ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ہرکام کی ذمہ داری لے رکھی ہے،
سوائے اس کام اورذمہ داری کے جودراصل ہمارے ذمہ ہے اورہمارا فرض ہے۔ہم میں
سے ہرایک نے معاشرتی برائیوں کی نشاندہی بھی کرنی ہے،ان کوٹھیک کرنے کے لئے
خودی حکم بھی صادرکرناہے،پھراس پرزبردستی عمل بھی کرواناہے،اخلاقیات
اورمعاشرتی ذمہ داریوں پر بھی درس دیناہے،یہ رائے بھی قائم کرنی ہے کہ
دوسرے لوگ مذہب پرکس حدتک کاربندہیں، دوسروں کے جنتی اورجہنمی ہونے کافیصلہ
بھی صادر کرناہے،خارجہ پالیسی پربھی بحث کرنی ہے۔ معیشت کے مسائل سلجھانے
کی تدابیر سے بھی آگاہ کرنا ہے،ہمارا یہ حال کسی ایک شعبے کے لوگوں تک
محدودنہیں بلکہ اکثریت کا یہی حال ہے۔عوام سے لے کرخواص تک بدتربیتی،بدنظمی
اوربدتہذیبی،نہ کوئی سمت ، نہ کوئی منزل۔
ہم ہرآنے والی حکومت سے تبدیلی کی شدید خواہش رکھتے ہیں، ہمیں ہرمسئلہ
کافوری حل درکارہے،خودکچھ نہیں کرنا بس حکومت سے توقع لگائے رکھنی ہے۔لیکن
حقیقی تبدیلی تو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے،بحیثیت قوم کیا ہم اپنی ذمہ داری
نبھا رہے ہیں۔صرف اس بات کودیکھ لیں،ہماری ذمہ داری ہے ہم اپنے بچوں
کامستقبل تاریک ہونے اورانہیں عمربھر کی معذوری سے بچائیں۔آج بھی بچوں کے
پولیوکے شکارہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ملک میں دو کروڑ بچے ا سکولوں
سے باہرہیں،انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکولوں میں داخل کروانا ہماری
ذمہ داری ہے۔ ایسا کام جس کاتعلق ہماری ذات سے ہیں اوراس میں ہماری نسلوں
کافائدہ ہے،اس کے لئے بھی حکومت کو باقاعدہ مہم کا آغاز کرنا پڑتا ہے،جس کے
لئے وسائل کے استعمال اورمہم کی کامیابی کے لئے بہت بڑا سرمایہ خرچ ہوجاتا
ہے،باوجوداس کے کہ اس میں ہمارااپنا فائدہ ہے۔بچے کسی بھی قوم کا مستقبل
ہوتے ہیں،ان کی تعلیم اورسکولوں میں ان کا داخلہ یقینی بنانے،بچوں کومعذوری
سے بچانے کے لئے پولیو کے قطرے پلانے میں ہمیں خودسے کوشش کرنی چاہیے ،اسی
طرح تیزی سے بدلتے موسموں اورفضاء میں پھیلتی آلودگی سے پیداہونے والی
پیچیدگیوں سے کون آگاہ نہیں۔
گلی کوچہ میں گندگی پھیلانے سے تعفن اوربیماریاں پھیلتی ہیں، کوڑے کرکٹ کے
لئے مخصوص احاطہ یا کنٹینرمیں پھینکنے کی بجائے اپنے گھرسے باہرہمسائے کے
گھرکے سامنے یا بہت کیا توکہیں نزدیک ترین جگہ جہاں دل کرے گندپھینک دیتے
ہیں۔ اسی لئے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیرنظرآتے ہیں،جوتکلیف اورخطرناک بیماریوں
کے پھیلنے کا موجب بنتے ہیں۔بازاروں میں ناجائز تجاوزات سے راستہ تنگ ہونے
کی وجہ سے ٹریفک جام رہتی ہے ،جس سے پیدل چلنے والوں کومشکلات کا سامنا
ہوتا ہے اورحادثات پیش آنے سے لڑائی جھگڑے تک نوبت آجاتی ہے۔بجلی چوری قومی
جرم ہے،اس سے محکمہ اورقوم دونوں کانقصان ہے، لیکن اس بات کی کسے
پرواہ،ہرکوئی اپنی دھن میں مست ہے کہ جوکچھ، وہ کررہاہے ،خیرہے،کچھ نہیں
ہوتا،اتناتوہرکوئی کرتاہے،اس سے کیا ہوجائے گا،ہم سے کوئی بازپرس نہ
کرے،لیکن جو دوسرے اس سے ملتا جلتا کررہے ہیں وہ غلط اورنقصان دہ ہے۔حکومت
کوچاہیے اس کافوری ایکشن لے اوراس مسئلہ کا سدباب کرے۔ہم میں سے ہرایک کی
آخری اورحتمی بات یہ ہوتی ہے، کہ حکمران عوام کی زندگیوں میں آسانیاں
اورسہولتیں لانے میں مخلص نہیں۔ہمارے معاشرے کی عادت ہے ہم دوسروں میں عیب
تلاش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کونہیں سدھارتے،ضابطے اورقانون کی مکمل عملداری
قائم رکھنے کے لئے ہرفردکی ذمہ داری ہے۔
ہم مثالی معاشرہ کے خواہشمندہیں،لیکن انفرادی سطح پراس کے بالکل برعکس ،ہم
ایک دوسرے کے لئے مسائل پیداکرنے میں عارنہیں سمجھتے،ہماری انفرادی خامیاں
اس قدر حاوی ہیں کہ ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ
دوسرے آگے بڑھیں اور ڈوبتی کشتی کوبھنورسے نکالیں۔شیکسپیئرنے کہا تھا ، کہ
"زندگی ایک سٹیج ہے"اس سٹیج پراپنے کردارکوپہچانیں،اسے قبول کریں اوربخوبی
انجام دیں۔کامیابی ہم سے محنت،اپنے مقصدسے مکمل وابستگی اور استقلال کا
مظاہرہ کرتی ہے۔اگرہم چاہتے ہیں ہم کامیاب ہوں،ہماراملک کامیاب ہو اورہم دن
بدن ترقی کریں توسب سے پہلے ہمیں اس امرکویقینی بنانا ہوگا کہ اپنے
کرداراور ملک کے ساتھ مخلص رہیں، ہمیں ایمانداری اورسچائی کے ساتھ اچھے
طریقہ سے اپنی ذمہ داری اداکرنی ہوگی،ہم سب اپنا کرداردیانتداری سے
اداکریں۔بے شک ہمارا دائرہ اختیار محدودہی کیوں نہ ہو۔اگرہم بحیثیت مجموعی
اپنی چھوٹی چھوٹی خامیوں اورکمزوریوں کوسمجھ لیں،بس ذراسا احساس اوراحتیاط
کریں،اپنے دائرہ کاراوردائرہ اختیارتک خلوص نیت سے معاشرے میں بہتری کی
کوشش کریں ،ایک دوسرے کے لئے مددگار ومعاون بنیں،توآدھے سے زیادہ مسائل
مقامی سطح پرہی حل ہو جائیں ، زندگی بہت آسان اورسہل ہوجائے۔
|