لفظِ احسان کا مادہ ’’ح - س - ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و
خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔
امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد
ایسا حسین ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا
عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی
دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے
اعتبار سے بھی پرکشش ہو۔
علامہ راغب اصفاھنی، مفردات القرآن : 119
احسان کے لغوی معانی ہیں :
• نیکی، اچھا سلوک، مہربانی کا برتاو، اچھے سلوک کا بار یا وہ جسے سلوک
کرنے والا یا جس سے سلوک کیا گیا، محسوس کرے۔
• نیکی۔ عمل خیر وغیرہ۔
• اچھے سلوک کا اعتراف۔ ممنونیت اور اعتراف ممنونیت۔
تصوف میں نورِ بصیرت سے حق کا مشاہدہ۔ صفات کے پردے میں ذات خداوندی کا
دیدار۔ مشاہدہ صفاتیہ جس کو عین الیقین کہتے ہیں
احسان ایسا عمل ہے جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن
دونوں میں حسن ہواور اس میں کسی قسم کی ناپسندیدگی کا امکان نہ ہو۔ پس عمل
کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا
دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک
کہلاتا تھا۔
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘کی اہمیت اور فضیلت کا بیان
مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
’’پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر)
صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور
اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
المائده، 5 : 93
پھر فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ
الصَّادِقِينَO
التوبه، 9 : 119
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی دوستی اختیار کرو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے تقویٰ دراصل شریعت اسلامیہ کے
تمام احکام چاہے وہ حلال ہوں یا حرام ان پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔
اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطن کے احوال کو
تقوی کی روشنی سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت
کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے
بندوں کی دوستی اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان
احسان درحقیقت احسان و تصوف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں جو اللہ
کے نہایت نیک اور برگزیدہ بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن
کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم کہاہے۔ سورہ فاتحہ میں سیدھے رستے کی
نشاندہی کرتے ہوئے دعا کرنے کادرس دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام
فرمایا۔‘‘
الفاتحه، 1 : 5، 6
یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر
فرمائی ہے :
النساء، 4 : 69
’’تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام
فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے
ساتھی ہیں۔‘‘
حدیث میں ہے کہ ایک روزحضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں
انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا : یا رسول اﷲﷺ !
مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا
أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و
شره.
’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے صحیفوں، اس کے
رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف
سے مقدر مانے۔‘‘
انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :
’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں اور ﷺ اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے
اور زکوٰۃ ادا کرے، اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو
اس کے گھر کا حج کرے۔‘‘
اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو
حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور
اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ
یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام
والاحسان و وجوب الايمان
2. مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن
الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی
عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا
آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت
کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے
ہیں۔
نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی ﷺعن
الايمان و السلام و الاحسان
ایمان، اسلام اور احسان تینوں باہم مربوط اور لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان وہ
بنیاد ہے جس پر مسلمان کا عقیدہ استوار ہوتا ہے اور اسلام سے مسلمان کا
ظاہر اور اس کا عمل درست ہوتا ہے جبکہ احسان سے مسلمان کا باطن اور حال
سنورتا ہے۔درحقیقت ایمان، اسلام اور احسان یہ سب ایک ہی سرچشمے اور ایک ہی
مرکز سے تعلق رکھتے ہیں یہ تینوں ایک دوسرے کی بقاءکے لئے لازم و ملزوم ہیں
دوسرے لفظوں میں کوئی شخص اسلام کی محض ظاہری تعلیمات پر عمل کرکےایک
مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ مومن بن کر ہی درجہ کمال کو پہنچ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف ایمان کے تقاضے پامال نہ ہونے پائیں، دوسری
طرف اسلام کے بنیادی اصولوں پر بھی عمل میں سستی اور کوتاہی واقع نہ ہونے
پائے۔ ضروری ہے کہ باطن اور حال کو سنوارنے کے لئے ایمان اور اسلام کی
دونوں قوتوں کے ساتھ روحانی کمال کی منزلِ احسان کو حاصل کیا جائے۔
ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه، فتح الباری، 1 : 120
احسان کی دو قسمیں ہیں :
احسان مع الخالق (خالق کے ساتھ احسان کا تعلق)
احسان مع الخلق (مخلوق کے ساتھ احسان کا تعلق)
خالق کے ساتھ احسان:۔جب بندے کا اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق حسین ہو جائے
اور وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات اور فرائض و حقوق کو بدرجہ احسن ادا کرے
اس کا دل محبت الٰہی اور خشیت الٰہی میں ایسا مگن ہو کہ اس کی کيفیت ان
تعبد اﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک کا مصداق ہو تو اسے احسان مع
الخالق کانجاتا ہے۔
خلق کے ساتھ احسان:۔جب بندہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے اپنا
تعلق حسین بنا لے، اللہ کے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ حسن عمل پر مبنی ہو،
وہ سراپا ایثار و قربانی بن کر ہمیشہ اوروں کے کام آئے۔ اس کے ہاتھ اور
زبان سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے، وہ اپنے جان و مال، رزق و دولت، علم و
عمل سب کچھ اللہ تعالی کی مخلوق کی خدمت کے لئے صرف کر دے، اپنا سکون و
آرام قربان کر کے دکھی انسانیت میں سکون بانٹے تو بندے کا اللہ کے بندوں کے
ساتھ ایثار کا یہ عمل ’’احسان‘‘ کہلاتا ہے اور اسے ہی احسان مع المخلوق
کہتے ہیں۔
لوگوں کے ساتھ مالی بدنی علمی لحاظ سے احسان کی تاکید فرمائی گئی ہے۔مالی
بھلائی یہ کہ مال خرچ کرے، صدقہ، زکوۃ دے۔ سب سے عمدہ ’’مالی احسان‘‘ زکوۃ
ہے۔ کیوں کہ زکوۃ اسلام اور اس کی عظیم عمارت کا ایک رکن ہے۔ اس کے بغیر
اسلام مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نفقہ ہے۔ اس
کے بعد نمبر آتا ہے ان واجب نفقات کا جو انسان اپنی بیوی، والدین، بچے،
برادران، بھتیجے، بھانجیوں، چچاؤں، پھوپھیوں اور خالاؤں وغیرہ پر صرف کرتا
ہے۔ پھر وہ صدقہ جو مستحقین صدقہ مساکین پر صرف کرتا ہے جیسے طالب علم
وغیرہ۔
’’احسان‘‘ وہ عظیم فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت زیادہ پسندیدہ اور
محبوب ترین عمل ہے۔ احسان پر مبنی تعلق خواہ اللہ کے ساتھ ہو یا اس کی
مخلوق کے ساتھ دونوں اعتبار سے ایک عظیم عمل ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا حسین
عمل ہے جس میں حسن کی کوئی حد اور مقدار مقرر نہیں ہوتی اسی طرح اللہ
تعالیٰ کے ہاں بھی احسان کرنے والوں کا اجر بھی بے حد اور بے اندازہ ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
هَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانِO
’’کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہے‘‘
الرحمن، 55 : 60
اس لیے اہل ایمان و اسلام کے لئے تو جنتِ نہار اور جنتِ عدن کا وعدہ فرمایا
گیا ہے
’’اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی
راہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک
جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ ہے اور نہ ان کے چہروں پر (غبار اور) سیاہی
چھائے گی اور نہ ذلت و رسوائی، یہی اہل جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے
ہیں۔‘‘
سوره يونس، 10 : 25، 26
بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو لے کر جنگل میں سے گزر رہی تھی کہ
اچانک بھیڑیا آیا اور اس نے عورت پہ حملہ کیا جب بھیڑیے نے حملہ کیا تو وہ
کم زور دل عورت گھبرا گئی جس کی وجہ سے اس کا بیٹا اس کے ہاتھ سے نیچے
گرگیا بھڑیے نے بچے کو اٹھایا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ جب ماں نے دیکھا کہ
بھیڑیا میرے بیٹے کو منہ میں ڈال کر جا رہا ہے تو ماں کی ممتا نے جوش مارا
تو اس کے دل سے ایک آہ نکلی جیسے ہی اس کی آہ نکلی تو اس نے دیکھا کہ ایک
جوان مرد درخت کے پیچھے سے بھیڑیے کے سامنے آیا، جب بھڑیے نے سامنے اچانک
ایک مرد کو دیکھا تو وہ گھبرا گیا اور بچے کو وہی چھوڑ کر بھاگ گیا، نوجوان
نے بچے کو اٹھایا اور ماں کے حوالے کردیا اس ماں نے اس سے پوچھا تم کون ہو
؟ جس نے میرے بچے کی جان بچائی آدمی نے کہا میں اللہ پاک کا بھیجا ہوا
فرشتہ ہوں، مجھے اللہ پاک نے آپ کی مدد کرنے بھیجا ہے، جب ایک بار آپ کھانا
کھا رہی تھی عین اسی وقت ایک سائل نے آپ کے دروازے پہ روٹی کا ٹکرا مانگا
آپ کے گھر میں اس وقت وہی روٹی موجود تھی جو آپ خود کھانے والی تھی آپ نے
کہا اللہ کے نام پہ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ کیسے جانے دوں، تم نے خود
کو بھوکا رکھ کر اپنے لقمے اس کو دیے اب اللہ پاک نے بھیڑیے کے منہ کے لقمے
نکال کر آپ کو دیے کہ احسان کا بدلہ بس احسان ہے۔
|