زمانے میں اور بھی غم ہیں۔ غموں
کے ہونے سے کس کو انکار ہے، ہوتے ہوں گے۔ مگر بھئی، اِس وقت ہمیں کوئی آواز
نہ دے۔ کرکٹ ہے اور ہم ہیں۔ ویسے تو کرکٹ ہی کافی ہے۔ اور اگر کرکٹ کی شراب
میں پاک بھارت کشیدگی کو بھی ملا دیا جائے تو نشہ کیونکر دو آتشہ نہ ہوگا؟
مرزا تنقید بیگ کرکٹ کے بحر ناپیدا کنار میں ایسے ڈوبے ہیں کہ اب ان کا نام
و نشان تک نہیں مل رہا۔ ویسے دیکھیے اور سوچیے تو کہاں کرکٹ اور کہاں مرزا!
مگر بھئی کرکٹ ہی تو ہے جس نے لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اور ایسا
دیوانہ بنا رکھا ہے کہ قوم نے ریمنڈ ڈیوس، مہنگائی، ٹیکس، بیروزگاری، افلاس،
کرپشن اور دیگر تمام غموں کو بھلا رکھا ہے! دکھ درد تو زندگی بھر کے ساتھی
ہیں۔ اور جب ساتھی ہیں تو تکلیف دیتے ہی رہیں گے۔ اب کیا قوم گھڑی دو گھڑی
کے لئے کرکٹ کے سمندر میں ڈبکی بھی نہ لگائے! مہنگائی کا رونا تو مرتے دم
تک رونا ہے۔ ورلڈ کپ تو دو چار دن میں ختم ہو جائے گا۔
مرزا تنقید بیگ کو کرکٹ اچانک اس قدر کیوں بھانے لگی ہے، یہ بات سمجھ میں
نہیں آئی۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ وہ بھی برساتی مینڈک ہیں یعنی دوسرے کروڑوں
اہل وطن کی طرح ورلڈ کپ کے طفیل کرکٹ میں چار روزہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ مگر
پھر خیال آیا کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ ان کی بیگم نے خدشہ ظاہر کیا تو ہم نے
قسم دے کر پوچھا کہ کہیں سٹہ تو نہیں کھیلنے لگے! آج کل جو کرکٹ کا زیادہ
دیوانہ ہو اس پر سٹے باز ہونے کا گمان گزرتا ہے! ظالموں نے کھیل کے ساتھ
ایسی کھلواڑ کی ہے کہ کوئی بالر فٹنس کی خرابی یا اندازے کی غلطی سے بھی نو
بال کر بیٹھے تو گمان گزرتا ہے کہ کہیں دشمنوں نے خرید تو نہیں لیا!
جب ہم نے مرزا کے سامنے سَٹّے کے خدشے کا اظہار کیا تو ایسی زندہ دلی سے
ہنسے جیسے کبھی پاکستانی قوم کا حصہ رہے ہی نہیں اور کوئی غم لاحق رہا ہی
نہیں! ویسے بھی مرزا ہر معاملے کو ہنسی میں اڑانے کے قائل ہیں۔ ہاں، گھریلو
زندگی کے معاملے میں اس روش پر چلنا انہیں کچھ مہنگا پڑگیا ہے۔ مگر خیر،
کوئی بات نہیں۔ مہنگائی برداشت کرنے کی ویسے بھی عادت پڑچکی ہے!
ایک دن ہم نے مرزا سے پوچھا کہ کرکٹ میں ایسا کیا نظر آگیا ہے کہ ہاتھ دھو
کر اُس کے پیچھے پڑ گئے ہیں؟ کہنے لگے ”اب یہ کھیل نہیں رہا، آرٹ بن گیا
ہے۔“ ہم نے پوچھا وہ کیسے؟ بولے ”کرکٹ میں اب کھیل کم اور فنکاری زیادہ ہے!
جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں اور میچ کا نتیجہ نکلنے کے بعد ہمیں معلوم
ہو پاتا ہے کہ پس پردہ ہوا کیا ہے!“
ہمارا سر تو چکرا کر رہ گیا! ہم بچپن سے کرکٹ کے شیدائی رہے ہیں۔ اِس ایک
عشق کے بعد کوئی دوسرا عشق وشق بھی نہ کرسکے۔ مرزا نے کرکٹ کے بارے میں جو
رائے دی وہ ایسی ہی تھی جیسے کسی باحیا اور عفت مآب عورت پر الزام لگایا
جائے! کرکٹ تو ویسے بھی شریفوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ نہ سمجھیے گا
کہ شریفوں میں شمار ہونے کے لئے ہم نے کرکٹ کو گلے لگایا تھا! انسان کو
کوئی نہ کوئی کھیل تو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہم کرکٹ کی طرف
اِس لئے جھک گئے کہ اس میں بھاگ دوڑ کم کم ہوتی ہے!
مرزا نے ہمیں ہکّا بکّا دیکھا تو وضاحت فرمائی ”میاں جس دکان میں تمام
ضروری اشیاء مل جائیں وہ کیسی چلے گی؟“ ہم نے کہا ایسی دکان تو سپر چلے گی،
بلکہ دوڑے گی۔ مرزا نے کہا ”بس، کرکٹ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِس
ایک دستر خوان پر اب دنیا بھر کی نعمتیں چُن دی گئی ہیں۔ جس کا جو جی چاہے،
کھائے!“
ہم تو کرکٹ کو پتہ نہیں کیا سمجھ بیٹھے تھے۔ مرزا نے جو کچھ کہا اُس نے
گویا آنکھوں پر پڑے پردے ہٹا دیئے۔ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ کرکٹ واقعی آج
بھی چند پردہ نشیں شریفوں ہی کا کھیل ہے! شاعر نے شاید کرکٹ کے نام پر
کھیلے جانے والے کھیل کے حوالے ہی سے کہا ہے
اِس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں!
ورلڈ کپ کیا آیا، کسی کے ارمان پورے ہوئے اور کسی کے ارمانوں پر اوس پڑ
گئی۔ پاکستان میں کرکٹ کو ختم کرنے کے درپے عناصر کو یہ دیکھ کر مایوسی ہی
ہوئی ہوگی کہ لاکھ کوشش کے باوجود پاکستان اور پاکستانیوں میں کرکٹ نہ صرف
یہ کہ زندہ ہے بلکہ پہلے سے کہیں توانا ہے! لوگوں نے سٹّے بازی اور میچ
فکسنگ کی آڑ میں پاکستان بدنام کیا، ٹیم کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے
والے محمد آصف، محمد عامر اور سلمان بٹ پر اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں پابندی
بھی لگوائی گئی، پاکستان سے ورلڈ کپ کی میزبانی بھی چھین لی گئی۔ مگر جس
ستارے کے مقدر میں جمگمگانا لکھا ہو وہ جگمگا کر ہی رہتا ہے!
پاکستان اور بھارت کو کرکٹ کے میدان میں آمنے سامنے دیکھنے کی خواہش دونوں
ممالک کے شائقین کی تھی جو پوری ہوئی۔ دو ٹٰیموں کے درمیان مقابلے کے نام
پر کھلاڑیوں اور شائقین کے اعصاب کی خوب نمائش ہوئی۔
کرکٹ کے پردے میں کتنے ہی کھیل ہو رہے ہیں۔ سازش کا نظریہ بھی گردش کر رہا
ہے۔ کچھ لوگوں کی زبان پر سٹّے کی افواہیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ حکومتی سطح
پر کوئی ڈیل ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم کے بھارت کے دورے کو بھی اِسی تناظر میں
لیا جارہا ہے۔ کھلاڑیوں پر پہلے ہی غیر معمولی دباؤ تھا۔ ٹی وی کے سامنے
بیٹھ کر چائے کی چُسکیاں لیتے ہوئے کھیل سے لطف اندوز ہونے والوں کو بھی
اندازہ ہوا کہ کھلاڑی مقابلے کے دوران کس عذاب سے دوچار رہتے ہیں!
کون سا پاکستانی ہے جس کے ہاتھ قومی ٹیم کی فتح کے لئے نہیں اٹھے؟ سب کی
خواہش تھی کہ بھارت کو اس کی سرزمین پر شکست دی جائے۔ اگر یہ خواہش پوری ہو
جاتی تو کیا بات تھی! بھارت سے جیتنے کا نشہ کچھ اور ہی ہوتا ہے! قوم سارے
غم بھول جاتی ہے۔ شاید حکومت بھی یہی چاہتی تھی کہ ہم کرکٹ کو یاد رکھیں
اور دوسری تمام باتیں بھول جائیں! حکمران تو چاہتے ہیں کہ کچھ مدت کے لئے
ہمیں ریمنڈ ڈیوس یاد رہے نہ مہنگائی۔ بیروزگاری، کرپشن، نا اہلی، بیڈ
گورننس، قومی خزانے پر شب خون۔۔ یہ سب کچھ دو چار مہینے یاد نہ آئے تو کیا
ہرج ہے!
کرکٹ کی رس ملائی کھاتے وقت ہمیں حالات کے کڑوے گھونٹ فراموش نہیں کرنے
چاہئیں۔ زندگی ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ کرکٹ کا جنون کہیں ہمیں اُس دیوانگی
سے نجات پانے کی فکر سے بیگانہ نہ کردے جو جمہوریت کے نام پر ہمارے نصیب
میں لکھ دی گئی ہے! قومی غیرت پر سودے بازی، نہتے شہریوں پر امریکیوں کی
بمباری اور ایسی ہی بہت سی دوسری قباحتیں کرکٹ کے دریائے لطافت میں بہتے
ہوئے بھی ہمیں یاد رہیں تو اچھا ہے۔ کرکٹ کا شوق اگر جنون بن جائے تو کوئی
بات نہیں۔ ہاں، اِسی جنون کو سازش میں تبدیل کیا جائے تو ہمیں ضرور محتاط
رہنا چاہیے۔ |