تمام دن کی بھاگ دوڑ کے بعد سب فائلیں سمیٹ لیں ، اسسٹنٹ
کو سب کام سمجھا دیے ، ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری میٹنگ
نمٹانے کے بعد پھر سے وہیں آ بیٹھے ، اگلے دن کے کام ڈائری میں لکھ چھوڑے.
گھر جا کر کیا کرنا ہے ذھن میں پلان بن چکا ، باہر وہی سردی کی ہلکی حدت کی
دھوپ ہے ، کمروں میں وہی خالی پن کے سائے ہیں ، خزاں کی دھوپ جاڑے کی کہر
سے کم دبیز ہے. کیا چلا گیا کیا ہاتھ آیا ، سب وہی تھا شائد کچھ نہیں بدلا
، اور کبھی لگتا ہے ہر نئے دن کے بعد بھی احساس وہی ہے ، جبر اسی چکی میں
پس رہا ہے ، حکایتیں اپنا مان بڑھانے کو ترس رہی ہیں ، دروازوں کے کھلنے
اور بند ہونے کی آواز وہی ہے ، موسم بدل چکا ، چہرے بدل گئے ، سامنے رہنے
والے وہی نہ رہے، عظمت گم گشتہ میں بال و پر کھو کر رہ گئے ، کیا کوئی
فسانہ ابھی بھی باقی ہے ، کیا سب کچھ ختم نہیں ہو چکا ، کھوجتے ، کریدتے
لمحوں میں اندر کی ہنسی اور خوشی کہیں کھو گئی ، اطمینان باقی تھا ، وہ بھی
کب تک رہے معلوم نہیں...
رشتے رنجشوں میں بدل جائیں تو دل شکستہ اور گرفتہ ہو کر مزید ٹوٹنے لگتا ہے
، اندھیری رات میں لگتا ہے کہ چاند ساتھ ہے، لیکن کیا وہ ساتھ ہوتا ہے ، وہ
دیتا تو چاندنی ہے لیکن خود اندھیرے میں رہتا ہے. جذبے پگھل جاتے ہیں ،
راتوں کو زوال آ جاتا ہے ، ہر صبح کی سحر ہوتی ہے لیکن جنوں کی سحر کبھی
نہیں ہوتی ، اس پر رات کی طوالت مزید بگاڑ پیدا کرتی ہے ، دن میں سورج اور
رات کی خنک ڈھلتی تاریکی دل کو ایک زرہ روشنی عطا کرتی ہے ، لیکن دل وہی
احساس کے مگ مہن میں پلتا چلتی پھرتی چھاؤں ڈھونڈتا رہتا ہے ، باہر سے سختی
اور بے حسی کا خول چڑھائے دنیا والوں کے لئے در بند کیے بیٹھ رہتا ہے ،
لیکن جیسے ہی یہ خول تنہائی میں اترتا ہے تو اندر سے پگھلی ہوئی شمع کی موم
باہر بہنے لگتی ہے. ٹوٹی چیزیں کب جڑتی ہیں، آئینے میں بھی دراڑ آ جائے تو
وہ دیکھنے والے کا چہرہ مسخ کر دیتا ہے. اسے کتنا ہی کیوں نہ جوڑیں وہ جڑ
نہیں سکتا، خلا ایک بار آ جائے تو اسے کوئی شے پر نہیں کر سکتی، جذبہ مدھم
ہو جائے تو اسے جگایا نہیں جا سکتا. .انسان کتنا ہی رو لے آنسو ختم نہیں
ہوتے، کتنا ہی جی لے زندگی ختم نہیں ہوتی ، کتنا ہی چل لے سفر اپنے اختتام
کو نہیں پہنچتا. اعتبار ٹوٹے تو کبھی بحال نہیں ہوتا پہاڑ سے برف پھسل کر
آئے تو وہ نہ صرف سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے بلکہ راستہ بھی بند کر دیتی ہے.
پرندے اڑتے ہیں کیونکہ انکی صفت پرواز کرنا ہے، انسان کی صفت مختلف ہے وہ
اڑنا چاہے تو اسکے پر کاٹ دیے جاتے ہیں، وہ اپنی صفات کی حدود سے باہر نہیں
نکل سکتا، اور بے بس انسان اڑنا درکنار چل بھی نہیں سکتا، اس پر روزانہ دن
آتا ہے گزر جاتا ہے ، جس پر وہ تھوڑی بہت حرکت کرتا ہے جیسے روز ہوا مٹی پر
سے گزر جاتی ہے ، وہ ادھر کا رخ کرتی ہے کبھی ادھر کا لیکن رہتی مٹی ہی ہے.
اسے اٹھا کر جس گھروندے کی زینت بنا دیا جائے بن جاتی ہے، جذبوں کی نمائش
کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ تماشائی کا کام داد دینا ہوتا ہے، سنوارنا ،
سلجھانا اور بنانا نہیں. خوشی اور خوشامد کی رو میں وہ کام کرنے والے کو
کسی کام کا نہیں رہنے دیتے.
داد رسی داد شکنی نہیں ہو سکتی ، نظر اور دل جھکانے والوں پر سے انسان یوں
گزرتے ہیں جیسے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے زمین پٹتی ہے. دوسرے خوش دکھائی دیتے
ہیں.دوسروں کی خوشیوں میں اپنی تمنائیں لہجوں ، لمحوں کا بوجھ اٹھائے
دیوانہ وار رقص کرتی رہیں، ایک طرف خوشی کی تالیوں اور قہقہوں کی گونج
بڑھتی ہے، دوسری طرف جنوں کی خالی منڈیر پر اشکوں کی تھاپ پر رقص جاری رہتا
ہے.
زندگی کی دوڑ اور رشتوں کی عظمتوں نے کیا کچھ پامال کر دیا ، کیا کچھ بچانے
کے چکر میں اپنا آپ نڈھال کر لیا ، دوسروں کو خبر بھی نہیں کون کس کے لئے
اپنی جیتی ہوئی زندگی مر گیا ، اور اس نے اس مرنے کے بعد خود جینا شروع کر
دیا ، زندگی سامنے آ کر ٹھہر گئی ، پوچھتی رہی کیا چاہیے، جواب کوئی نہ تھا
، سب کچھ تو تھا ، ضرورت بھی کسی شے کی کب تھی ، لمحوں اور خیالات کے تصرف
میں زاویے کے موچی نے ایسی گانٹھ لگائی کہ تار کے چبھنے کی تکلیف اندر تک
محسوس ہوئی تھی ، زخم تو سل گئے تھے بس نشان باقی رہ گئے تھے....پیوند سے
دھاگہ نکال بھی لیں تو نشان رہ جاتے ہیں وہ کب جاتے ہیں ، عظمت رفتہ اور
جہد مسلسل نے چوکور پتھر کو رگڑ کر گول کر چھوڑا تھا ، ساتھیوں ، منزلوں ،
رقص و سرور کی محفلوں نے وحشت کا احساس جگا دیا تھا.
تمناؤں کیشورش وہی رہی...اس سب میں ایک چیز مل گئی تھی ، الله پر اعتماد..
جو اس نے خود عطا کر دیا، لمحوں ، رتجگوں، حصول ، تقاضوں ، جبر و صبر کے
بیچ کہیں اس نے احساس دلا دیا تھا کہ میں ہوں....تمہارے پاس "میں باقی رہ
گیا ہوں".باقی کا احساس، فانی کے احساس سے کتنا بلند تھا. وہی تو باقی تھا،
جذبے کے رنگ میں، حدت میں، سرفروشی میں، لمحے میں، زیست میں، اسی ایک احساس
نے تھام لیا تھا، کس کی جا ہے روشنی کے مقابل ٹھہرے، ذرے پختہ ہو کر مزید
سخت ہو جاتے ہیں، ان پر اینٹ سے اینٹ رکھ دی جائے تو انکی جان کھو جاتی ہے.
مسلسل اور رفتہ رفتار سے بھی اس تک پہنچنا سہل تھا، مشکل نہ تھا، لیکن جب
وہ خود سامنے آ بیٹھے تو دعا بھی وہی ہے، وقت بھی ، احساس بھی، رتجگے میں
ہمسفر ، سوال کا جواب، تشنگی کی ٹھنڈک، ہر بات کی دلیل، سائے کی طرح ساتھ
اور تاریکی کا ہمراز وہی ایک رہ جاتا ہے، جب وہ سامنے آ بیٹھے تو کوئی ہل
نہیں سکتا، نہ اسکی کوئی تمثیل ہے نہ کوئی ہمسری، بس جو پیچھے چھوڑ آئے وہ
چھوڑ آئے، اسکی خوبی یہی ہے کہ ایک بار کسی کو اپنا بنا لے پھر کسی اور کا
ہونے نہیں دیتا. یہ حدود خوبصورتی کا آخر ہے. یہی حدود اس آزادی کی راہ
ہیں، جہاں دنیا سے رخصت ملی وہیں اسکے سفر کے منتظر اسکی جانب چل پڑے. پھر
دید کی روتاس منتظر ہے، جتنی لمبی مسافت ہو صلہ بھی اتنا ہی قرین ملتا ہے. |