چینجرز فارم اور قاسم علی شاہ

سیوا و خدمت سے لے کر گیٹ تک چھوڑنا کسی بڑے اور دلدار آدمی کی نشاندہی کرتا ہے ایسا ہی کچھ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں دیکھنے کو ملا وہاں نہ صرف قاسم علی شاہ صاحب ہی آگے بڑھ کر تمام معاملات کو دیکھ رہے تھے اور سب کی خیریت دریافت کر رہے تھے بلکہ وہاں موجود انکا عملہ بھی بھرپور طریقے سے خیرمقدم کر رہا تھا۔آخر شاہ صاحب کے زیرِ سایہ ہیں انہی کی طرح ہونگے۔شاہ صاحب کے لیکچرز کون نہیں سنتا اور کون استفادہ حاصل نہیں کرتا؟ بے شُمار لوگ ہیں جو شاہ صاحب کی ویڈیوز دیکھ کر ان کی باتوں پر عمل پیرا ہو کر خود کو بدلتے ہیں اپنے اردگرد منفی سوچوں کو مثبت میں بدلتے ہیں اور وہ لوگ صرف لاہور یا کراچی میں ہی موجود نہیں بلکہ پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر پھیلے ہوئے ہیں شاہ صاحب کی لیکچر شپ کیا خوب ہے کہ گھر بیٹھے آپکو ایسے ویڈیو کلپس مل رہے ہیں جن کو سن کر آپ پریشانی کی تہہ سے نکل کر ایک نئی زندگی شروع کر سکتے ہیں.

میری زندگی میں بھی ان ویڈیوز کو سننے سے اور ان سے ملنے سے اتنا بدلاؤ آیا جو بتانا شاید مشکل ہو جائے میں جب سے شاہ صاحب کی ویڈیوز سن رہا ہوں اسی وقت سے ان سے ملنے کی خواہش دل میں پیدا کیے ہوئے تھا اور وہ الحمداللہ سے پوری بھی ہو چکی ہے میں ان سے اس سے قبل دو بار ملاقات کر چکا تھا مگر تیسری اور تفصیلی ملاقات ''پاکستان چینجرز فارم" کی وجہ سے ممکن ہوئی. جب معلوم ہوا اس تنظیم نے شاہ صاحب کے ساتھ میٹینگ رکھی ہے تو جھٹ سے اپنا نام لکھوا دیا نوید بھائی جو کہ پاکستان چینجرز فارم کے CEO ہیں ان کو پہلے سے جانتا تھا مگر جب مجھے فلک زاہد نے بتایا کہ نوید بھائی نے کچھ ہی رائٹرز کو چننا ہے تو نام لکھوانے میں دیر نہ کی اور انکا حصہ بن گیا شاہ صاحب کی فاؤنڈیشن کی بات کی جائے تو ایسی فاؤنڈیشنز میں نے بہت کم دیکھی ہیں اچھے خیر مقدم کے بعد ہمارے درمیان بیٹھ جانے کے بعد لکھاریوں کے ساتھ گفتگو جاری رکھی اور میں باتوں کو سنتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ بہت کم ہی ہوتے جو مسلسل بول سکتے اور ان میں سے ایک شاہ صاحب ہیں اور بیشک وہی انسان مسلسل بول سکتا جس کے پاس ایک وسیع علم ہو اور اس بات سے سب بخوبی واقف ہیں کہ شاہ صاحب نے اپنے زمانہ طالبِ علمی سے ہی مختلف کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔

آغاز میں ہی شہزاد روشن صاحب نے بتایا کہ اس فارم میں بہت سے لکھاری اور CEO وغیرہ بھی موجود ہونگے اور کچھ وقفے کے بعد نشست رکھتے رہا کریں گے اور moto یہ ہے کہ" ہم کیسے بدل سکتے ہیں " اور اکثر سننے کو ملتا ہے کہ سینئرز سپورٹ نہیں کرتے تو اس بات پر زور ڈال کر بتایا کہ آپ بھی کسی نہ کسی کہ سینئر ہیں ہم بنیادی طور پر سپورٹ کرنا شروع کریں گے ان کا حوصلہ بڑھانا شروع کریں گے تو سپورٹ نہ کرنے والی بات پر قابو پایا جا سکتا ہے میٹنگ میں شرکت کرنے والے زیادہ تر کی تعداد لکھاریوں کی تھی اور کچھ شعرا کرام تھے کچھ کالم نویس تھے اور کچھ افسانہ نگار موضوع کی بات کی جائے تو "اس معاشرے میں ایک لکھاری کا کیا کردار ہے "اسی پر شاہ صاحب نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا لکھنا کہ جس لکھے کی زندگی صرف ایک دن تک ہے تو میں اسے نہیں مانتا جو لوگ دل سے لکھ گئے انکا لکھا ابھی تک چل رہا ہے اور پھر شاہ صاحب سے باتوں کا سلسلہ جاری رہا اس میں شاہ صاحب سے انکے بارے میں بھی پوچھا گیا اور کچھ نے لکھنے کے حوالے سے بھی پوچھا۔شاہ صاحب نے شعرا کرام کے بارے میں بھی ایک اہم بات بتائی کہ آج کل کچھ شعرا کرام چھلانگیں لگا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں شاعری میں وہ اثر بہت کم نظر آتا ہے درد جھوٹا ہو چکا ہوا ہے محبت کو جھوٹا کر دیا گیا ہے۔انکا یہ بھی کہنا بجا تھا کہ وسیع مطالعہ انسان کو اچھا لکھاری بنا دیتا ہے۔سوالات کا سلسلہ جاری رہا اور پھر ان پر ہونے والی تنقید کے بارے میں پوچھا گیا تو انکا جواب بھی مثبت رہا یوں بھی ہم اس انسان سے کیسے اس چیز کی اُمید کر سکتے کہ جو positivity بانٹ رہا ہے خود منفی سوچ رکھے؟تو عاجزی بھی شاہ صاحب کے اندر بھری پڑی ہے شاہ صاحب جب بھی اپنی کسی کامیابی کا ذکر کرتے تو اللہ کا شکر ادا کرتے چلے جاتے بے شک اللہ نے ہی اس انسان کو اتنا نوازا جو لوگوں کی بہتری کے لئے دن رات محنت میں لگے ہوئے ہیں اور اسکا پھل بیشک انکو ملتا ہے۔شاہ صاحب نے ایک اور اہم بات کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی کہ آج کل کچھ لوگ ہوتے ہیں وہ کسی کو استاد نہیں مانتے کہتے ہیں ہم خود ہی یہاں تک آئے تو یہ بات غلط ہوتی ہے ہماری زندگی کا کوئی بھی کام ہے جو ہم کرتے ہیں اسکے لئے ہمارا استاد ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی کام کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائے۔اور شاہ صاحب کا اس بات پر بھی توجہ کروانا تعریف کے قابل ہے کہ کچھ لوگ سینئرز کو اور مشہور و معروف لوگوں کو صرف تصاویر اور سیلفیز کی حد تک رکھتے ہیں اور بتائے گئے کام پر عمل نہیں کرتے تو یہ واقعی میں ہی قابلِ غور بات ہے اس ملاقات کے بعد شاہ صاحب کے ساتھ باہر تشریف لے گئے اور گروپ فوٹو بنایا گیا اور ہمیں نہایت ہی خلوص و پیار سے اللہ حافظ کہا اور اپنی اگلی میٹنگ میں چلے گئے۔اس سب کے بعد ہم دوبارہ اندر گئے اپنا فیڈبیک سب نے دیا اور بتایا گیا کہ شاہ صاحب سے ملاقات کے بعد کیسا لگا آج کی نشست کیسی رہی اور مستقبل کے منصوبے کے بارے میں بات کی گئی۔

میں شکر گزار ہوں پاکستان چینجرز فارم کا اور قاسم علی شاہ صاحب کا۔جزاک اللہ.
 

Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 42387 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More