دسمبر کے دوسرے ہفتے میں جہاں وطن عزیز میں سردی کی شدت
میں اضافہ ہوتا ہے وہیں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں دو قسم کی
تقریبات کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے مسیحی برادری کی جانب سے کرسمس
تقریبات کا سلسلہ دسمبر کے وسط سے ہی زور پکڑجاتا ہے جو پچیس دسمبر کو
کرسمس کے حوالہ سے کی جانے والی عبادات سے عروج پر پہنچتا ہے پوری دنیا میں
مسیحی برادری کرسمس سے نئے سال کی آمد تک خوشیوں کا ہفتہ بھر پور طریقہ سے
مناتی ہے وطن عزیز پاکستان میں بھی مسیحی برادری کو اپنی مذہبی رسومات اور
عبادات کی مکمل آزادی حاصل ہے آئین پاکستان میں بھی اقلیتوں کے حقوق کی
ضمانت دی گئی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ تمام سرکاری ملازمتوں میں بھی اقلیتوں کو
مناسب کوٹہ دیا گیا ہے قیام پاکستان سے لے کرتا دم تحریر مسیحی برادری نے
ملکی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار سرانجام دیاہے چند ایک شخصیات کا ذکر
کرتا چلوں سیسل چودھری،چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس،شہباز بھٹی، ایرک
گورڈن ہال، محترمہ اندومٹھا، نامور مصور کولن ڈیوڈ، جے سالک، ماہر تعلیم
میرا فیلبوس اور پرم روز میتھیو، سمیوئیل مارٹن برق، آئی جی دلشاد نجم
الدین، عاشر عظیم، ذیشان لبھا مسیح، پروفیسر سلامت اختر، فادر عنایت
برنارڈ، رولینڈ ڈیسوزا، نذیر فقیر، کولن ڈیوڈ، وائس متھائس، موہنی حمید،
آئرن پروین، ایڈووکیٹ عمانویل ظفر، گلوکار سلیم رضا،جرمنی سے آکر پاکستان
میں سماجی شعبہ میں خدمات فراہم کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤاور بے شمار نام
ہیں جنھوں نے وطن عزیز پاکستان کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار
لاتے ہوئے ملک کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی خدمت میں پیش پیش رہے
،سانچ کے قارئین کرام! راقم الحروف کو اپنے ضلع اور شہر میں مسیحی برادری
کی جانب سے منعقدہ تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں مجھے اظہار خیال کا
موقع بھی ملتا ہے ایسی تقریبات میں جانے کا واحد مقصد مسیحی برادری کے ساتھ
اظہار یکجہتی ہوتا ہے دین اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے اور ہمارا فرض
اولین ہے کہ اﷲ تعالی کے احکامات اور پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کے
مطابق اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھیں ،قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے
’’اﷲ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے)
میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ
تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور ان سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اﷲ
عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے
حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اس
فرمان سے ہوتا ہے’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
گزشتہ روزسول سیور فار کرائسٹ چرچ اوکاڑہ کے زیر اہتمام ڈسیپ آرگنائزیشن کے
تعاون سے مسیحی مستحق بیوہ خواتین میں امدادی رقم تقسیم کرنے کی پروقار
تقریب کا انعقاد کیا گیا جسکے مہمان خصوصی معروف سماجی شخصیت میاں
عبدالرشید بوٹی تھے جبکہ مہمان اعزاز راحیل جولین اورسماجی تنظیم ماڈا کے
صدر/جرنلسٹ راقم الحروف تھے ، پاسٹر عبید کرامت نے مہمانان گرامی کاشکریہ
ادا کرتے ہوئے کہا کہ غریب مستحق بیوہ خواتین کو امدادی چیک تقسیم کرنے کا
مقصد انہیں کرسمس کی خوشیوں میں شریک کرنا ہے تقریب میں 100سے زائد مسیحی
بیوہ خواتین میں امدادی رقم تقسیم کی گئی پاسچر عبید کرامت نے ڈسیپ
آرگنائزیشن کی جانب سے مسیحی برادری کے لیے کیے گئے اقدامات کی تعریف کرتے
ہوئے کہا کہ اس طرح کی تقریبات کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے ، راقم الحروف
نے کہا کہ حکومت اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے جو
ااقدامات کر رہی ہے وہ قابل تعریف ہیں بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے کوششیں
جاری رہنی چاہیں وطن عزیز پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مسیحی برادی نے اپنا
بھرپور کردار اداکیا،تقریب کے اختتام پر مسیحی بیوہ خواتین کے ساتھ ملکر
مہمانان میاں عبدالرشید بوٹی ، راقم الحروف (محمد مظہررشید چودھری )، پاسٹر
عبید کرامت، راحیل جولین نے کیک کاٹا اور وطن عزیز پاکستان کی سلامتی امن و
امان کے لیئے خصوصی دعا کی گئی۔ سٹی پریس کلب (رجسٹرڈ) اوکاڑہ کے زیر
اہتمام بھی کرسمس کیک کاٹنے کی بھی تقریب منعقد ہوئی جس میں سینئر صحافیوں
سمیت مسیحی رہنماوں نے شرکت کی، سٹی پریس کلب (رجسٹرڈ) کے سیکرٹری اطلاعات
ارشد جاوید سے اظہار یکجہتی کے لیے پریس کلب کے ممبران کی جانب سے کرسمس کا
کیک کاٹا،معروف مسیحی رہنما پادری وقاس معظم مہمان خصوصی تھے،سانچ کے
قارئین کرام!اب بات ہو جائے برصغیر کے عظیم رہنما کی جسے دنیا قائد اعظم
محمدعلی جناح کے نام سے جانتی ہے آپ کا یوم پیدائش بھی پچیس دسمبر کو منایا
جاتا ہے آپ بانی پاکستان ہیں ،پہلے آپکو اس بڑے لیڈر کی اقلیتوں کے حوالہ
سے کی گئی ایک تقریر کا کچھ حصہ بتاتا چلوں پھر بات کریں گے کہ کیا ہم قائد
کے پاکستان کو اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنا سکے ہیں ،قائد اعظم محمد علی
جناح نے ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم
الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و
بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہیے خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب ،اگر
آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت
اور اقلیت، صوبہ پرستی اور فرقہ بندی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ
جائیں گی "اب بات ہوجائے کہ کیا آج کا پاکستان قائد اعظم کے تصورات اور
نظریات کے مطابق ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہیں ،گزشتہ تین دہائیوں
سے کرپشن نے وطن عزیز کے ہر شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے کرپشن کی وجہ سے
امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے راتوں رات زندگی کی آسائشات
حاصل کرنے کی دوڑ نے کرپشن کے وہ طریقے ایجاد کردیے ہیں کہ کھانے پینے کی
اشیاء سے لے کر جدید سہولتوں سے آراستہ دفاتر میں بننے والے بڑے بڑے
پراجیکٹ میں ایسے ایسے طریقہ سے کرپشن اختیار کی جاتی ہے کہ قانون اور
اینٹی کرپشن کے حوالہ سے بنائے گئے ادارے بھی کرپٹ لوگوں پر لگے الزامات کو
سچ ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں جس وجہ سے کرپٹ عناصر کے خلاف کی جانے
والی کاروائیاں چند ماہ یا سال کے بعدختم ہوکر انہیں بے گناہ اور لوگوں میں
مقبول بنا دیتی ہیں اور کرپٹ شخص اِس ناجائز دولت سے معتبر بن کر معاشرہ کا
حصہ بن جاتا ہے قائد اعظم پاکستان کو عظیم اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانا
چاہتے تھے جس میں ہر خاص وعام اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیئے
انصاف، امن وامان اور بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی ہو، مگر ہم قائد کی وفات
کے بعد انکے خوابوں کا پاکستان نہ بنا سکے خاص طور پر کرپٹ سیاسی نظام نے
عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا قائد اعظم محمد علی جناح کی دست راست
چھوٹی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک اقتدار کے رسیا افراد نے
کیا وہ سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے انیس سواسی کے بعد منشیات جیسی لعنت نے
جہاں وطن عزیز کے لاکھوں نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں اِس مکروہ
کاروبار سے منسلک افراد نے راتوں رات عیش وعشرت والی زندگی گزارنے کے لیے
دولت کے انبار لگائے ناجائز زرائع سے کی گئی کمائی سے وہ افراد معاشرہ میں
قابل عزت اورسخی کہلائے ایسے افراد نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں کرپشن کو
متعارف کروایا ،دولت کمانے کی ہوس نے اچھے برے کی تمیزکو ختم کر دیا آج کا
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصورات اور نظریات سے مختلف نظر آتا ہے
چند شعبوں کی ترقی کے اثرات بنیادی سہولتوں سے محروم طبقہ کی زندگی میں
کوئی تبدیلی نہیں لا سکے وطن عزیز کی تعمیر وترقی خاص طور پر عام شخص کی
فلاح وبہبود کے لیئے آج ہمیں پھر سے اْنیس سو سنتالیس والے جذبے کو زندہ
کرنا ہوگا جب قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی
اسلامی مملکت وجود میں آئی تھی ،قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ مجھ سے
اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں
پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13
سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمداﷲ قرآن
مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔ (مسلم
اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس سے خطاب 12جون 1947)٭٭٭
|