کسی گائوں میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ اسے سب ’کاکی‘
کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ غریب اور بے سہارا تھی۔ وہ اپنے گزر بسر کے لئے پاپڑ
بناکر فروخت کرتی تھی۔ ا س نے سوچ رکھا تھا کہ اس دفعہ جب گائوں میں میلہ
لگے گا تو ڈھیر سارے پاپڑ بناکر بیچوں گی۔ اس لئے وہ پاپڑ بنانے میں لگ گئی۔
جب پاپڑ بن کر تیار ہوگئے تو اس نے انہیں دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھ دیا۔
دن بھر کام کرنے کی وجہ سے وہ بہت تھک گئی تھی۔ اس لئے بستر پر لیٹتے ہی
نیند آگئی۔ شام ڈھلے اس کی نیند ٹوٹی تو اسے خیال آیا کہ پاپڑ تو دھوپ
میں سوکھنے کے لئے رکھے تھے۔ کہیں اوس میں اب تک گیلے نہ ہوگئے ہوں۔ وہ
ہڑبڑاکر آنگن میں آئی تو وہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ آدھے سے
زیادہ پاپڑ غائب تھے اور جو تھوڑے بہت تھے وہیں ٹوٹے اور بکھرے ہوئے پڑے
تھے۔ یہ منظر دیکھ کر اسے رونا آگیا۔ تبھی اچانک ایک کوّا آنگن کی دیوار
پر آکر بیٹھا اور کائوں کائوں کرنے لگا۔ اس کی آواز سن کر ’کاکی‘ نے کوّے
کی طرف دیکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کوئوں کا ایک جھنڈ آگیا۔ کاکی سمجھ گئیں
کہ یہ انہیں کوئوں کی شرارت ہے۔
وہ دکھی ہوکر بولی ’’اے کوئوں! تم نے میری ساری محنت مٹی میں ملادی۔‘‘
کاکی کی بات سن کر کوئوں پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ سارے کوّے اڑ گئے۔ مگر ان
میں سے جو شرارتی کوّا تھا، وہ وہیں بیٹھا رہا۔ یہ نظارہ پاس کے پیڑ پر
بیٹھی کوئل دیکھ رہی تھی۔ اسے کاکی پر بہت ترس آیا۔ وہ کوّے کے پاس جاکر
بولی’’کوّے بھائی! کچھ تو سوچو، تم ایک مجبور بوڑھی کو کیوں ستاتے ہو؟
تمہیں معلوم نہیں جن پاپڑوں کو تم نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر برباد کیا
ہے، وہ انہیں بیچنے لے جاتیں۔ بیچاری کی روزی روٹی کا ذریعہ یہی پاپڑ تھے۔
ذرا سوچو وہ اب کیا کریں گی؟‘‘
کوئل کی بات سن کر کوّے کو غصے آگیا۔ وہ بولا ’’چل ہٹ یہاں سے۔ بڑی آئی
کاکی کی طرف داری کرنے والی! اپنی یہ نصیحت کسی اور کو سنانا۔ میں تو یہی
کروں گا۔‘‘
کوّے کی بات سن کر کوئل نے ایک بار پھر اسے سمجھاتے ہوئے کہا ’’اگر تمھیں
بھوک لگے تو ایک یا دو پاپڑ لے کر کھالیا کرو۔ اس طرح کسی کا نقصان کرنا
اچھی بات نہیں ہے۔‘‘
کوئل کوّے کو سمجھاکر گھونسلے میں لوٹ آئی۔ مگر اسے ڈر تھا کہ یہ کوّا پھر
سے یہی حرکت کرے گا۔ وہ سوچنے لگی میں کس طرح اس کوّے کو، کاکی کا نقصان
کرنے سے روکوں؟
اگلی صبح وہ کھانے کی تلاش میں جیسے ہی گھونسلے سے باہر آئی۔ اس نے دیکھا
کاکی پاپڑ بناکر سوکھنے کے لئے آنگن میں رکھ رہی تھیں۔ ’’اے میرے رب! اب
کیا ہوگا؟ کہیں وہ کوّا پھر سے آگیا تو؟ نہیں نہیں۔ اس دفعہ میں کاکی کے
پاپڑوں کی رکھوالی کروں گی۔ انہیں برباد نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ یہ سوچ کر وہ
جلدی سے آنگن کی دیوار پر آکر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہی شرارتی کوّا
پھر آگیا اور جیسے ہی اس نے پاپڑ کا ٹکڑا اٹھایا، کوئل نے زور زور سے شور
مچانا شروع کردیا۔ کوئل کی آواز سن کر کاکی گھر سے باہر آگئیں اور کوّے
کو دیکھتے ہی اس کی طرف دوڑیں۔ ڈر کے مارے کوّے کی چونچ سے پاپڑ کے ٹکڑے
چھوٹ کر زمین پر گر پڑے اور چکناچور ہوگئے۔ یہ دیکھ کر کوئل کی خوشی کا
ٹھکانہ نہ رہا۔ اب وہ کوّا جب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ پاپڑوں کو برباد
کرنے آتا، کوئل شور مچا دیتی۔ کاکی باہر آجاتیں اور کوئوں کو مار
بھگاتیں۔ اس طرح پاپڑ برباد ہونے سے بچ جاتے۔
گزرتے وقت کے ساتھ کاکی سمجھ گئیں کہ کوئل ان کی مدد کرنے آئی ہے اور پھر
ایک دن ایسا آیا کہ کاکی نے اس کوئل کو اپنے پاس رکھ لیا۔ کوئل کی رکھوالی
کی وجہ سے کاکی کے پاپڑ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوچکے تھے۔ اس سے ان کی خوب
آمدنی ہونے لگی اور کاکی کوئل سے بہت پیار کرنے لگیں۔
کوئل کی وفاداری کا قصہ پورے گائوں میں پھیل گیا۔ کاکی، کوئل کو ’’رن جھن‘‘
کہہ کر پکارنے لگے۔ ادھر اس شرارتی کوّے کے بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی۔ اسے
اپنی غلطیوں کاا حساس ہوا۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا، کاش میں نے کسی
مجبور کو نہ ستایا ہوتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اگلے دن وہ چپکے سے کاکی کے گھر آیا تو دیکھا کہ کوئل بڑے آرام سے بیٹھ
کر کھانا کھارہی ہے۔ اچانک اس کی نظر کوّے پر پڑی تو حیران رہ گئی۔ بولی ’’
ارے کوے بھائی! تمہیں کیا ہوگیا؟ تم اتنے کمزور کیسے ہوگئے؟ کیا بیمار
ہو؟‘‘
کوئل کی بات سن کر کوّا بولا ’’نہیں بیمار تو نہیں ہوں لیکن دانے دانے کو
ترس گیا ہوں۔ کھانے کی تلاش میں سارا دن مارا مارا پھرتا رہتا ہوں۔ کئی دن
پیٹ بھر کھانا نہیں ملا ہے۔ میں اپنے کئے پر بہت پچھتارہا ہوں۔ بس تم کسی
طرح کاکی کو منا لو وہ مجھے مارنے نہ دوڑیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں پاپڑ
برباد نہیں کروں گا۔ اتنے ہی پاپڑ اٹھائوں گا جتنی بھوک ہوگی۔‘‘
کوّے کی بات سن کر کوئل کو اس پر ترس آگیا۔ اس نے کوّے سے کہا ’’اچھا ٹھیک
ہے۔ تم تھوڑے سے پاپڑ اٹھاکر کھالیا کرنا۔ برباد مت کرنا۔ میں کاکی کو منا
لوںگی۔‘‘
کوئل کی بات سن کر کوّا بہت خوش ہوا۔ وہ پاپڑ کا ایک ٹکڑا لے کر اڑ گیا اور
ایک پیڑ کی ڈال پر بیٹھ کر مزے لے لے کر کھانے لگا۔
اب دیکھئے آگے کیا ہوا؟ ایک دن بہت تیز بارش ہورہی تھی۔ کوئل اپنی سریلی
آواز میں کاکی کا دل بہلارہی تھی۔ تبھی اچانک کاکی کی نظر آنگن کی دیوار
پر گئی۔ اس پر شرارتی کوا اداس بیٹھا بھیگ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر کاکی نے
کہا ’’کیوں کوّے راجا! آج خاموش کیوں بیٹھے ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی
شرارتوں پر پچھتارہے ہو۔ اگر ایسا ہے تو کوئی بات نہیں۔ صبح کا بھولا اگر
شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ مگر آج میں تم سے جو بھی
کہوں اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ شرارت وہی کرو جس سے کسی کا نقصان نہ ہو۔ جانتے
ہو ایک عظیم شخصیت کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے کیونکہ میں نے
کبھی کسی کا بُرا نہیں کیا۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ پیچھے سے کوئل کی آواز آئی ’’کاکی! وہ کون تھا؟‘‘
کاکی نے مسکراکر جواب دیا ’’مہاتما گاندھی!‘‘
’’سچ!‘‘ کوئل چہک کر بولی۔
یہ بات سنتے ہی کوّے نے اب شرارت نہ کرنے کی ٹھان لی اور پھر دور وادیوں
میں اڑ چلا۔ اس احساس کے ساتھ کہ ’’اے میرے رَب! بھولے سے بھی اب مجھ سے
کوئی ایسی شرارت نہ ہو جس سے کسی کا دل نہ دکھے۔‘‘ ختم شد |