شاہ میر جب گھر میں داخل ہوا تو اس وقت رات کے گیارہ بج
چکے تھے۔ مین ڈور کا دروازہ بند کرتا وہ جیسے ہی مین لاؤنج میں داخل ہوا تو
اپنے والد اور والدہ کو لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے دیکھا۔ صفدر صاحب بیٹے کو
دیکھ کر ایک دم اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اور تیزی سے اس کی طرف بڑھے تھے۔
"کہاں تھے تم؟ "
"ایک دوست کی طرف چلا گیا تھا۔"
"اتنی دیر ۔۔۔۔ فون کیوں آف رکھا تھا تم نے؟"
"ڈیڈ بیٹری ڈید ہوگئی تھی ۔۔۔۔ (بہانہ بنایا تھا )."
"تمہیں اپنی بیوی کا کچھ خیال بھی ہے؟'
"کیا مطلب ۔۔۔۔۔ میں سمجھا نہیں؟"
"سمجھے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔" ثریہ بیگم اس دفع طنزیہ بولیں تھیں۔ تو
چونک کر ماں کو دیکھا تھا۔ جو کڑے تیوروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ماں کے اس
طرح سے دیکھنے پر گڑبڑا سا گیا تھا۔ اُن کی آنکھوں میں اس کے لیے ایک عجیب
سی تپش تھی۔ وہ ان کی نگاہوں کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ تیزی سے اپنے
کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
"رکو! وہاں کہاں جا رہے ہو۔"
"جی ۔۔۔۔ اپنے کمرے میں ۔۔۔ اور کہاں جاؤنگا۔"
"نہیں میر.. تم اس وقت میرے ساتھ چل رہے ہو۔" صفدر خان بولے تو چونک کر
انہیں دیکھا تھا۔
"ٹھیک جو حکم ۔۔۔۔ بٹ سر.. مجھے بتانا پسند کرینگے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں
؟"
"ہاسپٹل۔" وہ بولے تو وہ چونکا تھا۔
××××××××××××
وہ چپ چاپ بستر پر پڑی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو نرس نے ڈرپ دوسری
لگائی تھی۔ اس کے ٹیسٹ رزلٹس اچھے نہیں آئے تھے۔ اسے اسٹروک ہوا تھا۔ وہ یہ
بھی جان گئی تھی اس کا مسکیریج ہوا ہے۔ اسے تو اپنی پریگننسی کی بھی خبر
نہیں تھی۔ شاہ میر نے اسے اتنا جسمانی اور ذہنی ٹارچر کیا تھا کہ وہ کچھ
بھی اچھا سوچ بھی کیسے سکتی تھی۔ سب اس کے اپنے آس پاس ہی تھے. مگر اس
ساؤنڈ پروف کمرے میں اس کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا رہا کوئی بھی تو نہیں جان
سکا۔ یہ تو اللہ کی مہربانی تھی کہ اتفاقاً ثریہ بیگم نے اپنے بیٹے کو وہ
سب کچھ کہتے سن لیا ورنہ شاید یہ سلسلہ یونہی چلتا اور وہ بھی اپنے دکھ اور
تکلیف کو اپنی ہنسی کے پیچھے چھپائے رکھتی۔ اس کی نظریں چھت پر ٹکی ہوئی
تھیں۔ اسے مزید اسٹریس لینے سے کچھ بھی ایسی بات سوچنے سے ڈاکٹر نے منع کیا
تھا۔ مگر شاہ میر کے ساتھ گزرے پل اس کی ذہن کی اسکرین پر چل رہے تھے۔ اور
آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے گالوں کو بھگوتے ہوئے سفید تکیئے میں
جذب ہورہے تھے۔ شفق بیگم اس کے قریب رکھے صوفہ کم بیڈ پر بیٹھی قرآن پڑھ
رہی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھ بھی لیتیں۔ اس
کا چہرا اسٹروک کی وجہ سے کچھ بگڑ سا گیا تھا۔ اسی وقت دستک ہوئی تھی
دروازے پر۔
"آجائیں ۔۔۔ کون..؟"
دروازہ کھول کر صفدر صاحب اندر داخل ہوئے تھے اور ان کے پیچھے شاہ میر نے
اندر قدم رکھے تھے۔
"السلام علیکم! بھائی صاحب۔"
"وعلیکم السلام ہماری بیٹی اب کیسی ہے؟ ۔۔۔۔ (شفق بیگم کو جواب دیتے ہوئے
اس کی طرف آئے تھے اور بہت پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔ تو وہ
انہیں روتے ہوئے دیکھنے لگی)۔"
"ارے یہ کیا بھئی ۔۔۔ میری بیٹی تو بہت بہادر ہے ناں ۔۔۔ شاباش روتے نہیں
۔۔۔ دیکھو تو کون آیا ہے میرے ساتھ۔" انہوں نے یہ بولتے ہوئے پلٹ کر شاہ
میر کو اشارہ کیا تھا قریب آنے کا تو وہ جھجکتا ہوا اس کے بیڈ کے قریب آکر
کھڑا ہوگیا تھا۔ مگر اسے اس حال میں دیکھ کر ایک عجیب سی کراہت آئی تھی۔
حسین چہرہ بھیانک ہوچکا تھا۔ یہ وہ حنین نہیں تھی جسے اس نے بھیا جانی سے
چھینا تھا۔ یہ تو کوئی بدصورت اور کراہت انگیز چہرہ تھا۔ وہ خوبصورتی کا
دلدادہ تھا۔ معمولی شکل صورت کے لوگوں سے دوستی تو کیا دیکھنا بھی پسند
نہیں کرتا تھا۔ اور حنین تو اپنی خوبصورتی کھو چکی تھی۔ وہ اسے کراہت سے
دیکھ رہا تھا اور حنین کی طبیعت اسے دیکھ کر بگڑنے لگی تھی۔ اس کی آنکھوں
میں ایک عجیب سا خوف ہلکورے لینے لگا تھا۔ اور اچانک ہی اس نے جھٹکے کھانے
شروع کردیے تھے۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر سوائے شاہ میر کے دونوں ہی گھبرا
گئے تھے۔ شفق بیگم نےفوراً ہی کمرے میں رکھا کارڈلیس اُٹھا لیا۔ اور مین
نرس کا نمبر ڈائل کرنے لگیں۔
"ہیلو ۔۔۔۔ پلیز میری بیٹی کی طبیعت بگڑ رہی ہے ۔۔۔ روم نمبر تھری او فائیو
ہری اپ پلیز۔"
صرف پانچ منٹ میں ہی ڈاکٹر اور نرسز روم کے اندر داخل ہوچکے تھے۔
**************
سلمان جب گھر واپس لوٹے تو اس وقت رات کے بارہ بج چکے تھے۔ سارا دن تو ان
کا ہاسپٹل میں ہی گزر گیا تھا۔ مین ڈور کھول کر جیسے ہی گھر کے اندر قدم
رکھا تو سامنے ہی ثریہ بیگم کو نڈھال انداز میں صوفے پر بیٹھے دیکھ کر
چونکے تھے۔
"ماما خیریت.. آپ ایسے کیوں بیٹھی ہیں؟ ۔۔۔۔ دیکھیں سب ٹھیک ہوجائے گا ۔۔۔۔
آپ فکر نہ کریں۔"
"کچھ ٹھیک ہوتا مجھے تو نہیں لگ رہا ۔۔۔ کیا تمہیں ایسا لگتا ہے کہ سب ٹھیک
ہوجائے گا؟" وہ بولیں تو وہ ایک دم بڑے غور سے ماں کو دیکھنے لگے۔
"انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔۔۔۔ آپ پلیز ٹینشن نہ لیں۔" تو وہ ان کی
تسلی پر ہولے سے مسکرائی تھیں۔
"ایک بات پوچھوں تم سے۔"
"جی کہیں۔"
"تم نے آخر کیا سوچ کر حنین کو اس ظالم کے حوالے کردیا تھا بیٹا؟"
"جی !"
وہ حیرت سے ماں کو دیکھنے لگے۔ ثریہ بیگم نے کبھی ان سے اس طرح کی پہلے بات
نہیں کی تھی۔
"وہ میرا بھائی ہے ماما.. اسے حنین پسند تھی ۔۔۔۔۔شاید اس لیے۔"
"اپنے بھائی کا سوچا.. مگر... حنین کو بھول گئے تم ۔۔۔۔ بیٹا شاہ میر خود
غرض ہے مگر.. تم نے بھی کچھ کم خودغرضی نہیں دکھائی ۔۔۔"
وہ پرشکوہ نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بات سن کر وہ نظریں چرا گئے
تھے۔ ابھی دونوں ماں بیٹا بات ہی کر رہے تھے کہ سلمان کا سیل فون بجنے لگا
تھا۔
"ہیلو ۔۔۔۔۔ جی ڈیڈ.. اوہ! میں آرہا ہوں ۔۔۔ آپ فکر نہ کریں پلیز ۔"
"کیا ہوا؟" وہ بے تابی سے پوچھنے لگیں ۔۔۔۔۔ تو وہ پریشانی سے ماں کو
دیکھنے لگے۔
"حنین کو دوبارہ سے اسٹروک آیا ہے ۔۔۔۔ شی از ان کوما۔"
"اوہ! یا اللہ رحم! ۔۔۔۔۔ مم میں بھی تمہارے ساتھ چل رہی ہوں۔" وہ بولی
تھیں ۔۔۔۔۔
×××××××××
سلمان اور ثریہ بیگم جب وہاں پہنچے تب پتا چلا کہ حنین کو آئی سی یو میں
شفٹ کردیا گیا ہے۔ اس کی حالت کافی کریٹیکل ہوچکی تھی۔ ہارٹ بھی تھرٹی
پرسنٹ کام کر رہا تھا۔ اور ڈاکٹرز کو خدشہ تھا کہ ہارٹ بیٹ اتنی کم ہونے کی
وجہ سے دیگر آرگنز بھی متاثر ہوسکتے تھے۔ شفق بیگم رورہی تھیں۔ زبیر خان
بھی گمسم سے ویٹنگ روم میں بیٹھے تھے۔ صفدر خان کبھی بھائی اور کبھی بھاوج
کو دلاسہ دے رہے تھے مگر ان کے چہرے پر سے چھلکتی پریشانی اور دکھ صاف عیاں
تھا۔ ان سب سے ہوتے ہوئے ثریہ بیگم کی نظر الگ تلگ بیٹھے بےفکری سے چیونگم
چباتے سلمان پر گئی تو غم و غصے نے ان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔
وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی تھیں۔ وہ ماں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر تھوڑا
گھبرا گیا تھا۔ ابھی اٹھنے ہی لگا تھا کہ ثریہ بیگم نے قریب پہنچ کر اسے
ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کردیا۔ اس کے ساتھ سب ہی شاکڈ رہ گئے تھے۔
"ثریہ! یہ کیا کر رہی ہو۔"
"صفدر صاحب! وہی جو بہت پہلے مجھے اور آپ کو کردینا چاہیئے تھا۔"
"مم مما۔"
"چپ! اپنی غلیز زبان سے مجھے ماما مت کہو۔۔۔۔ بے غیرت ۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے
آج حنین کی یہ حالت ہوئی ہے۔۔۔۔ اس پھول سی بچی کا کیا حال کردیا ہے تم
نے۔"
"بھابھی اس میں میر کا کیا قصور۔" ان کی بات سن کر زبیر خان بولے تھے۔ تو
وہ غصے سے میر کو گھورنے لگیں۔
"سارا قصور اسی کا تو ہے ۔۔۔۔۔ اگر یہ ذلیل حنین کو بھاری پرفیوم کی بوتل
کھینچ کر نہ مارتا تو آج نہ حنین کا مسکیریج ہوتا اور نہ یہ حالت ہوتی۔"
وہ سب ایک دم میر کو دیکھنے لگے تھے۔ غم و غصے کے ملے جلے احساسات کے ساتھ۔
زبیر صاحب تیزی سے اس کی طرف بڑھے تھے۔ اور غصے سے اس کا گریبان پکڑا تھا۔
وہ جو ماں کا تھپڑ کھا کر صوفے نما کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا اس نئی
افتاد پر گھبرا اٹھا۔
"کمینے ذلیل ۔۔۔ تو تم تھے حنین کی اس حالت کے زمہ دار ۔۔۔۔۔ بولو کیوں کیا
تم نے ایسا؟ آج میری بچی تمہاری وجہ سے آئی سی یو میں کومے میں پڑی ہے۔" وہ
اس کا گریبان پکڑے اس سے پوچھ رہے تھے۔ صفدر صاحب شرمندگی غم و غصے کے ملی
جلے احساسات کے ساتھ کچھ فاصلے پر خاموش کھڑے اپنے بھائی اور اس کی طرف
دیکھ رہے تھے۔ سخت شرمندہ تھے وہ بھائی سے بھاوج سے اور خاص طور پر حنین سے
جو ابھی ہوش و خرد سے بے گانہ کومے کی حالت میں آئی سی یو میں بے جان لاش
کی طرح پڑی ہوئی تھی۔ میر چپ تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ جو
پلان اس نے حنین کوطلاق دینے کا بنایا تھا وہ کمبخت حنین کی وجہ سے چوپٹ
ہوگیا تھا۔ وہ سارا الزام حنین پر ڈالنا چاہتا تھا مگر اب اُلٹا وہ ہی سب
کی نظروں میں مجرم بن بیٹھا تھا۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ زبیر صاحب
نے غم و غصے کی کیفیت میں اسے تھپڑ مار دیا۔ تھپڑ کھا کر وہ شدید غصے کی
کیفیت میں آگیا تھا۔
"ہاؤ ڈیر یو ۔۔۔۔۔ ہاتھ کیسے اُٹھا یا آپ نے مجھ پر۔"
زبیر صاحب کو غصے سے دھکا دیا تھا اس نے۔ وہ جو اس کا گریبان پکڑے کھڑے تھے
توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر پڑے۔ یہ دیکھ کر صفدر صاحب اور سلمان سخت
تیش میں آگئے تھے۔
"میر ! تمہاری ہمت کیسے ہوئی زبیر چاچا کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی۔" صفدر
صاحب اور سلمان اس کی طرف بڑھے تھے۔
"بہت دیر سے برداشت کر رہا ہوں آپ سب کی بکواس ۔۔۔۔ بٹ ناٹ اینی مور ناؤ
۔۔۔۔ اگر اتنا ہی میں برا ہوں تو ابھی آپ کی چہیتی حنین کو طلاق دیتا ہوں
۔۔۔۔۔ میری طرف سے وہ آزاد ہے۔" وہ بولا تو سب ہی اپنی جگہ کچھ لمحہ تو
شاکڈ کھڑے رہ گئے۔ پھر صفدر صاحب ہی حرکت میں آئے تھے اور اس کی طرف غصے سے
بڑھے تھے تو وہ انہیں بدتمیزی سے دیکھنے لگا۔ سلمان نے زمین پر گرے ہوئے
زبیر صاحب کو اُٹھایا تھا۔
"اگر آپ سمجھتے ہیں کے میں آپ سے ڈر جاؤنگا ڈیڈ اور حنین کو طلاق دینے سے
باز آجاؤنگا تو نیور ۔۔۔۔ میں کبھی بھی اب اس بدشکل حنین کے ساتھ اپنی
زندگی نہیں گزار سکتا۔"
صفدر صاحب جو اس کی طرف غصے سے بڑھ رہے تھے۔ اس کی بات سن کر رک کر کڑے
تیوروں سے بغور اپنے خودسر بیٹے کو دیکھنے لگے۔"
میں بھی اب یہی چاہتا ہوں کہ تم حنین کی زندگی سے نکل جاؤ ۔۔۔۔۔ یہ نہیں
کہونگا کہ میں تمہیں اپنی جائداد سے عاق کردونگا ۔۔۔۔ لیکن یہ ضرور کہونگا
کہ میں تمہیں اپنے خاندان سے نکالتا ہوں ۔۔۔ آج کے بعد ہمارا تم سے کوئی
تعلق نہیں۔"
وہ کچھ لمحے تو انہیں غصیلی نظروں سے گھورتا رہا پھر پیر پٹختا ہوا وہاں سے
چلا گیا۔ صفدر خان لڑکھڑا سے گئے تھے اور دیوار کا سہارا لیا تھا۔ وہ کانپ
رہے تھے۔ سلمان گھبرا کر باپ کی جانب لپکے تھے۔ تو ہاتھ کے اشارے سے انہیں
روکا تھا انہوں نے۔
"میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوا مجھے۔"
×××××××××××××
باقی آئندہ۔۔۔
|