صاحبو ! وادیء مکہ میں آج ہمارا آخری دن تھا اور یہاں آئے
ہوئے ہمیں ایک ماہ ایک دن ہو چکے تھے بدقسمتی سے ہماری فلائٹ کا شیڈول کچھ
عجیب سا تھا 27 جولائی کو جب ہم اسلام آباد سے جدہ پہنچے تو ہمارا خیال تھا
کہ حج سے پہلے شائد ہمیں مدینہ لے جایا جائے گا۔لیکن حج تمتع کی نیت سے
پاکستان ہی سے احرام باندھ لینے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کرنے کے بعد یہ ممکن
نہ تھا کہ اب دوبارہ احرام حج کی ادائیگی کے موقع پر ہی باندھنا جانا
تھا۔پھرحج کی ادائیگی کے فورا" بعد مدینے کی طرف عازم سفر ہونے کے لئے پر
امید تھے۔کہ مدینہ سے ہو کر واپس پھر مکہ آئیں گے اورآتے ہوئے ایک اور عمرہ
کی سعادت حاصل کر لیں گے لیکن ایسانہیں ہوا ۔اور نہ ہی اس حوالےسے کوئی
واضح شیڈول دیا گیا تھا۔اس لئے آخری دن تک گو مگو کی کیفیت رہی ۔ایک دن قبل
نوٹس آویزاں کیا گیا کہ کل 27 اگست 2019 کے دن سہہ پہر3 بجے کا بتایا گیا
تھا دوسرے دن صبح ہی سے کہا جانے لگا اپنا سامان نیچے استقبالیہ میں لے
آئیں۔کیوں کہ میں نے رات حرم پاک میں گزارنے کی سعادت حاصل کی تھی اس لئے
صبح آتے ہی ناشتہ کے بعدسو گیا۔ اس لئے نماز ظہر کے بعد سامان استقبالیہ
میں لا کر رکھ دیا۔تین بچے کے بعد بسیں آناشروع ہو گئیں عصر کی نماز کے
ساتھ ہی 4 بجے گاڑیاں مدینہ کے لئے نکلنا شروع ہو گئیں۔مکہ سے نکل کر موٹر
وے پر چڑھنے سے پہلے حجاج سنٹر پر گاڑی رکی تو ڈارئیور ہمارے پاسپورٹ لینے
چلا گیا جو جدہ ائیر پورزٹ پر ہم سے لیے گئے۔میں گاڑی سے نیچے اتر کر واش
روم چلا گیا تھوڑی زیادہ دیر لگ گئی واپس آیا تو گاڑی نہیں تھی ۔تلاش بسیار
میں لگ گیا ۔اتنے میں قاضی صاحب کا فون آگیا کہ گاڑی تھوڑا آگے سڑک پر
انتظار کے لئے کھڑی ۔غصہ تو آیاکہ یہاں سے گاڑی ہلانے کی ضرورت کیا تھی بس
میں پہنچا تو سب چڑ دوڑے دو ایک نے تو خوب باتیں کیں۔معزرت کی تو جان چھوٹی
۔گاڑی ابھی بھی نہ چلی معلوم ہوا ایک بابا اور غائب ہے پھر اس کے آنے کے
بعد گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی براستہ جدہ ہم مدینہ جا رہے تھے راستہ
میں مغرب کا وقت ہو گیا لیکن کوئی مقام ایسا نہیں آرہا تھا جہاں مسجد ہو
اور حاجی نماز مغرب ادا کر سکیں جہاں سے جدہ اور مدینہ کا راستے جدا ہوتے
ہیں۔وہاں ایک مقام پر ہوٹل اور مسجد کے پاس گاڑی روکی گئی لیکن اس وقت تک
اندھیرا چھا چکا تھا جن کے وضو تھے یا نیا وضو بنا کر نماز مغرب ادا کی بعض
نے میری طرح اس لئے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنے کا فیصلہ کیا ایک تو
نماز مغرب کا وقت جا چکا تھا دوسرا وہاں ٹوٹیاں اتنی اونچی لگی ہوئی تھیں
کے کھڑے ہو کر وضو کرتے ہوئے پانی نالی میں گر کر چھینٹوں کے ذریعے کپڑے
ناپاک کر رہا تھا ۔کچھ دیر چائے کے لئے رکنے کے بعد گاڑی پھر عازم سفر ہوئی
ایک ڈیڈھ گھنٹے بعد نماز عشاء کے لئے گاڑی ایک مقام پر روک دی گئی۔جہاں سب
لوگوں نے نمازعشاء باجماعت ادا کی میرے سمیت بعض نے قبل ازیں نماز مغرب قضا
ادا کی۔کچھ لوگوں نے وہاں ہوٹل سے کھانا کھایا کچھ نے بسکٹ اور جوس پر کام
چلایا جو مکہ سے نکلتے وقت معلم کی جانب سے گفٹ کئے گئے تھے۔وہاں سے گاڑی
پھر ایک بار موٹر وے پر فراٹے بھرنے لگی رات کی خاموشی اور گہری ہو چلی تھی
دور دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آتی صحرا میں تیز ہوائوں کی سرسراہٹ کانوں
کو بھلی لگتی ہے البتہ مناسب فاصلوں پر ریسٹورینٹ جو دونوں طرف موجود تھے۔
اپنی چکا چوند روشنیوں میں ڈوبے ایسے لگتے تھے کہ جیسے صحرا کی ریت پر کسی
نے ستارے بکھیر دئیے ہوں ۔ بھر کیف ننید آنکھوں سے کوسوں دور تھی در_ حبیب
صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کے لئے سبھی بے چین تھے۔ درود پاک ورد_زباں
تھا سفر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ڈرائیور شائد نائجیرین تھا بھی
خرامہ خرامہ محو سفر تھا چھ سات گھنٹے کا سفر 9 گھنٹے میں طے ہوا۔ مکہ سے
مدینہ کا فاصلہ 440 کلو میٹر ہےجب ہم حجاج سنٹر ذوالحلیفہ کے قریب پہنچے جو
مدینہ منورہ سے 9کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ تو ہم سے پیچھے والی گاڑیاں
مدینے پہنچ چکی تھی۔حجاج سنٹر میں گاڑی دیر تک رکی رہی جس سے محسوس ہوا
کوئی گڑ بڑھ ہے ۔کافی دیر بعد ڈرائیور کلیرنس لے آیا اپنی منزل کی طرف چل
دئیے مدینہ میں داخل ہوئے تو سب کی نظریں مسجد نبوی کے میناروں کی تلاش میں
لگ گئی درود پاک کے ورد کی آواز بلند ہونے لگی اسی اثنا میں گاڑی مسجد نبوی
کے گرد سرکلر روڈ پر گھومنے لگی سب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
سلام اور ہدیہ درود پیش کیا ایک ہوٹل کے پاس گاڑی جا کر رک گئی۔جہاں پہلے
پہنچنے والے ساتھی گھومتے نظر آئے خوش ہو گئے کہ منزل پر پہچ چکے اسوقت رات
کا ایک بج چکا تھا لیکن ہماری مشقت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔حکم ملا گاڑی سے
کوئی مسافر نہ اترے اس ہوٹل میں جگہ نہیں ہے کسی اور ہوٹل میں بندوبست ہو
گا تو اترنا۔لمبے سفر کی وجہ سے بوڑھوں اور مستورات کی ہمت جواب دینے لگی
دوگھنٹے گزر گئے رہائش کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی پاکستانی اور عربی
سب معاونوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا بس فونز کئے جارہے تھے ۔ہم چند لوگ
زبردستی گاڑی سے نیچے اترے احتجاج کیا جواب ملا پاکستانی ایمبیسی سے رابطہ
کیا ہے بس پانچ منٹ صبر کریں پانچ منٹ گزرنے کا نام نہیں لے رہے تھے احتجاج
بڑھ گیا تو گاڑی میں بٹھا کر ایک اور سڑک پر ہوٹل کے سامنے لے گئے وہاں بھی
جگہ نہیں تھی بس لالی پاپ ۔۔؟ ہم پھر گاڑی سے اتر کر سڑک پر آگئے ایک عربی
سرکاری اہلکار تسلیاں دے کر کہہ رہا تھا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے آپ کی
ایمبیسی کی کوتائی ہے ۔رابطہ ہوا ہے ابھی آجاتے ہیں۔پھر بلدیہ کی گاڑی میں
ایک آفیسر آگیا اس نے بھی ایمبیسی سے رابطہ کی نوید سنائی اسی چکر میں مزید
ڈیڈھ گھنٹہ بیت گیا بلاآخر 3بجے کے قریب ہمیں پھر گاڑیوں میں بیٹھنے کا کہا
گیا گاڑی ایک بار پھر مسجد نبوی کے گرد چکر کاٹنے لگی اور پھر گیٹ نمبر 5
کے پاس ایک الحیا پلازہ کے سامنے رک گئی ۔ہوٹل کے استقبالیہ میں پہنچ کر
کمروں کی رجسٹریشن کروائی گئی ہوٹل خوبصورت دکھ رہا تھا اتنے میں سامان بھی
گاڑی سے اتار کر ہوٹل پہنچا دیا گیا جسے لے کر اپنے کمروں میں پہنچےکیونکہ
صبح کی نماز کاوقت قریب ہو چلا تھا جلدی جلدی وضو کیا مسجد نبوی پہنچ کر
ابھی تہجد کے دو نفل ہی ادا کئے تھے کہ صبح کی آذان شروع ہوگئی سنتیں ادا
کیں کچھ دیر میں جماعت کھڑی ہوگئی نیند کا غلبہ بھی تھا مگر اللہ کا شکر ہے
پہلی نماز ہی باجماعت ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔پھر حضورصلی اللہ علیہ
والہ وسلم کے روزہ پر حاضری دی درود پاک کےورد کی گونج میں حاضری کا اپنا
ہی مزہ تھا سرور وکیف کی اس گھڑی میں نیند غائب تھی ۔کہ ۔
۔جسے چاہا در پہ بلا لیا
جسے چاہا اپنا بنا لیا۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے ۔
مسجد نبوی سے ہوٹل پہنچے ناشتہ کیا اور کمروں میں جا کر سو گئے۔ 12 بجے کے
قریب اٹھ گئے جلدی جلدی وضو کیا اور مسجد نبوی کی طرف چل دئیے ابھی گیٹ
نمبر پانچ سے داخل ہو رہے تھے کہ اقامت شروع ہو گئی حالانکہ گیٹ نمبر پانچ
کے بلکل سامنے باب السلام ہے جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ
مبارک۔پر سلام کے لئے حاضری دی جاتی ہے لیکن درمیان میں فاصلہ زیادہ ہونے
کی وجہ سے پہلی رکات چھوٹ گئی تا ہم باقی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔نماز
سے فارغ ہوئے تو ساتھ والے ایک بزرگ اپنی ٹانگ سہلا رہے تھے۔پوچھنے پر
معلوم ہوا موصوف کو شاہ ٹیکہ کا مرض ہے۔چونکہ میں خود اس مرض کا شکار رہا
ہوں۔اس لئے اس کی تکلیف اور علاج سے واقف تھا۔اور یہ علاج مجھے سابق ایم پی
اے فائزہ رشید کے والد مرحوم حکیم عبد الرشید نے بتایا تھا۔جس سے نہ صرف
میں خود ٹھیک ہو گیا تھااور آپریشن سے بچ گیا تھا بلکہ سینکڑوں دوستوں اور
جاننے والوں کو بھی بتایا جو اللہ کے فضل سے روبصحت ہوگئے تھے۔سو اس بزرگ
کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ہمدرد والوں کا معجون سرنجان اور معجون فلاسفہ 40
دن تک استعمال کریں درد کے لئےاوجاہی گولیاں استعمال کریں انشاء اللہ شفا
ہوگی۔ پاس ہی بیٹھے ایک انڈین حاجی نے سنا تو وہ کہنے لگا مجھے بھی یہ
تکلیف ہے نسخہ لکھ دیجئے۔بعد ازاں اس نے گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ بمبئی
کا رہنے والا ہے وہاں کے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں پوچھا تو حسب روایت
پژمردہ لہجے میں بولے سب ٹھیک ہے دوران حج مکہ میں بھی جس انڈین سے بھی
پوچھا پہلے انجانے خوف کی وجہ سے کچھ بتانے سے کتراتا پھر آبگینے کی طرح
پھوٹ پڑتا یہ بزرگ بھی زرا سا کریدا تو پھٹ پڑے اور کہا کہ جب سے مودی کی
حکومت آئی ہے کشمیر کی طرح انڈیا میں بھی مسلمانوں کی شناخت مٹا ئی جارہی
بوڑھے لوگ تو جیسے تیسے گزارا کر رہے ہیں لیکن نوجوانوں میں غصہ بڑھ رہا ہے
جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔پریشانی یہ ہے کہ کسی
ہندو لڑکے کی پٹائی ہو تو پولیس فورا" حرکت میں آجا تی ہے لیکن مسلمانوں پر
ظلم ہوتا ہے تو پولیس مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔جس سے مسلمانوں
میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔اور یہ لاوا ایک نہ ایک دن پھٹ پڑے گا ۔ دوسرے
روزبھی باب السلام کے سامنے صحن میں نماز کے لئے بیٹھے بہت سے انڈین بزرگ
حاجیوں سے جومہاشٹر کے رہنے والے تھےاس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی تو وہ
ٹال مٹول کرنے لگے پاس ہی بیٹھے قدرے نوجوان انڈین عالم دین پھٹ پڑے اور
اپنے ساتھیوں پر برستے ہوئے کہا سچ کیوں نہیں بتاتے آپ لوگوں کی ان ڈھیلی
پالیسیوں کی وجہ سے آج نئی نسل اس حال کو پہنچی ہے ہم نے سارے حربے استعمال
کر لئے لیکن ہندوئوں کا تعصب بڑھتا جا رہا ہے وہاں کے علما ء نے اور خود
میں نے الیکشن میں حصہ لیا تا کہ اسمبلیوں میں جا کر مسلمان بھائیوں کی
آواز اٹھا سکیں لیکن کچھ تو اپنوں کی بزدلی اور کچھ نتائج بدل دئیے جاتے
رہے۔نوجوان اور جزباتی ہو گیا اور کہنے لگا نوجوان مسلمان ان بزدلوں سے
نہیں ڈرتا مولانا اویس نے کھل کر کہا ہے کہ انتظامیہ درمیان سے ہٹ جائے اور
نا انصافی نہ کرےتو ہم ایک دن میں شدت پسند ہندوئوں کو چھٹی کا دودھ یاد
دلا دیں کیوںکہ وہ بنیادی طور پر بزدل ہیں متعدل طبقہ آواز اٹھاتا ہے لیکن
مودی کی حکومت جب سے آئی ہے آر ایس ایس کے غنڈوں نے انت مچھائی ہوئی ہے۔جس
کی وجہ سے اعتدال پسند طبقہ بھی بے بس دکھائی دیتا ہے۔۔۔ صاحبو!باب السلام
کے سامنے جب بھی صحن میں نماز کے لئے صفیں بچھائی جاتی ہیں پہلی صف کے
سامنے سرخ و سفید پٹی کھینچ دی جاتی ہے تا کہ نمازی امام سے آگے صف بندی نہ
کریں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے روک دیا جاتا ہے کیونکہ امام سے آگے
صف باندھ کر نماز باجماعت ادا کرنا درست نہیں لیکن لوگ اس کے باوجود آگے
صفیں باندھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جہاں بھی کھڑے ہو بس نماز ہو جائے
گی حالانکہ یہ درست نہیں ہے ہمیں وہاں موجود اہلکاروں کی باتوں پر توجہ
دینی چائیے جو زائرین کی آسانی اور فائدے کے لئے ہیں ہدایات دیتے ہیں۔ جس
کے لئے انھیں وہاں کھڑا کیا ہوتا ہے۔
صاحبو!دوسرے روز نماز ظہر کے بعد یہ ارادہ کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں درود و سلام کے بعد جنت البقیع میں حاضری دی جائے گی
مسجد نبوی میں روضہ مبارک صلی اللہ علیہ وسلم پردرودو سلام سےفارغ ہو کر جس
دروازے سے باہر جا تے ہیں وہ باب البقیع ہے۔اس کے بلکل سامنے مشرق کی طرف
جنت البقیع کا قدیم اور مشہور قبرستان واقع ہے۔جو چاروں طرف سے پختہ اور
اونچی دیوار میں گھرا ہوا ہے۔ اس کا مرکزی دروازہ مسجد نبوی کی طرف کھلتا
ہے خواتین کو کسی وقت بھی داخلہ کی اجازت نہیں ہے ان کی زیارت کے لئے
دروازے کے ساتھ جالیاں بنائی گئی ہیں۔جہاں سے وہ جنت البقیع والوں پر سلام
بھیجتی ہیں بقیع کے قبرستان میں دس ہزار کے قریب صحابہ کرام رضی آللہ عنہم
دفن ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اور بیٹیاں بھی ہیں اور
دیگر بہت سے تابعین وصالعین بھی یہاں دفن ہیں۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
بقیع والوں کے لئے دعا ء مغفرت کیا کرتے تھے آپکی دعائوں میں سے یہ بھی ہے
: اے مومن قوم تم پر سلامتی ہو ۔تمہارے پاس وہ چیز آگئی ہے جس کا وعدہ تھا
کل تم اٹھائے جائو گے اور ہم بھی انشا ء اللہ تم سے آملیں گے۔اے اللہ بقیع
غرقد والوں کی مغفرت فرما۔لہزا انکی زیارت کرناسنت ہے۔اس قبرستان کی آخری
توسیع شاہ فہد کے زمانہ میں ہوئی۔اب اس کا رقبہ 174962 مربع میٹر ہے جس کے
گرد چار میٹر اونچی اور 1726 میٹرلمبی دیوار ہے۔ سو نماز ظہر کی ادائیگی کے
بعد قاری و حافظ عبداللہ(میرے دوست اور تبلیغی جماعت کے مقامی حلقہ امیر
رزیف صاحب کے بھتیجے ہیں جن سے ملاقات حج کےدوران ہوئی) کے ہمراہ جنت
البقیع جا پہنچے وہاں بھی سرکاری اہلکار راہنمائی کے لئے موجود تھے ۔بقیع
میں قبروں پر سے نام کے کتبے بوجہ ہٹا دئیے گئے ہیں۔ اس لئے سوائے اندازوں
کے یا پھر پہلے سے یہاں آئے ہوئے لوگوں کے بتانے کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں
ہے یہ معلوم کرنے کا کہ کس کی قبر کہاں ہے۔بہرکیف ہم نے بھی تقریبا"پورے
قبرستان میں گھوم کر اہل قبور پر درود و سلام بھیجا۔۔۔۔جاری۔۔۔
|