ کیا جھوٹ من گھڑت بات کر
رہے ہیں اسلام میں ایسا کو ئی رکن نہیں ہے پھر اٹھ کر غصے سے جانے لگے تو
بابا جی پھر بو لے آپ غصے سے تو نہ جائیں آرام سے بات تو سنیں لیکن ملا آگ
بر ساتا طعنے دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا تو بابا فرید حاضرین سے بو لے مہمان
کیسا بھی ہو اُس کے ساتھ محبت نرمی سے بات کر نی چاہیے ملا تو چلا گیا لیکن
وہ یہ بات بھو ل گیا کہ وہ حال میں زندہ تھا جبکہ بابا فریدؒ مستقبل کے
پردوں سے پرے جھانک رہے تھے لوح محفوظ پڑھ رہے تھے ملا چلا گیا پھر چند ماہ
بعد حج کے لیے مکہ مدینہ چلا گیا پھر کئی سال تک وہیں قیام پذیر رہا پھر
کئی سال بعد واپسی کے لیے سمندری جہاز پر بیٹھ کر واپس آنے لگا موسم صاف
تھا لیکن پھر اچانک آندھی بارش طوفان ایسا کہ جہاز تباہ ہو گیا مُلا صاحب
لکڑی کے تخت پر سمندی لہروں میں بہتے بہتے ایک پہاڑی علاقے میں آلگے ایسا
پہاڑی علاقہ جہاں خشکی بنجر پن کا راج تھا چاروں طرف پھل دار درخت تو دور
کی بات گھاس کا تنکہ تک نہ تھا اور نہ ہی میٹھا پانی تھا مُلا صاحب کو تین
دن نہ ہو گئے بھو کے پیاسے اب جان کے لالے پڑ گئے بھوک پیاس کی شدت سے مرنے
لگے تو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگے کہ خدا یا میری مدد کر میں اِسطرح مر
جاؤں گا اسی دوران اچانک وہاں پر ایک شخص آیا جس کے سر پر کھانا روٹیوں کا
برتن تھا جو بآواز آوازیں دے رہا تھا میں روٹیاں فروخت کر تا ہوں ہے کوئی
ضرورت مند جس کو روٹی چاہیے بہ آواز مولوی صاحب کے لیے نوید حیات زور سے
آواز دی اے فرشتہ نما انسان ادھر آکر کرہ ارض پر مُجھ سے زیادہ روٹی کا
محتاج کو ئی نہیں تو وہ شخص قریب آکر بولا کتنی روٹیاں چاہیے لیکن پیسے لے
کر دوں گا تو ملا فوری بولا میں عالم دین ہوں سات حج کئے ہیں جہاز کی
بربادی کے بعد یہاں آگیا ہوں میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ شخص بو لا لیکن
میں کاروباری شخص ہوں مفت میں روٹی نہیں دے سکتا جانے لگا تو مولوی نے
بھوکے کو کھانا کھلانے کاو اعظ شروع کر دیا تو وہ شخص بولا اسطرح اگر میں
مفت روٹیاں دوں گا تو میرا کاروبار تو تباہ ہو جائے گا نہیں کہ کروہ جانے
لگا تو ملا اُس کی منتیں کر نے لگا تو وہ شخص بولا اور راستہ ہے آپ مجھے
سات حجوں کا ثواب دے دیں میں آپ کو روٹی اور پانی دے دیتا ہوں تو ملا نے دل
میں سوچا اسطرح کونسا ثواب اِس کو مل جانا ہے میں وعدہ کر لیتا ہوں پھر ملا
نے اُس شخص سے کہاہاں میں نے سات حج کا ثواب تم کو دیا تو اُس شخص نے کھانا
سامنے رکھ دیا اور پانی بھی ‘ ملا نے کھانا کھا کر پانی پیا اور بولا تم
کدھر سے آئے ہو قریبی بستی کدھر ہے اِسی دوران اُس شخص نے بر تن سمیٹے او ر
وہاں سے چل دئیے ملا اُس کے پیچھے چلا لیکن وہ تیز قدموں سے وہاں سے فرار
ہو گیا ملا واپس آکر پھر اُسی جگہ بیٹھ گیا کہ کہیں پہاڑوں میں راستہ نہ
بھول جاؤں اِسی طرح تین دن اور گزر گئے مولوی صاحب کی جان پر پھر بھوک پیاس
سے نکلنے لگی تو چوتھے دن پھر وہی شخص پھر سر پر کھانا اٹھا ئے ادھر سے
گزرا تو ملا نے دوڑ کر اُس کو پکڑ لیا اور روٹی کی منتیں کر نے لگا تووہ
شخص بولا آ پ تو آج بھی خالی جیب ہیں تو کس طرح آپ کو کھانا دوں اب ثواب کے
لیے آپ کے پاس کیا رہ گیا ہے تو ملا بولا میرے پاس روزے ہیں اُن کا ثواب لے
کر مجھے کھانا دے دو تو اُس شخص نے کھانا سامنے رکھا اور روزوں کا ثواب لے
کر چلا گیا پھر تین دن گزر گئے ملا پھر بھوک پیاس سے تڑپنے لگا اب پھر اُس
غیبی شخص کا انتظار کر نے لگا تو پھر وہی شخص کھانا لے کر حاضر ہوتا ہے
زکوۃ کا ثواب لے کر کھانا دے جاتا ہے اگلے تین دن پھر گزر گئے تو مولوی کو
پھر جان کے لالے پڑ گئے پیاس بھوک سے ایڑیاں رگڑنے لگے تو پھر وہی شخص آتا
ہے اور نمازوں کا ثواب لے کر کھانا دے جاتا ہے تین دن کے بعد پھر ملا بھوک
سے مرنے لگتا ہے تو وہ شخص پھر کھانے کے ساتھ آتا ہے تو ملا اُسے دیکھ کر
چیخنے لگتا ہے کہ میں حج نماز روزے زکوۃ سب تیرے ہاتھ فروخت کر چکا ہوں اب
تو میرے پاس بیچنے کو بھی کچھ نہیں تو وہ شخص بو لا کو ئی بات نہیں آپ نے
جو کچھ آج تک مجھے بیچا ہے اِس کی تحریر لکھ کر مجھے دے دیں میں آج اِس
تحریرکے بدلے کھانا دے دیتا ہوں تو مولوی صاحب نے لکھ کر دیا کہ میں نے ایک
وقت کی روٹی کے لیے سات حجوں کا ثواب پھر زندگی بھر کے روزے پھر زکوۃ آخر
میں ساری زندگی کی نمازیں آخر میں اِس تحریر کے بدلے میں روٹی پانی لے رہا
ہوں آخر میں ملا صاحب نے اپنا نام پتہ لکھ کر اُس شخص کو دے دیا اب وہ شخص
جانے لگا تو مولوی صاحب اُس کی منتیں تر لے کر مجھے بھی ساتھ لے جاؤ لیکن
وہ شخص بھا گ اٹھا تو ملا بھی اُس کے پیچھے دوڑنے لگا لیکن وہ شخص تیزی سے
نظروں سے اوجھل ہو گیا اب ملا سمندر کے کنارے مایوسی میں بیٹھ گیا تھا
اچانک جہاز نظر آیا ملا صاحب نے اپنے عمامے کا کپڑا لہرایالہرا کر چیخ چیخ
کر جہاز والوں کو متوجہ کیا تو جہاز والوں نے مو لو ی صاحب کو بیٹھا لیا
آخر کار گھر تشریف لے آئے چند دن بعد اچانک بابا فرید ؒ کے آستانے پر حاضر
ہو گیا تو بابا جی بو لے جناب بہت سالوں بعد آئے ہیں کہاں تھے خیر تھی نا
سب تو ملا بڑے غرور سے بو لا میں ہندوستان میں نہیں تھا میں حج کر نے مکہ
مدینہ گیا تھا وہاں سات سال رہ کر خوب عبادت کی تو بابا جی بو لے اﷲ آپ کی
عبادت قبول کر لے جناب اب تو آپ مُجھ سے ناراض نہیں ہیں جو اسلام کے چھٹے
رکن روٹی پر ہوئے تھے تو ملا بو لا یہ کیا جھوٹ باتیں آپ بے عمل لوگ کر تے
ہیں اسلام کے پانچ ہی رکن ہیں تو بابا فریدؒ بولے لیکن میں نے تو یہ لکھا
ہوا دیکھاہے تو مو لوی صاحب یہ نہیں ہو سکتا یہ کہاں لکھا ہے تو بابا فریدؒ
نے تمام دیوانوں کو اٹھا دیا خلوت میں ایک کتاب مولوی صاحب کو دی اور کہا
یہ دیکھ لیں تو شروع کے چند اوراق خالی تھے تو ملا بولا یہ تو خالی ہے تو
بابا فریدؒ بو لے آگے دیکھیں تو اچانک وہی تحریر سامنے آگئی جو مولوی صاحب
نے روٹی کے بدلے لکھ کر دی تھی اپنی تحریر دیکھ کر مولوی سکتے میں آگیا چیخ
مار کر بے ہو ش ہو گیا ہوش آیا تو شہنشاہ اجو دھن کے قدموں سے لپٹا معافی
معافی پکار رہا تھا کہ میں نے آپ ؒ کے ساتھ بہت بد تمیزی کی لیکن آپ ؒ نے
ہمیشہ معاف کیا تو دل کے عظیم مسیحا بولے مولانا صاحب یہ چھوٹا سا اخلاقی
نقطہ تھا جو آج صاف ہو گیا پھر ملا نے ایک غلامی کا پٹہ گلے میں ڈالا ساری
عمر خاموشی سے عبادت کر تے یا بابا فریدؒ کے چہرے کو دیکھتے رہتے یا پھر
رونا شروع کر دیتے ۔
|