اللہ بس ،باقی ہوس اللہ بس، باقی
ہوس۔
فقیر شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھوم گیا،گلیوں میں سناٹے دندناتے
پھر رہے تھے اور گھروں میں ہنگامے رقص کر رہے تھے۔فقیر کی صدا کسی نے نہیں
سنی، اور نہ اس کے چمٹے کی آواز کسی کان تک پہونچ سکی۔ وہ دو دن کا بھوکا
تھا، اور آج پھر خالی پیٹ سونے کی باری تھی۔اس نے کٹیا کی راہ لی اور پیٹ
میں گھٹنے رکھ کر سوگیا۔
ہیرے جڑی ہوئی تھال کے نیچے رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔گلیوں میں کتے
بھونک رہے تھے اور گھروں کے ہنگامے روشن کھڑکیوں سے نکل کر اندھیرے اور
سناٹے کا سینہ چاک کرتے ہوئے دور فضا میں معدوم ہو رہے تھے۔
اس نے باہر گلی میں جھانک کر دیکھا دور تک راہ سنسان پڑی تھی، پتلی سی سڑک
کے دونوں طرف لمبی قطار میں سارے پیڑ ساکت کھڑے تھے۔اوپر آسمان میں کالے
بادلوں تلے ایک شعلہ تیرتا پھر رہا تھا ، جیسے وہ کسی کی تاک میں ہو۔جیسے
چیل ماس کی تاک میں فضا میں تیر تی رہتی ہے۔عدنان کا کہیں دور دور تک اتہ
پتہ نہ تھا۔ اب تک تو اسے آجانا چاہئے تھا، اس نے دل میں سوچا۔دوسرے کمرے
سے امی کی آواز ابھری، رعد بیٹا یہ عدنان ابھی تک نہیں آیا۔نہیں ماں ، اس
نے مختصر سا جواب دیا اور کھڑکی بند کئے بنا اپنی خواب گاہ کی طرف چلی
گئی۔سنگاردان کے اوپر رکھے ہوئے فوٹو فریم کے اندر سے عدنان مسکرا رہا تھا
اس نے ایک نظر دیکھا اور پھر دیکھتی ہی رہ گئی، جیسے اس کی نظریں کسی
نامعلوم کشش نے باندھ دی گئی ہوں اور پھر اچانک من کے سمندر میں جیسے
سونامی آگئی، سالوں پر پھیلے ہوئے عرصہ کو محیط یادیں ایک دوسرے میں مدغم
ہوگئیں اور خیالات ایک دوسرے میں الجھ گئےجن یادوں کو وہ اپنے من کے تہہ
خانے میں بڑے قرینہ سے سجائے ہوئے تھی اس اچانک آئی سنامی نے تہہ وبالا
کردیاقرینہ کے تمام بخیے ادھڑ گئے سنامی کی لہریں من کے اندرون سے اٹھیں
اور آنکھوں کے ساحل تک چڑھ آئیں۔پلکوں پردوگرم قطرے نمودار ہوئے اور فریم
کی ہوئی تصویر پر ٹپ ٹپ گرگئے۔کاٹن کے پیلے دوپٹے کے دونوں پلو پسینے میں
شرابور پیٹھ پر جھول رہے تھے۔اس نے داہنے ہاتھ سے ایک پلو پکڑا اور تصویر
کے شیشے کو احتیاط سے صاف کرنے لگی۔عدنان کا مسکراتا ہوا معصوم چہرہ مزید
واضح ہوگیا۔اور اس کے اپنے چہرے کا دھندلا دھندلا عکس نمایاں ہونے
لگا۔دونوں چہرے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوگئے اور وہ وفورِ جذبات سے بے قابو
ہوکر خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے لگی۔
”عدنان تم کتنے بدل گئے ہواب تم وہ پہلے والے عدنان نہیں رہےتم جیسے جیسے
بڑے ہوتے جارہے ہو مجھ سے دور ہوتے جا رہے ہوایک وقت تھا جب تم میرے بغیر
ایک پل بھی نہیں رہ سکتے تھے اور اب تو تم گھنٹوں مجھ سے دور رہتے ہواور
مست رہتے ہو کب کے گئے ہوئے ہو اور ابھی تک نہیں آئےکاش تم بڑے نہ ہوتے۔
زمانہ ٹہر جاتا، ہوائیں رک جاتیں اور بہاریں اپنا رنگ تبدیل نہ کرتیںاور تم
میرے لیے آج بھی وہی ڈھائی تین سال کے عدنان ہوتےشرارتی ،ضدیاور بات بات پر
روٹھ جانے والےمیں آپ سے بات نہیں کروں گامیرے کان آج پھر ترستے ہیں تمہارے
یہ الفاظ سننے کے لیے تم ایک بار پھر روٹھ جاؤ اور میں ایک بار پھر تمہیں
مناؤں تمہاری من پسندچاکلیٹ سےکاجو بادام والی آئس کریم سے اور
اورخودکارکھولونوں سے میں تمہیں اسی طرح نہلاؤں دھلاؤں،نئے نئے کپڑے
پہناؤں،تمہیں پیار کروں اور ہر ہر بات پر تمہاری بلائیں لوںمگر اب میں یہ
سب نہیں کرسکتی اس لیے کہ تم بڑے ہوگئے تم بڑے کیا ہوگئے کہ دوریاں پھیل کر
تناور درخت بن گئیںپیار کے پرندے نے اپنے پر سکوڑ لیے اور آنکھ کے تل میں
سمٹ کر بیٹھ گیااب میں تمہیں نہ چھو سکتی ہوں اور نہ نہلا دھلا سکتی ہوںبس
ایک نظر ہے جس سے میں تمہیں محسوس کرسکتی ہوںوہی نظر جس میں محبت کا پرندہ
پروں کو تہہ کئے بیٹھا ہےگرم نمکین پانی اس کی غذا ہے، اس لیے تم میرے آنسو
نہیں دیکھتےکاش تم ایک بار پھر اسی چھوٹی سی عمر میں آجاؤ سارے گھر میں
ہمکتے پھرو،ترتیب سے رکھی ہوئی چیزوں کو بے ترتیب کرڈالو،استری کئے ہوئے
کپڑے سارے گھر میں بکھیر دوجھاڑو اٹھالو اور اس کی ایک ایک سینک الگ الگ
کردوسنگاردان پر سجاہوا نازک سامان جوتی اور چپلوں کے ساتھ تھیلی میں بھرلو
اور ادھر ادھر لئے لئے پھرو، نل کھول دو اور بالٹیاں الٹ دوپہلے میں تمہاری
ان حرکتوں سے عاجز آجاتی تھی اور تمہیں ڈانٹتی تھی مگر اب مجھے ان سے خوشی
ہوگی عدنان تم جگ جگ جیو ، تمہیں میری عمر لگ جائے“اس نے اپنے آپ کو ڈھیلا
چھوڑ رکھا تھااورگرم جذبات کی رو میں بے دست وپا تنکے کی طرح بہتی چلی
جارہی تھی کہ اچانک صحن میں رکھی ہوئی کرسی سے ٹکراگئی، اسے پتہ ہی نہ چلا
کہ وہ بے خیالی میں چلتے چلتے کہاں تک آ پہونچی ہےاور اگلے لمحے میں تصویر
فرش پر آرہی۔کانچ کے ٹکڑے دور تک بکھر گئے۔اسے لگا کہ اس کا اپنا وجود ٹوٹ
کر بکھر گیا ہےاس اچانک حادثے سے وہ ہڑبڑاکر رہ گئی اورجلدی جلدی شیشے کی
کرچیاں بیننے لگی یہ بدشگونی کی بات تھی ، حالانکہ وہ وہمی نہیں تھی پھر
بھی ایک انجانے خوف کی لہر اس کے پورے وجود کو لرزہ براندام کرگئی آج تک
ایسا کبھی نہیں ہوا تھااس نے ہزاروں بار اس تصویر کو اٹھایا تھا پیار کیا
تھا اور اپنی جگہ رکھ دیا تھاکئی بار تو وہ اس کو اپنے سینے پر رکھے رکھے
ہی سوگئی تھی اور جب صبح کو آنکھ کھلی تو تصویر نیچے فرش پر اوندھی پڑی
ہوئی ملی تھی مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ یہ ٹوٹ گئی کیا کچھ گڑ بڑ ہےکیا
کوئی بد گھڑی آنے والی ہے؟ اس نے رخشِ خیال کی باگیں کھینچنی چاہیںمگر وہ
اور بھی بے قابو ہوگیا اور کسی اڑیل گھوڑے کی طرح صبا کا حریف ہوگیا”یا
اللہ رحم کرنا۔ہماری خطاؤں سے درگزر کرنا“وہ دل ہی دل میں دعا مانگنے لگی۔
اکلوتے بھائی سے یہ بے پناہ محبت کوئی ہفتہ دس دن کی بات نہ تھی ، یہ تو اس
دن سے تھی جب اس نے پہلی بار اس کے رونے کی آواز سنی تھی جب وہ تنگ
اورتاریک دنیا سے نکل کر وسیع اورروشن دنیا میں آیا تھا،بلکہ اس سے بھی
پہلے سے ،جب اس نے سنا تھا کہ اس دنیا میں اس کا بھائی آنے والا ہےبلکہ اس
سے پہلے ، جب اس نے ایک بھائی کی تمنا کی تھی محبت کا یہ بے کنار سمندر اس
وقت مزید گہرا اور وسیع ہوگیا جب اسے پتہ چلا تھا کہ اب وہ کسی مزید بھائی
یا بہن کی تمنا نہیں کرسکتی کبھی کبھی ا سے اپنے آپ پر غصہ آنے لگتا،وہ
سوچتی کہ اس کوپہلے ہی کئی بھائیوں کی تمنا کرنی چاہئے تھی”میں بھی کتنی
پاگل ہوں، خدا سے مانگا بھی تو بس ایک بھائی جیسے اس کے یہاں کمی ہو دینے
کے لیے“اس نے اپنے ماتھے پر دھپ مارا اور پیشانی پر لٹکتی ہوئی لٹ داہنے
کان پر رکھی محبت کے اس سمندر میں طوفان تو ہمیشہ آتے تھے مگر ایسی سنامی
آج پہلی بار آئی تھی وہ تھر تھر کانپنے لگی بالائی ہونٹ کی محراب نما لکیر
پر موتی اتر آئے، بغلیں بھیگ گئیں اور چپلوں پر پیر پھسلنے لگےوہ بے ساختہ
اندر کی طرف بھاگی اور چادر میں منہ چھپا لیا ”تو اس دنیا میں آیا ہے تو
کرکٹ کا شوق بھی اپنے ساتھ لے کر آیا ہے۔“ اس کے چند دوست جنہیں اس بات پر
بڑا ناز تھا کہ وہ ہمیشہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوتے ہیں اور اساتدہ ان کو
بہت محبوب رکھتے ہیں، وہ اسے جب بھی ملتے تو اس کے کرکٹ کے شوق پر اسی طرح
حقارت آمیز تیر چلاتے۔” ہاں اور اسے اپنی قبر تک ساتھ لے کر جاﺅں گا سالوں
تمہیں اس سے کیامیں کچھ بھی کروں میری مرضی“ وہ جھلا کر جواب دیتا اور اپنے
موبائل فون کی اسکرین پر اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی بڑی بڑی آنکھوں کو اپنی
نظروں سے چاٹنے لگتا پھر فوٹو گیلری اوپن کرتا اور اس کے پسندیدہ کھلاڑیوں
کی ان گنت تصویریں یکے بعد دیگرے ابھرنے لگتیں اسے لگتا کہ دور آسمان میں
ستارے جھلملا رہے ہیں اسی دوران اسے یا د آیا کہ اس کا پڑوسی جو اس سے صرف
آٹھ سال بڑا ہے ، ایک دن اس کو ٹیچر نے سبق یاد نہ ہونے پر سخت ڈانٹ پلائی
تو وہ دانت پیستا ہوا اٹھا اور تاریخ کی موٹی سی کتاب جس کے پہلے صفحہ پر
اس کی گرل فرینڈ کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا تھا،ٹیچر کے منہ پر دے ماری
ٹیچر چلاتی رہ گئی اور وہ نظروں کے سامنے ہی جیسے ہوا ہوگیا۔پھر اس نے اپنے
محلے میں ایک اسپورٹ کلب جوائنٹ کرلیا اورتھوڑے سے عرصہ میں اتنا نام اور
دولت کمائی کہ صرف تین سال بعد وہی ٹیچر اسی یونیورسٹی کے اسٹیج پر مسکراتے
ہوئے اس کا استقبال کر رہی تھی اور ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نواز رہی
تھی۔ٹیچر کو ذرا بھی احساس نہ ہوا کہ اسی لڑکے نے اسے بھرے کلاس میں بے عزت
کیا تھا بلکہ اس کا بھرابھرا سینہ فخر یہ جذبات کے انجذاب سے اور پھول
گیاتھااور وہ اور بھی زیادہ اسمارٹ لگنے لگی تھی۔ وہ کہاں سے کہاں پہونچ
گیا اور اس کے دوست کتابوں کو چاٹتے چاٹتے کیڑے بن گئے۔”یہ گدھےکتابوں کے
کیڑے اسپورٹ کی طاقت کو کیا جانیں“ وہ زیر لب بڑبڑایااور اس کو اپنے سارے
دوست جو کتابیں لئے گھومتے پھرتے ہیں سب کیڑوں کی مانند رینگتے ہوئے نظر
آنے لگے۔اس کا جی چاہا کہ انہیں اپنے بھاری بوٹوں تلے مسل دے۔
دنیا میں بہت ساری چیزیں اسے اچھی لگتی تھیں اپنے گھر کے آنگن میں
کھڑاہواناریل کا پیڑ جھیل کا کنارہ ،اس میں اٹکھیلیاں کرتی ہوئیں جل
مرغابیاںسنن سنن چلتی ہوائیں کو کو کرتی کوئل، چوکڑیاں بھرتی ہرن اور
گھوڑوں کی سموں سے اٹھتی ہوئی چنگاریاں اس کی دوست غزالہ کی جھیل جیسی
آنکھیںشعلے کی طرح لپکتی ہوئی اس کی آوازاور اور اپنی باجی کوچھیڑنا مگر وہ
جب ورلڈ کپ اور آئی پی ایل میں چمکتے ہوئے بلوں کو دیکھتا تو اسے لگتا کہ
دنیا کی باقی ساری چیزیں ہیچ ہیں پھر وہ اپنے دونوں کا نوں میں ایئرفون کی
چھوٹی چھوٹی گھنڈیاں ٹھونس لیتا اور دنیا ومافیہا سے کنارہ کش ہوجاتاپھر
اسے کوئی چیز اپنی طرف متوجہ نہ کرسکتی تھی نہ ٹریفک کا شور ، نہ کوئل کی
کوک اور نہ غزالہ کی گل کتر دینے والی چال، یہاں تک کہ اس کی اپنی باجی کا
پیار بھی نہیں، پھٹکار بھی نہیں اور پکار بھی نہیں۔
میچ ایسی سچویشن میں پہونچ گیا تھا جہاں سب کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ عدنان
نا چاہتے ہوئے بھی اپنے دوست کے گھر میں گھس گیا اور ٹی وی اسکرین پر نظریں
جما کر بیٹھ گیابیچ بیچ میں وہ سوچتا کہ اب اسے چلنا چاہیے، باجی انتظار کر
رہی ہوں گی، مگر اسے لگتا کہ اس کے پیر من بھر کے ہوگئے ہیںوہ اٹھنا چاہتا
تھا مگر کوئی انجانی سی طاقت اسے روک لیتی ۔رک یار چلے جانا ابھی کافی ٹائم
ہے اس کا دوست اس کو کاندھے سے پکڑتا اور دھیرے سے بولتا۔اور بس اس کے تنے
ہوئے اعضا پھر سست پڑ جاتے۔کبھی کبھی اسے خیال آتا کہ یہ بے کارکا شغل ہے
اور اس کو اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہئے مگر جب وہ اپنے ملک کے با اقتدار
افراد کو دیکھتا اور سوچتا کہ ساری پارلیمنٹ تو کھیل کے میدان میں ہے تو وہ
اپنے دماغ سے اس گھناؤنے کیڑے کو نکال پھینکتااور کھیل کا شوق اس کے ہر بنِ
مو سے پھوٹنے لگتا۔
ابھی رات دوسرے پہر میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ آسمان وزمین کے مابین پٹاخوں
اور نعروں کے شور سے بھر گیا۔فقیر ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھا۔آنکھیں ملتا ہوا آنگن
کی طرف بھاگا۔گلیاں لوگوں سے بھر گئی تھیں،پٹاخے چھوڑے جارہے تھے، چاندی
اور کانچ کے گلاسوں میں شراب انڈیلی جا رہی تھی،سیخوں پر کباب چڑھائے جارہے
تھے اور تھل تھل کرتی ہوئی جوانیاں برہنہ سڑک پر تھرک رہی تھیں، لڑکے ہوٹنگ
کر رہے تھے بوڑھے آہیں بھر رہے تھے۔فقیر نے ایک ٹھنڈی آہ بھریسینہ پر دو
ہتھڑ مارااورزور سے چلایااللہ بس، باقی ہوس سوکھی اور خالی آنتوں کی بو
دورتک فضامیں تیرتی چلی گئیاور ساتھ ہی سوتی جاگتی آنکھوں میں امید کا جگنو
جل بجھنے لگامن میں ایک رسیلے خیال نے انگڑائی لی،سوچا کہ دوڑکر جائے اور
ایک کباب مانگ لائے مگر معا خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی خالی
آنتوں سے نکلی ہوئی صدا ان کے ذائقہ کو بے مزہ کردے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ
اس کا وجود سرمستیوں کے غبار میں ہی چھپ جائےاس نے پھر ایک ٹھنڈی اور
دلخراش آہ بھری سینہ پر ہاتھ مارا نعرہ مستانہ لگایااللہ بس، باقی ہوس واپس
کٹیا کی طرف لوٹا اور سرمستیوں کا غبار بیٹھ جانے کے انتظار میں ایک بار
پھر پیٹ میں گھٹنے رکھ کر سورہا۔
میچ ختم ہوگیا اور اس کی فیورٹ ٹیم جیت گئی۔ ایسے لمحات روز روز نہیں آتے
سالہا سال کے انتظار کے بعدآتے ہیں اور صرف ایک بار آتے ہیں اس نے دل میں
سوچااور پھر سرمستیوں میں ڈوب گیادوستوں نے مل کر خوب جشن منا یا، خوب ڈانس
کیا، جیسے انہوں نے ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ اپنی پنڈلیوں کا سارا رس آج ہی
نچوڑ لیں گے اور جب تکان سے چور ہوگئے تو وہیں صوفے پربے سدھ گرگئے پھر وہ
بھیانک اور ڈراﺅنے خواب سے ہڑہڑا کر اٹھ بیٹھا اور تیز تیز قدموں سے گھر کی
طرف چلنے لگا۔ محلے کے دوسرے کنارے تک پہونچتے پہونچتے کافی وقت لگ گیا۔
ویسے وہ سوکر ہی دیر سے اٹھا تھا اگر خواب نہ دیکھتا تو شاید دوپہر تک سوتا
ہی رہتا۔ گھر پہونچا تو منظر بدلا ہوا تھا۔ اس کا خوبصورت سا دو منزلہ مکان
کھنڈر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ آس پاس کے پورے علاقے میں سکوت کا پہر اتھا ۔
کچھ لوگ کھنڈر شدہ مکان کے ارد گرد جمع تھے بچے ملبے سے اپنے کام کی چیزیں
ڈھونڈتے پھر رہے تھے،ادھر ادھر دوڑتی ہوئی بکتر بند گاڑیوں کا سائرن گہرے
سکوت کا پردہ چاک کررہاتھا۔ پہلے تو اسے خیال آیا کہ وہ غلطی سے کسی دوسرے
محلے میں آگیا ہے۔ مگر جب آس پاس کے گھروں، درختوں اور لوگوں کو دیکھتا تو
اسے لگتا کہ نہیں محلہ تو وہی ہے، میرا اپنا محلہ، پر میرا گھر کہاں گیا،
امی ابو کہاں ہیں اور باجی کو کیا ہوا، اس کا سر گھومنے لگا اور چکراکر
گرپڑا۔
ادھ جلی لاش کو سفید کفن پہنا دیا گیا تھا۔بغل میں ایک پوٹلی رکھی ہوئی تھی
جس میں گھر کے باقی دو بوڑھے افراد کے باقی ماندہ جلے کٹے اعضا بھرے ہوئے
تھے۔ محلے کی چند بوڑھی عورتیں بت بنی بیٹھی تھیں اور چند لوگ کفن دفن کے
انتظام میں لگے تھے۔لوگوں میں چہ مے گوئیاں ہورہی تھیں۔ محلے کے وہ لوگ جو
جان بوجھ کر جنازہ میں شرکت سے کترارہے تھے ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے
وسوسوں کا کالا ناگ کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔ خوف کا ایک انجانہ سا سایہ ان
کے بڑے بڑے نتھنوں کی راہ داخل ہوا اوردل کی ہر دھڑکن کے ساتھ رگوں کے وسیع
نیٹ ورک تک پھیل گیاانہوں نے سوچاپھر سوچا اور پھر سوچااور آخر کار اس
نتیجہ پر پہونچے کہ جب اس گھر کو شعلہ نے نشانہ بنایا ہے تو ضرور اس کا
تعلق غلط لوگوں کے نیٹ ورک سے ہوگانہیں تو یہ شعلہ کسی کے گھر پر بھی
کرسکتا تھااسی ایک خاص گھر پر گرنے کا مطلب تو یہی ہے کہ ان کا کوئی نہ
کوئی تعلق وہ جملہ مکمل بھی نہ کرپاتے، سوچ جیسے منجمد ہوجاتی اور زبانیں
گنگ ہوجاتیںمگر اس گھر میں تھا ہی کون؟ایک بڑھیا ایک بوڑھا ، بالغ لڑکی اور
ایک نو خیز لڑکااور وہ ایک بار بھر الجھ جاتے۔ دفعتا اندیشوں اور خوف کے
درمیان سے خاموش آواز ابھرتی اور ایک کان سے دوسرے کان تک رینگ جاتی۔ یہ
بھی تو ہوسکتا ہے کہ شعلہ سے ہی غلطی ہوگئی ہواور پھر سب خوف سے کانپنے
لگتے،اگر شعلہ غلطی کرسکتا ہے تو ہم میں سے کوئی بھی اس کے نشانے پر آسکتا
ہےکل یا پھر کل کے بعد آنے والے کل میںپھر ایک آدمی کی آواز ابھرتی، جس کا
سر جنگلی بھینسے کے برابر تھا،اوراس پر بڑے بڑے کالے سینگ اگے ہوئے تھے او
ر وہ مادرزاد برہنہ تھا ہم شعلے کو غلط کیسے کہہ سکتے ہیں غلطیاں تو صرف
انسانوں سے ہوتی ہیں اور شعلہ کوئی انسان تو نہیں پھر انہیں لگتا کہ جنازے
میں شرکت نہ کرنے کا ان کا فیصلہ درست ہے اور ان کے مستقبل کے لئے یہی
مناسب ہے۔
وہ بلیک آدمی کہتا ہے کہ ہمارے لوگ اتنے بے حس نہیں کہ کسی کی موت کا انہیں
غم نہ ہو۔ یقینا وہ صحیح کہتا ہے۔ یہ شعلے تو اسی لئے لپکتے ہیں کہ ہماری
حفاظت کرسکیں۔ اور ویسے بھی یہ زندگی کیا ہے ایک عذاب ہی تو ہے اس عذاب سے
چھٹکارا پانے کا یہ راستہ کتنا آسان مختصر اور سیدھا ہے۔ نہ ہلدی لگے نہ
پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔ تو ایک طرح سے یہ شعلے ہماری نجات کا ذریعہ ہیں
زندگی کے عذاب سے نجات کا خوبصورت ذریعہ ۔جولوگ چلے گئے وہ ان سے اچھے ہیں
جو باقی رہ گئے کیونکہ باقی رہ جانے والوں پر قیامت واقع ہوگی اور جن پر
قیامت واقع ہوگی وہ زیادہ مشکل اور سختی میں دنیا سے جائیں گے۔لوگ ابھی تک
اھیڑ بن میں لگے ہوئے تھے،جیسے وہ اپنے خیال کو کوئی راہ دینا چاہتے ہوں
اور انہیں راہ نا مل پارہی ہو۔ انہیں لگتا کہ وہ بڑے بڑے کالے سینگوں والا
ننگ دھڑنگ آدمی ان کی روح کی گہرائیوں سے کہیںبول رہا ہےوہ مسلسل بولتا
رہاان کے دلوں کے پتھر پرپانی کی بوند تسلسل کے ساتھ گرتی رہی یہاں تک پتھر
میں چھید ہوگیاپھر ایسا ہوا کہ یہ خیال لوگوں کے دلوں میں اس طرح جم کر
بیٹھ گیا کہ وہ جب بھی شعلے کو دیکھتے تو شکر گزاری کے احساس سے سجدے میں
گرجاتے یا اللہ تیر اشکر ہے کہ تونے ہم پر بے رحم لوگوں کو مسلط نہیں
کیاسجدہ طویل ہوجاتا اور وہ سجدوں میں پڑے پڑے سوجاتےپھر انہیں اپنی گردنوں
پر بھاری فوجی بوٹ کا دباؤ محسوس ہوتا وہ تکلیف سے کراہنے لگتے کسمساتے
ہوئے اٹھتے اور بھورے بالوں والے فوجی کے پیر چاٹنے لگتے ”شکریہ ! آپ نے
ہمیں جگادیاورنہ ہم آفس کے لیے لیٹ ہوجاتے“
اللہ بس، باقی ہوس اللہ بس، باقی ہوس فقیر گھومتا پھرتا ادھر آنکلا۔محلے کے
بااثر آدمی نے ایک نگاہ فقیر کو دیکھااور ایک نگاہ وہاں پر جمع لوگوں کوپھر
اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سوروپئے کا کھڑکتا ہوا نوٹ فقیر کے
کشکول میںڈال دیا۔فقیر کی آنکھوں میںمسرت کے آنسو چھلک آئے آج سے پہلے اس
کو کسی نے چمکتا ہوا نوٹ نہیں دیا تھاخود اس آدمی نے بھی نہیںاس نے جلدی سے
نوٹ اچک لیا،تیزتیز قدم رکھتا ہوا ملبے پر چڑھ گیا”یااللہ ! تو کتنا رحیم
ہے، تو امید سے سوا دیتا ہےاو ر وہاں سے دیتا ہے جہاں سے امید نہیں ہوتی“
اس نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا رکھے تھے اور مسرت کے آنسو اس کی داڑھی
اور سینے کو بھگو رہے تھے ۔پھر اس کی نگاہ اپنے پیروں پر گئی وہ ایک برباد
شدہ مکان کے ڈھیر پرکھڑا ہوا تھا، دم کے دم میں اس کی مسرتیں میلی
ہوگئیںاور آنسو خشک ہوگئے۔اس نے پہلی بار لوگوں کو حقارت بھری نظر سے
دیکھا”لوگ مستیوں میں ڈوبے ہوئے ہیںاور شعلے اپنا کام کررہے ہیں۔وہ اندرہی
اندر بدبدایا“پھر اس نے اپنے آپ پر نظر کیشعلے لپک رہے ہیں اور میں اپنے
پیٹ کی جہنم بھرنے میں لگاہوں اور پھر اس کو خود سے بھی نفرت ہوگئی۔ اس کے
جی میں آیا کہ اس نوٹ کو پھاڑ کر پھینک دے۔یا اسی ملبے میں دفن کردے۔پھر اس
کے کانوں میں سرسراہٹ ہوئی ،ناگوار اورخوفناک، بھوکی اور سوکھی آنتوں کی
سرسراہٹ ، اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور قریب کی گلی میں روپوش ہوگیا۔گلی
کے اگلے موڑ پر ہوٹل تھا اس نے سوچا کہ وہ یہاں سے کچھ لے کر کھالے گا، مگر
یہاں لوگوں کی بھیڑ جمع تھی ، سب کی نظریں بڑے سے رنگین ٹی وی پر جمی ہوئی
تھیں، سیاسی پہلوان بڑھ چڑھ کر اعلانات کررہے تھےمیری طرف سے ایک کروڑمیری
طرف سے دوکروڑاور میری طرف سے دس کروڑسب سے آخر میں مرکزکے ایک نمائندے نے
اعلان کیافقیر نے اپنا کشکول زمین پر پٹخ دیا”اورمیری طرف سے پچاس کروڑ“او
ر زور زور سے قہقہے لگانے لگاایک لمحے کو اس کا سینہ چوڑا ہوگیا کہ وہ سب
سے بازی لے گیاتھا۔پھر ایک دم سنجیدہ ہوگیا اور بولا ”اعلان تو ایسے کررہے
ہیں جیسے پیسہ ان کی بہو بیٹیوں کی کوکھ سے پیدا ہوتاہے“مگر کوئی اس کی طرف
متوجہ نہیں ہوا اور وہ دوسری گلی میں مڑ گیا۔
لوگ شعلوں کے بارے میں باتیں کرتے رہےافکار کے ہجوم میںالجھ الجھ جاتے اور
نکل نکل آتے تھےایک بار ایسا ہوتا کہ سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ ان کے مجموعہ
خیال کو فردفرد کردیتی اوردوسری بار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا سوکھے پتوں کے مثل
ان کے دل کے کسی گوشے میں پھر سے مجتمع کردیتا”دراصل لوگوں کو ابھی تک یہی
نہیں معلوم کہ رحم کیا ہوتا ہے اور رحم کیا نہیں ہوتا، ایک آدمی جس کی عمر
ساٹھ پینسٹھ کے قریب تھی اس کے سرکے بال جھڑ گئے تھے اور آنکھوں میں سفید ی
اگ آئی تھی وہ ایک دم کھڑا ہوا اور زور زور سے بولنے لگا ۔”میں بتاتا ہوں
رحم کیا ہوتاہے۔“ اس کے ارد گرد والے لوگوں نے نگاہ اٹھائی اور اس کی
آنکھوں میں یقین کی روشن قندیلوں کو تاکنے لگے۔” میں ایک بار تالاب کے
کنارے سے گزر ہا تھا۔ بارش کا موسم تھا، میں نے مینڈک کے بولنے کی آواز
سنی، قریب سے دیکھا تو پتہ چلا کہ میڈھک کو سانپ پکڑے ہوئے ہے۔ مجھے غصہ
آیا اور رحم بھی آہا۔ سانپ پر غصہ آیا اور میڈھک پر رحم۔ میں نے ایک بڑا سا
ڈھیلا اٹھا کر مارا اور خدا کا کرنا ڈھیلا بالکل نشانے پر جاکر لگا۔ میڈھک
سانپ کے منہ سے آزاد ہوکر پانی میںکود گیا اور سانپ جھاڑیوں میں رینگ گیا۔
میرا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا۔ ایک تو اس لئے کہ مجھے اپنی اس قابلیت کا
پہلی بار صحیح علم ہوا کہ میں ایک اچھا نشانے باز بھی ہوں اور دوسرے اس لئے
کہ میں نے مینڈک کی جان بچائی تھی۔ رحم کھانا تو انبیاء کی سنت ہے اور مجھے
پہلی بار اس بات کا علم ہوا کہ نماز کی سنتوں کے علاوہ اور بھی بہت ساری
سنتیں ہیں مگر ایک دم میرے دماغ میںایک خیال بجلی کے موافق کو ندا اور میرا
پھولا ہوا سینہ اس طرح پچک گیا جس طرح پلاسٹک کی کین کے منہ پر منہ رکھ کر
الٹی سانس کھینچنے سے کین پچک جاتی ہے۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے مینڈک کی
جان بچائی ہے یا سانپ کے منہ سے لقمہ چھینا ہے۔ سانپ کی غذا تو اوپر والے
نے مینڈک ہی بنائی ہے وہ گھاس تو نہیں کھا سکتا ۔کسی کو بھوکا ماردینا کوئی
نیکی تو نہیں۔یہ خیال آنا تھا کہ رحم کا وہ تصور جو میرے ذہن میں باپ دادا
کی وراثت چلا آتا تھا اس طرح اڑگیا جس طرح پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے ۔
کیا پتہ یہ شعلہ بھی ہمارے لئے رحم کا باعث ہو اور وہ سات سمندر پار رہنے
ولا بلیک آدمی ٹھیک کہتا ہواور“ لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے ہوئے تھے اور
بوڑھے کی آنکھوں کی سفیدی ان کے دلوں میں بیٹھ رہی تھی۔لوگوں کو لگا کہیں
ایسا تو نہیں کہ اس کی روح کے اندر بھی وہی بڑے بڑے کالے سینگوں والا ننگ
دھڑنگ آدمی بس گیا ہو۔وہ آدمی جس کی آنکھوں میں سفیدی اگ آئی تھی بولتے
بولتے اچانک رک گیا اسے اپنے آپ پر حیرت ہوئی، اسے لگا کہ اس کے اندر سے
کسی مردہ آدمی کی روح بول رہی ہے ”میں’ شیطانی کونسل‘ کا صدر ہوںدنیا کی سب
سے بڑی اور طاقتور کونسل کاسب سے زیادہ معمر اور تجربہ کار صدر “وہ ننگ
دھڑنگ آدمی اس کی روح کی سلوٹوں میں کھٹمل بنا بیٹھا تھا۔
راحیلہ جو محض ایک آدھے گھنٹے کے فرق سے بغل والے بیڈ پر پیدا ہوئی تھی۔
ڈاکٹرنے جب اس کو اس کی ماں کی کوکھ سے کھینچاتو بے اختیار اس کے منہ سے
نکلا دونوں جڑواں بہنیں لگتی ہےںاور رعد کے پہلو میں لٹادیا۔دونوں کی مائیں
اس بات سے بہت خوش ہوئیں کہ ان کی بیٹیاں ایک جیسی ہیں، دن گزرتے رہے اور
وہ بڑی ہوتی رہےں۔ ساتھ کھیلتیں ،ساتھ پڑھتیںاور ساتھ ہی بازار جاتیں۔ یہاں
تک کہ دونوں کی شادیاں بھی ایک ہی دن رکھی گئیں ، تاکہ ایک کی ودائیگی سے
دوسری کواکیلے پن کا احساس نہ ہو۔ راحیلہ بھی ان بت بنی بیٹھی عورتوں کے
ساتھ بیٹھی تھی۔ گم سم اور چپ چاپ۔ اس کا دماغ پھر کی کی طرح گھوم رہا تھا۔
جب اس نے ان عورتوں کی زبانی رعد کے غلط لوگوں کے نیٹ ورک سے تعلق کی بات
سنی تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس کا جی چاہا کہ زور زور سے چیخے اور
ساری دنیا کو بتائے کہ یہ غلط ہے۔ رعد کو میں نے پل پل بڑھتے اور جوان ہوتے
ہوئے دیکھا ہے ایسی کوئی بات ہوتی تو میرے علم میں ضرور ہوتی لیکن جب کانا
پھوسیاں بڑھنے لگیں اور چہ میں گوئیوں کا شور بلند ہوکر درختوں کی نچلی
ٹہنیوں کو چھونے لگا تو راحیلہ کا دماغ اور تیزی کے ساتھ گھومنے لگا اس کو
پتہ ہی نہیں لگا کہ کب اور کیسے شک اس کے ذہن کے دریچوں میں گھس آیا”راحیلہ
توتو ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی تجھے تو سب پتہ ہوگا“ اس کے قریب بیٹھی
ہوئی ایک بوڑھی عورت نے اس کے کان میں پھنکار ماری۔ راحیلہ ایک دم سٹ پٹا
گئی ”مجھے کیا پتہ میں کوئی فرشتہ تھوڑی ہوں کہ مجھے اس کی ہربات کا علم
ہوگا آج کی ہائی ٹیک دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے تھی توبہت شریف
نمازی اور پرہیزگار، مجھے خود یقین نہیں ہورہا ہے۔“راحیلہ نے ایک آہ بھری
اسے اپنا من بھاری محسوس ہونے لگا۔اس نے سوچا ،شاید یہ میں نہیں ہوں ،شاید
اس بڑے بڑے کالے سینگوں والے ننگ دھڑنگ آدمی نے میرا روپ دھار لیا ہے۔پھر
اسے اپنے آپ سے نفرت سی ہوگئی اس نے اپنے سراپا پر حقارت بھری نظر ڈالی اور
شعلے کی تمنا کی ۔
عدنان اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا۔” کاش میں میچ دیکھنے نہ گیا ہوتامیں نے
ایسا کیوں کیاکا ش میں اس گھڑی کے آنے سے پہلے ہی مرجاتا، میں دنیا کا سب
سے زیادہ بدنصیب بھائی اور گناہ گار بیٹا ہوں“”نہیں بیٹا ایسا مت کہو، بلکہ
اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو، یہ سب قدرت کے کھیل ہیں، قدرت جو چاہتی ہے
سوکرتی ہے۔ جو ہوا اسے اپنا مقدر سمجھو اورزندگی کے طویل سفر کی تیار ی
کرو، جو چلے گئے ان کا سفر ختم ہوگیا لیکن جو باقی ہیں ان کا سفر جاری ہے
اور انہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ تم اپنے کھیل کے شوق کو کیوں
دوش دینے لگے۔ میں نے کہا نا کہ قدرت کے کھیل ہیں ذرا یہ بھی تو سوچو کہ
اگر تمہیں کھیل سے دلچسپی نہ ہوتی تو تمہارا حشر بھیوہ کہتے کہتے رک گیااور
پھر بولا” اور تم بھی اپنی باجی کے پہلو میں ابدی نیند سورہے ہوتےمحلے کے
اس با اثر آدمی نے عدنان کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ وہ اس کے سرپر ہاتھ
پھیر رہا تھااور اس کی نظر ملبے کے ڈھیر پر پانی کی طرح گرتی پڑتی آگے بڑھ
رہی تھی۔اور اس کا دل غیر ملکیوں کے احسان کے بوجھ تلے دبا پھڑ پھڑا رہا
تھا۔
عدنان نے کیوڑے کی دو چار بوندیں سفید کپڑے پر گرائیںاندر سے اد ھ جلا کالا
جسم جھانکنے لگا۔ ”باجی آپ نے کیوڑہ اسی لئے منگایا تھا ناآپ کوآخری سفر کی
تیاری جو کرنی تھی آپ ہمیشہ کہتی تھیں کہ میں کہنا نہیں سنتادیکھو میں نے
آج آپ کا کہنا سن لیا ہے میں تمہارے لئے کیوڑہ لے آیا ہوں اب تو خوش ہوجاﺅ“
کیوڑہ ختم ہوگیا تھااور بناسلے سفید کپڑے پربوندیں اب بھی گررہی تھیں، موٹی
موٹی، گرم گرم اور یکے بعد دیگرے۔ جب لوگوں نے جنازہ اٹھانا چاہا تو عدنان
اس سے لپٹ گیا۔وہ اپنی بھیگی آنکھوں کو مردہ پیروں سے رگڑنے لگا” ابھی زندہ
ہیں میری باجی ،انہیں کہیںمت لے جاﺅ۔ وہ سورہی ہےں دیکھنا ابھی ذرا دیر میں
اٹھ جائیں گی۔ مجھ سے بات کریں گی اور خوش ہوں گی کہ میں نے ان کا کہنا مان
لیا ہے“اس نے مردہ پیر کے انگوٹھے سے لال دھاگا کھول لیایہی لال دھاگا آخری
سالم علامت تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی باجی کو پہچان سکا تھا باقی سارا جسم
شعلے نے چاٹ لیا تھاپوری قوم کی نظریں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں ، ان
کے سروں کے پیچھے زندہ انسانی جسم جلتے رہے اور عدنان کے سوا ان پر رونے
والا کوئی نہ تھاعدالتوں کے دیوقامت دروازوں پر موٹے موٹے تالے لٹک رہے تھے
، تعلیم گاہوں میں موٹی موٹی کالی بلیاں چوہوں کا شکار کررہی تھیںاور سنسان
پارلیمنٹ میں کالے بھوت خوبصورت اور نوجوان چڑیلوں کے بیلی ڈانس کے مزے لے
رہے تھے،آنکھوں سے برہنہ شہوت ٹپک رہی تھی اور جیت کی بے پناہ مسرتوں کا
نشہ لبالب کاسہ سرمیں ٹپ ٹپ گر رہا تھا ۔ |