ياد گار اسلاف رفيق امير شريعت ممتاز عالم دين حضرت
مولانا مجاہد الحسينى رحمة الله عليہ بهى بالآخر 17 دسمبر 2019ء بروز منگل
اپنى آخرت كو سدهار گئےوه اپنےہزاروں چاہنے والوں كو غم زده كر كے اپنے رب
كے حضور حاضر ہو گئے ايك ايسے وقت ميں جبكہ امت كو قحط الرجال كاسامنا ہے
مولانا كا اٹھ جانا كسى عظيم سانحہ سے كم نہيں ، مولانا نے بھر پور كامياب
زندگى گزارى ، انكى عمر قمرى سال كے اعتبار سے تقريبا 96 برس كے لگ بهگ
تهى،انہوں نے زندگى كے ايك ايك لمحے كى قدر كى ، انكى زندگى آنے والى نسل
كے ليے نمونہ اور آئيڈيل كى حيثيت ركهتى ہے ۔يہ ايك صدى كا قصہ ہے دو چار
دن كى بات نہيں ۔وه ان باخدا اور باتوفيق لوگو ں ميں شامل تھےجنكى زندگى
دوسروں كے ليے مشعل راه ہوتى ہے وه اسلاف كے قافلہ كے عظيم فرد تھے جو
ہمارے زمانہ ميں ان سے پيچھے ره گئےتھے انكى شخصيت ميں كمال كى جاذبيت
اوركشش تهى جو ہر ايك كو اپنا گرويده بنا ليتى تهى، انكى ذات ميں عجيب
مقناطيسى صلاحيت تهى ، جو ہر ايك كو اپنے سحر ميں جكڑ ليتى تهى،مولانا 4
جنورى 1926 كوسلطان پور لودهى رياست كپور تھلہ ضلع جالندهر(انڈيا) ميں
مولانا محمد ابراہيم كے گهر پيداہوئے ۔مولانا جب پيدا ہوئے تو باپ كا سايہ
دوماه قبل ہى سر سے اٹھ چكا تها۔ پيدائش كے تهوڑے عرصہ بعد والده نے بھى
داعى اجل كو لبيك كہ ديا ، ماموں جان نے آپكا نام محمد يوسف ركھا ، پھوپهى
جان نے دل وجان سے آپكى پرورش كى ذمہ دارى اٹهائى۔پھوپهى جان كو گاؤں كے
بچوں اور بچيوں كو قرآن كريم كى تعليم دينے ميں بڑى دلچسپى تھى وه بڑى محنت
سے بچوں كو قرآن پڑھاتى تهيں، مولانا نے اپنى پھوپهى سے ابتدائى قرأنى
تعليم حاصل كى ۔مولانا اپنى ابتدائى دينى وعصرى تعليم كے احوال بڑى دلچسپى
سے سنايا كرتے تهے،فرماتے تهے ہمارے شہرسلطان پور ميں ہمارے ايك عزيز نے
ميٹرك پاس كيا تها وه ہمارے گهر ميں رہتا تھا اسكى سكول كى كاپياں ہمارے
گهر ميں ره گئى تهىں۔ انكے ورق كاايك صفحہ خالى ہوتا تها ميں نے وه كاپياں
لے كر ان پہ لكھنے كى مشق شروع كر دى تهى وه اسطرح كہ جهاڑو كاتنكا لے
كراسكا قلم بنايا مٹى كى كچى دوات بنائى اور اس ميں ٹهيكرى پيس كر سياہى
بنائى سارا دن الٹاسيدها لكهتا رہتا تها ،میری اس دلچپسی اور شوق کو دیکھ
کر گاؤں کے مولوی صاحب نےاپنے پاس سے دوات تختی سیاہی اور قلم لا کر دیئے
اور مجھے "الف، ب، ت" لکھنا سکھایا ،اب میں نے تختی پر لکھنے کی مشق شروع
کردی تھی ۔میں لکھ سکتا تھا لیکن پڑھ نہیں سکتا تھا انہی مولانا صاحب نے
لکھنے کے ساتھ ساتھ مجھے پڑھنا بھی سکھایا اس طرح میری تعلیم کا با قاعدہ
آغاز ہو گیا ۔پھر بعد ازاں مجھے سلطان پور کے مدرسہ تعلیم القرآن میں داخل
کرا دیا گیا وہا ں دوسرے طالبعلموں کے ہمراہ میں نےاپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی
تختی اپنے استاد مولوی فضل محمد مرحوم کو دکھلائی تو انہوں نے مجھےكلاس ميں
کھڑا کر دیا میری ٹانگیں کاپنے لگیں کہ شاید مجھ سے کوئی غلطی ہوگئ ہے لیکن
استاد مرحوم نے کلاس کے باقی لڑکوں کو میری تختی دکھلائی اور کہا دیکھو! یہ
لڑکا کل داخل ہوا ہے اس کا خوش خط دیکھو تم بھی اس طرح تختی لکھا کرو
۔استاد صاحب کے حوصلہ افزا جملے نے میرے اندر اعتماد پیدا کیا پھر اسی
خوشخطی کی بناءپر میں ہر امتحان میں اول آنے لگا، اور پھر یہی خوشخطی میرے
میدان تحریر و صحافت میں آنے کا سبب بن گئی اور میں کوچہ صحافت کا
رہراؤٹھہرا ۔مولانا نے باقاعدہ دینی تعلیم جالندھر کے معروف مدسہ خیر
المدارس میں حاصل کی ۔اس مدسہ کے بانی و مہتمم مولانا خير محمدؒ جالندھرى
تھے جو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اجل خلیفہ تھے ان سے
مولانا نےدرس نظامى كى درميانی کتابیں پڑھیں۔ دورہ حدیث کیلئے مولانا نے
1943ء ميں دارالعلوم دیوبند کا رخت سفر باندھا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ
دارالعلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ تو گرفتار ہو چکے ہیں
ان کی جگہ حدیث کا درس مولانا محمد ابراہیم بلياویؒ دے رہے ہیں ۔اسی دوران
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ سے ملاقات ہو گئی ان سے
مشاورت کے بعد طے پایا کہ دورہ حدیث دارالعلوم ڈابھیل سے کیا جائے چنانچہ
مولانا ڈابھیل تشریف لے گئے وہاں مسند حدیث پر اسوقت مولانا شبیر احمد
عثمانیؒ براجماں تھے مولانا نے بخاری شریف کا پہلا حصہ ان سے پڑھا جبکہ
دوسرا حصہ مولانا شمس الحق افغانیؒ سے پڑھا ۔یہاں دیگر اساتذہ کرام ميں
مولانا ظفر احمد عثمانیؒ مولانا عبد الجبار اعظمیٰ ،مولانا محمد مسلم
دیوبندی اور مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے اسما گرامی قابل ذکر ہيں ۔مولانانے
1944 ء میں سند فراغت حاصل کی۔ 1945ء ميں اپنے محبوب استاد حضرت مولانا خیر
محمد جالندھری کے حکم پر ان کے مدرسہ خیرالمدارس جالندھر میں باقاعدہ تدریس
کا آغاز کیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد تحریک پاکستان چلنے کی وجہ سے سلسلہ
تدریس کو خیر باد کہنا پڑا۔
1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مولانا نے پاکستان کی طرف
ہجرت فرمائی ہجرت کی خونی داستان بھی مولانا بڑے رنج و الم کے ساتھ سنایا
کرتے تھے ۔فرماتے تھے اس بڑی ہجرت میں دو فعہ میں نےموت کو قریب سے دیکھا
اور موت سے بال بال بچا ۔اس خونچكاں داستان کو مولانا نے قلم بند بھی
فرمایا تھا جو کہ زیور طبع سے آراستہ ہے ۔مولانا نے قدرت کی طرف سے طویل
زندگی پائی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مولانا کو بڑے بڑے نامور علماء اور
دانشور ادباء شعراء کرام کی ملاقات اور صحبت کا شرف نصیب ہوا ۔حکیم الامت
حضرت تھانویؒ سے مصافحہ کرنے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ہاتھ
پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔فرماتے تھے ،ميں حدیث میں مولا ناشبیر احمد
عثمانیؒ کا شاگرد ہوں لیکن فکرونظر کے اعتبار سےحضرت مدنی کا مرید ہوں بلکہ
الحسینی کی نسبت بھی مولانا حسین احمد مدنیؒ کی محبت كى وجہ سے ہے اور قیام
مظفرگڑھ کے دوران میری حضرت مدنیؒ سے خط و کتابت بهی رہی ہے۔ مولانا اعزاز
علیؒ ،مفتى محمد کفایت اللہ دہلویؒ ،مولاناحفظ الرحمٰن سیوھارویؒ ،مولانا
احمد علی لاہوریؒ ،مفتی محمد حسن اور امیر شریعت مولانا سيد عطاء اللہ شاہ
بخاریؒ سے ملاقات و صحبت بلکہ رفاقت کا شرف بھی نصیب رہاہے۔ تحریک ختم نبوت
1953ء میں سال بھرسینٹرل جیل لاہور میں امیر شریعت کی صحبت و رفاقت میسر
رہی ۔
مولانا کا سینہ علم اور تاریخ کا خزینہ تھا ،تقریبا پون صدی تک علم کی شمع
روشن کئے رکھی ۔مولانا تحریک پاکستان ، تحریک ختم نبوت 1953ء اور تحریک ختم
نبوت 1974ء کے عینی شاہد تھے، ان تحریکوں کا آنکھوں دیکھا حال سنا کر
مولانا حاضرین و سامعين کو ششدر کر دیتے تھے اور ہر شخص اپنے دامن میں کچھ
نہ کچھ لے کر اٹھتا تھا ۔مولانا کے نام سے تعارف تو 90 ءکی دہائی میں دینی
و مذہبی رسائل و جرائد سے ہوا ،مختلف اخبارات اور دینی ماہناموں میں مولانا
کے مضامین شائع ہوتے تھے اور میں ان کو بڑے شوق سے پڑھتا تھا لیکن ملاقات و
صحبت کا شرف پچھلے تقریبا پندرہ سالوں سے رہا ہے۔ اس دوران مولانا سے
سیکھنے کو بہت کچھ ملا ،لکھنے پڑھنے کا ذوق بھی مولانا کی توجہ اور برکت سے
حاصل ہوا ۔مولانا سےبہت سى ياديں وابستہ ہيں ، مولانا سے گزشتہ پندره سالوں
ميں بلامبالغہ درجنوں ملاقاتيں ہوئيں ہيں ہر ملاقات ميں حضرت مسكرا كر بڑے
دلآويز لہجے ميں استقبال فرماتے تھے ۔اور مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو
فرماتے اور سيرحاصل معلومات فراہم كرتے تهے ۔مختلف موضوعات پر لكھنے كى
ترغيب ديتے ،موضوعات متعين فرماتے اور ان عنوانات پر لكھنے كى اہميت بيان
فرماتے ،لكھے ہوئے مسودے كى تصحيح فرماتے اور مختلف اخبارات ورسائل ميں
شائع كرانے كى تلقين فرماتے اور جب کوئی مضمون یا کالم کسی اخبار میں چھپ
جاتاتو اس پر تحسین و شاباش دیتے اور حوصلہ افزائى بهى فرماتے تھے۔ اور
دوسروں سے تعارف بھی کراتے تھے ایک مرتبہ فیصل آباد کے مقامی ہوٹل ميں شیخ
الحدیث حضرت مولانا مفتی محمدزاہد صاحب کی سربراہی میں ايك پروگرام
ہورہاتھا مولانا اس ميں مدعو تھے اور لانے کی ڈیوٹی میری تھی۔ میں نے
مولانا کو فون کیا تو فرمانے لگے جلدی سے گھر آجاؤ امیر شریعت کے بیٹے
مولانا سيدعطاءالمؤمن شاہ صاحب بخارى رحمہ الله میرے گھر تشریف لائے
ہوئےہیں آپکی ملاقات ان سے کراتا ہوں میں جلدی سے پہنچا تو بڑے تپاک سے ملے
خوش ہوئے اور مولانا سے تعارف کرانے لگے، میں پانی پانی ہوگیا ،کافی دیر تک
ميں دونوں بزرگوں کی صحبت سے بہرور ہوتا رہا ۔جب ميرے بڑے بيٹے عزيزم حافظ
محمد سلمہ كا قرآن كريم حفظ مكمل ہوا تو اپنے مادر علمى جامعہ اسلاميہ
امداديہ فيصل آباد كے اساتذه كرام كے ليے جامعہ كے اندر ايك پر وقار تقريب
كا انعقاد كيا گيا ، جس ميں صدر جامعہ حضرت مولانا مفتى محمدطيب صاحب مدظلہ
، نائب صدر جامعہ حضرت مولانا مفتى محمدزاہد صاحب مدظلہ اورديگر اساتذه
كرام نے تشريف لاكرتقريب كو رونق بخشى اور عزيزم كى حوصلہ افزائى
فرمائى۔تقريب ميں بطور مہان خصوصى مولانا مجاہد الحسينى صاحب رحمہ الله كو
دعوت دى گئى تهى حضرت نے نہ صرف دعوت قبول فرمائى بلكہ حضرت نے مختصر جامع
خطاب بهى فرمايا اور اپنى طرف سے عزيزم كو 500 روپے نقد انعام سے بهى
نوازا، اور ڈھير وں دعائيں دے كر ممنون احسان بھى فرمايا ۔28 نومبر 2019 ء
بزوز جمعرات كو حضرت كو دل كا شديد دوره پڑا سول ہسپتال ميں داخل كرايا گيا
۔مجهے دوچار دن بعد پتہ چلا تو بہت افسوس ہوادل سے حضرت كى صحت اورشفايابى
كے ليے دعا نكلى ،جامعہ كے نائب صدر حضرت مولانا مفتى محمدزاہد صاحب كو
اطلاع دى انہوں نے بهى بہت افسوس كا اظہار كيا ۔3 دسمبر 2019ء كو حضرت كى
عيادت كے ليے مفتى محمد زاہد كى معيت ميں سول ہسپتال پہنچا ،حضرت نے حسب
عادت مسكرا كر استقبال كيا ،حضرت كى آواز اور گفتگو سے قدر ے كمزورى اور
نقاہت توصاف محسوس ہورہى تهى ليكن آواز كا بانكپن اورگفتگو كا تسلسل پہلے
كى طرح رواں تها ۔تقريباً آدها گھنٹہ ہم حضرت كے پاس بيٹھے رہے حضرت ہى
گفتگو فرماتے رہے ۔گفتگو كا موضوع تحريك ختم نبوت ،اتحاد ملى اور اپنے
استاد محترم مولانا خير محمد جالندهرى رحمہ الله كا تذكره خير تها ۔ حضرت
كى صحت كے ليے دعا كر كے ہم نے حضرت سےاجازت چاہى ،سلام ومصافحہ كر كے ہم
رخصت ہوئے۔ ہميں كيا معلوم تها كہ يہ حضرت سےبالمشافہ ہمارى آخرى ملاقات ہے
اور حضرت ہم سےہميشہ ہميشہ كے ليےجدا ہونے والے ہيں ۔10 دسمبر 2019ء كو
مفتى محمد زاہد صاحب نے فون كيا كہ جامعہ الرشيد كراچى سے مولانا عبد
الودود صاحب حضرت سے ملنا چاہتے ہيں۔ ميں نےحضرت كو فون كيا ،سلام دعا كے
بعد صحت كے متعلق پوچها تو فرمانے لگے، پہلےسے كافى بہتر ہے۔يہ ميرى
ٹيلىفون پر حضرت سے آخرى ملاقات تهى ۔بظاہر آواز اور بات چيت سے حضرت كى
صحت بہتر معلوم ہو رہى تهى۔ ذہن ميں يہى تها كہ حضرت ان شاء الله جلد صحت
ياب ہوكر اپنے گهر واپس تشريف لائيں گے اور اب تفصيلى ملاقات گهر پر ہى ہو
گى، ليكن دل كے ارمان دل ہى ميں رہے اور حضرت ہم سب كو غم زده كر كے اپنے
آخرت كے سفر پر روانہ ہو گئے ۔اور يہ حقيقت ہے كہ قضاوقدر كے فيصلوں كو كون
ٹال سكتا ہے اور كس ميں اسكى ہمت ہے۔چنانچہ17دسمبر2019ء بروزمنگل فجر كى
نماز اور درس سے فارغ ہوكرجيسے ہى گهر پہنچا تها تو فون پر اطلاع ملى كہ
حضرت آج على الصباح دار فانى سے دار البقاء كى طرف منتقل ہو گئے ہيں فوراً
مولانا مفتى محمد زاہد كو فون كيا ان كو اطلاع دى پهر مفتى صاحب كى معيت
ميں حضرت كے گهرتعزيت كے ليے حاضرى دى ، صاحبزاده محمد ابوبكر صدر صاحب اور
گهر كےديگر افراد واحباب سے تعزيتى كلمات كہے۔ مولانا كے جسد خاكى كى اسى
بيٹھك ميں زيارت ہوئى جہاں درجنوں دفعہ مولانا نے مسكرا كر ہمارا استقبال
كيا تھا آج ايك اور منظر ہمارےسامنے تها ۔دھڑكتے دل اور نمناك آنكھوں كے
ساتھ حضرت كے ماتھے پر ہاتھ ركھا اور انالله پڑھا ۔۔الله تعالى حضرت كى
تربت پر كروڑوں رحمتيں نازل فرمائے اورجنت ميں مقامات عاليہ سے سرفراز
فرمائے۔آمين
|