ادب اور آج کے دور میں اس کی اہمیت (۱)

 ادب لٹریچر ( literature ) عربی زبان کا لفظ ہے۔ اور اس کے ہم مختلف معنی ومفہوم لے سکتے ہیں۔ادب عام طور پر شا ئستگی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جسے ہم جمالیات کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے۔جسے ہم فنِ لطیف بھی کہہ سکتے ہیں۔ کارڈڈینل نیومن نے اس کی بڑی واضح تعریف کی ہے۔ کہ ــ’’ انسانی افکار ـ، خیالات اور احساسات کا اظہارزبان اور الفاط کے ذریعے ادب کہلاتا ہے ‘‘۔ اردو زبان پر مشتمل ادب اردو ادب کہلاتا ہے۔ جس میں نثر اور شاعری ہوتی ہے۔ نثری اصناف میں داستان ،ناول ،افسانہ ، انشا ئیہ مکتوب نگاری اور سفرنامے وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح شاعری کی بھی اصناف غزل، رباعی، نظم ،مرثیہ ،مثنوی اور قصیدہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح انگریزی ادب بھی ہوتا ہے۔ اور دنیا کے تمام ادب نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

آج کے دور میں طالب علم ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم ادب کیوں پڑھیں ہمیں یہ پڑھ کر کیا ملے گا۔ آج کا دور تو سائنسی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاعری بالکل بے کار چیز ہے۔ اور طالب علم غالب ؔ ،فیضؔ اور اقبال ؔ کو صرف اس لئے پڑھتے ہیں کہ وہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں۔جب کہ بحیثیت ادب کے استاد میں انھیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آج کا دور مادی دور ہے اور ادب کی افادیت سے طالب علم آگاہ نہیں ہیں۔ تبھی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ۔پہلے زمانے میں نانی اور دادی بچوں کو سبق آموز کہانیاں سناتی تھیں۔آج کا معاشرہ مختلف ہے۔ بچے اپنا زیادہ تر وقت کمپوٹر کے آگے گزارتے ہیں۔ہر طرف نفسا نفسی ہے۔جب کہ ادب تو زندگی کے شعور کا نام ہے۔

ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کہتے ہیں کہ ’’ادب زندگی بہتر اور پرسکون بنانے کا ذریعہ ہے۔ ادب معاشرے کی تہذیب و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میکسم گورکی نے ادب کو انسانیت کا نقاد قرار دیا ہے۔

زندگی کے ان تجربات سے جن سے ہم کبھی نہیں گزرے وہ بھی براہ راست ہمارے لئے تجربہ بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں کہ ’’ شیکسپئر کے اوتھیلو کے ساتھ شریک ہو کر وہ ہمارا تجربہ بن جاتا ہے۔ فاوئسٹ ،گوئٹے اوراینا کرینا کو پڑھ کر ان کے تجربات ہمارے تجربات بن جاتے ہیں۔ غالب کے خطوط ، مولانا روم کی مثنوی اور گلستان و بوستان کے تجربے میرے اپنے تجربے بن جاتے ہیں۔

ادیب زندگی میں نئے معنی و مفہوم تلاش کر کے ان کا رشتہ ماضی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دیتا ہے۔ ادب کا حوالہ تو خود زندگی ہے ادب زندگی کا آئینہ ہے۔

آج کے معاشرے کا ادیب اور شاعر کوئی فارغ آدمی نہیں ہے۔ اس وقت اردو شاعری کے بڑے ناموں میں افتخار عارف گریڈ بائیس کے افسر ہیں۔ پروین شاکر کسٹم کمشنر تھیں۔علامہ اقبالؔ بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ فیض فوج میں ڈاکٹر تھے۔ اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی ایک کامیاب بینکر تھے۔

آج دنیا جس امن کی متلاشی ہے۔ آج معاشرہ جس نفسیاتی ، سیاسی اور اخلاقی ناہمواریوں کے دور سے گزر رہا ہے۔تو وہاں ادب کی اہمیت و افادیت اور مزید بڑھ جاتی ہے۔ جہاں انسانیت ظلم اور جبر کی آگ میں جھلستی ہے۔ وہاں ادیب اور شاعر کا قلم بول اٹھتا ہے۔

تمام ترقی یافتہ ملکوں میں نامور ادیبوں کو فوجی جرنیلوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

یقینا ادب کو پڑھاتے وقت اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ کہ ساری دنیا میں تہذیب و تمدن اور ادب کا چولی دامن کے ساتھ ہے۔ اگر کسی قوم کا ادب زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ تو وہ قوم بھی زیادہ ترقی یافتہ ہو گی۔ آج یورپ کے معاشرے میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے۔ وہ ادب کی ہی بدولت ہوئی ہے۔ اور وہی ترقی سائنسی ترقی میں تبدیل ہو گئی۔

آج ہمیں بھی ادب کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ہم بھی سائنسی میدان میں کسی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہ رہیں۔


شمع عامر دہلوی
استاد ۔ شعبہ اردو

 

Shama Amir
About the Author: Shama Amir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.