طارق مسعود (مرحوم) کی زبانی تاریخی واقعات قسط نمبر5

کوٹلی کے بعد میں نیپا کورس پر تین مہینے کے کورس پر کراچی چلا گیا ،ٹریننگ کے لئے۔وہاں سے واپس آیا اور پھر میری پوسٹنگ پلندری ہوئی،آٹھ نو مہینے ایس ڈی ایم کی حیثیت سے پلندری رہا،اس کے بعد پروموٹ ہو کر ڈی سی پونچھ لگ گیا،پہلی بار پونے تین سال ڈی سی پونچھ رہا،پھر وہاں سے کسی اور جگہ گیا،پھر پونچھ میں قحط پڑنے کی وجہ سے مجھے دوبارہ وہاں تعینات کر دیا گیا۔مجھے راولاکوٹ لگایا گیا۔قحط میں ہوتا یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ مال پڑا ہوا ہے گھر کے اندراور آج نہیں تو کل مل جائے گاتو تسلی رہتی ہے،اگر آپ کے ذہن میں ہو کہ یہ ملے گا ہی نہیں،مال ہے ہی نہیں،پیچھے سے ہی نہیں آیا،تو نفسا نفسی،مار کٹائی،لاقانونیت شروع ہو جاتی ہے۔مجھ سے پہلے والے ڈی سی نے لوگوں کو خوراک دینے کے لئے کوٹہ مقرر کر دیاتھاکہ دو سیر سے زیادہ نہیں ملے گا،تین سیر سے زیادہ نہیں ملے گا،تو لوگ دو تین سیر لیکر پریشانی میں مبتلا ہو گئے کہ خوراک ہے ہی نہیں،صرف دو تین سیر ہی مل رہا ہے،ختم ہو گیا تو پھر لینے چلے گئے،گورنمنٹ کے پاس دانے ہی نہیں ہیں۔میں نے آنے کے بعد دس پندرہ دن انتظار کرانے کے بعد لوگوں سے کہا کہ جتنا اٹھا سکتے ہو لے جائو۔

سپلائی سائٹ یوں رکھی ہوئی تھی کہ جو ٹرک والے تھے،ان کو پورے پیسے نہیں ملتے تھے،میں نے حکومت سے ایک آرڈر لیا کہ مجھے اختیار دیں کہ میں انہیں چونی فی من دوں گا اور بل ان کے راولپنڈی نہیں جائیں گے ،بل ان کے ڈی سی آفس جائیں گے۔ خوراک کے ڈائریکٹریٹ میں بل دیتے ان کے ہوش ٹھکانے آ جاتے تھے،ہر کوئی پیسے لیتا تھا۔ سپلائی کے ٹھیکیدار سردار یوسف،خواجہ غنی جو،ہم نے حیثیت والے ٹھیکیدار پکڑے،جو پرانے ٹھیکیدار تھے،وہ پیسے والے ٹھیکیدار تھے۔ہم نے یہ بھی کیا کہ خوراک دائیں بائیں نہ جائے،راستے میں چیک ہوتا تھا۔دنوں میں گودام بھرنے شروع ہو گئے،اور لوگوں سے ہم نے کہا کہ کوئی کوٹہ نہیں،جو جتنا لیجا سکتا ہے وہ لے جائے۔اس وقت سڑکیں نہ تھیں،بوری کندھے پر رکھ کر لیجانی پڑتی تھی،یوں ہر شخص اتنا ہی لیتا تھا جتنا وہ اٹھا سکتا تھا۔اس سے بھوک ختم ہو گئی۔

میں اگست1968میں پونچھ کا ڈی سی لگا،یہ ضلع وہ نہیں تھا جو آج ہیں۔باغ،حویلی،کہوٹہ،پلندری،راولاکوٹ یہ ایک ضلع پونچھ تھا۔کوٹلی ،میر پور،بھمبر ایک ضلع تھا۔اس وقت تین ضلع تھے،پونچھ،مظفر آباد ،میر پور۔1971کے شروع میں،میں وہاں سے ٹرانسفر ہو کرمظفر آباد میں ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ متعین ہوا،جو کہ کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔چھ ہی مہینے گزرے تھے کہ قحط شروع ہو گیا۔سلیم صاحب ڈی سی نے میرے متعلق کہا کہ یہ مجھے چاہئیے،تو مجھے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لگا دیا گیا۔میں پونے تین سال پونچھ میں رہا،پھر چھ مہینے مظفر آباد میں لینڈ ریکارڈ،پھر دوبارہ آٹھ نو مہینے قحط کے وقت پونچھ، پھر وہاں سے ڈی سی مظفر آباد لگا۔1973میں ڈی سی مظفر آباد رہا۔پھر پورا ایک سال ڈی سی میر پور۔پھر میر پور سے میں سیکرٹری ٹو پریذیڈنٹ لگا۔یہ میرا تمام کیرئیر ہے۔ جب میں ڈی سی مظفر آباد تھا،میں جب سروس میں آیا تو خورشید صاحب صدر تھے،لیکن جب میں ٹریننگ لے کر واپس آیا تو وہ جا چکے تھے اور خان عبدالحمید صدر تھے۔ خان عبدالحمید کئی سال صدر رہے۔

اس کے بعد 1970کے الیکشن ہوئے۔اس میں سردار ابرہیم،سردار قیوم، کے ایچ خورشید اور شریف طارق چار امیدوار تھے، اور مجھے ابھی تک یاد ہے کہ سردار قیوم کے ووٹ تقریبا ایک لاکھ تہتر ہزار تھے،خورشید صاحب کے تقریبا ایک لاکھ چھیالیس ہزار تھے،سردار ابراہیم صاحب تیسرے نمبر پر تھے۔ اسی لیکشن کے زمانے میں ایک اہم بات یہ تھی کہ ، سردار قیوم پر صدر کی حیثیت میں حملے بہت ہوئے،ان پر تین چار حملے ہوئے انہیں حکومت سے نکالنے کے لئے۔ ایک حملہ یہ ہوا کہ ا جلال حسین چیف سیکرٹری تھے،ان کویہاں بھیجا گیا کہ سردار قیوم کو نکالنا ہے،انہوں نے اسمبلی ممبران کو توڑنا تھا،آج کل یہ بات عام ہے،اس زمانے میں یہ بہت مشکل کام تھا۔حاجی عثمان،چودھری شمس دین (مظفر آباد ) گئے،چودھری غلام بنی انکم ٹیکس کلکٹر تھے،چیف سیکرٹری کے ذریعے خوف ،لالچ سے کئی ممبران خرید لئے گئے،منظر مسعود صاحب نے گھر کے بھیدی کے طور پر اس میں اہم کردار ادا کیا جو اس وقت سپیکر تھے،آخر کار انہیں اس میں کامیابی ملی اور سردار قیوم صاحب فارغ ہو گئے۔

جب1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی لاہور میں،میں سردار قیوم کی باتیں اس لئے زیادہ کر رہا ہوں کہ تھے ہی سردار قیوم،پھر میں نے بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے ساتھ زیادہ وقت لگایا،سردار سکندر حیات خان کے ساتھ بھی رہا۔اسلامی سمٹ میں پالیسی یہ تھی کہ کشمیر کیس کے اس موقع پر جتنا زیادہ اٹھایا جا سکتا ہے،اٹھایا جائے،کسی طرح ان تک بات پہنچ جائے کہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے۔مسئلہ یہ تھا کہ کیسے کیا جائے۔میں ڈی سی میر پور تھا۔سردار قیوم صاحب کا حکم آیا کہ ڈی سی میر پور میرے ساتھ لاہو ر جائے گا۔ لاہور میں نہایت سخت سیکورٹی تھی۔کانفرنس میں مسلم ممالک کے سربراہان شریک تھے جن میں سعودی عرب کے شاہ فیصل،لیبیا کے کرنل قذافی،یاسر عرفات اوردوسری نامور شخصیات بھی شامل تھیں۔اسلامی ملکوں کے سربراہان کی رہائش کے لئے لاہور کے امیر ترین خاندانوں کے گھر حاصل کئے گئے، ملکہ ترنم نور جہاں،اداکار محمد علی کے گھر خالی کرائے گئے تھے۔اس وقت اسلامی ملکوں کے سربراہان کی رہائش کے لئے خود لوگ اپنے گھر دیتے تھے،انہیں معلوم تھا کہ یہاں عرب ملکوں کے سربراہان ٹہریں گے تو کچھ نہ کچھ چھوڑ کر ہی جائیں گے،ان کی طرف سے بڑی خواہش ظاہر کی جاتی ،سفارشیں کرائی جاتیں کہ ان کے گھر عرب ملکوں کے سربراہان کو دیئے جائیں۔

ان رہائش گاہوں پر سخت ترین سیکورٹی تھے اور ان کے ساتھ رابطے کے لئے فارن سروس کے افسران تعینات تھے،جو ان رہائش گاہوں کے اندر جا سکتے تھے۔سردار قیوم صاحب لاہور پہنچ گئے لیکن کوئی ہوٹل انہیں ٹہرنے کے لئے جگہ ہی نہیں دے رہا تھا کہ جگہ نہیں ہے۔مشہور رسالے مخزن کے ایڈیٹر ،ایک مسلم لیگی میاں منظر بشیرنے سردار صاحب سے کہا کہ وہ ان کے کوٹھی میں قیام کریں۔سردار صاحب کی طرف سے ہمیں،منظر بشیر صاحب اور دیگر لوگوں سے کہا گیا کہ مسلم ممالک کے سربراہان سے رابطے کے لئے کوشش کی جائے۔مجھے ایڈوانٹج یہ تھا کہ فارن سروس کے جو لوگ وہاں متعین تھے،ان میں سے چند افسران کے ساتھ میری دوستی تھی،میں ان تک پہنچا اور ان سے کہا کہ دیکھو بات یہ ہے کہ ہم نے الیکشن نہیں لڑنا،یہ کشمیر کاز ہے،یہ میمورنڈم ہے کشمیر کاز کے بارے میں کہ وہاں ظلم ہو رہا ہے،لوگ مر رہے ہیں،یہ کسی طرح اندر قذافی،یاسر عرفات تک پہنچا دو۔ان میں سے کچھ نے مثبت جواب دیا ،کچھ نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ اگر موقع مل گیا تو۔اس موقع پر کشمیر کاز سے متعلق کتابیں، لٹریچر،پمفلٹ لوگوں میں بھی تقسیم کئے گئے۔

غیر ملکی سربراہان کے ساتھ تین،چار سو فارن پریس کے لوگ آ ئے ہوئے تھے۔سردار قیوم صاحب نے کہا میں ان صحافیوں کو مدعو کرتے ہوئے ان سے بات کروں گا ،انہیں مسئلہ کشمیر کے بارے میں بریف کروں گا۔اس مقصد کے لئے پرل کانٹینٹل ہوٹل میں ریزرویشن کرائی گئی۔لوگوں کے اس کے دعوت نامے جاری کر دیئے گئے۔ شام کو معلوم ہوا کہ ریزر ویشن کینسل کر دی گئی ہے۔پنجاب حکومت نے کہا کہ ریزر ویشن کینسل کر دی گئی ہے۔مجھے معاملہ دیکھنے کو ہوٹل بھیجا گیا، متعلقہ افراد نے معذرت کی اور کہا کہ پنجاب حکومت ہمارے سر پہ کھڑی ہے،انہوں نے ہی یہ حکم دیا ہے۔اتنے میں صاحبزادہ روئوف علی جو پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے،وہ ہوٹل میں ہی موجود تھے،میں انہیں جانتا تھا کیونکہ وہ آزاد کشمیر میں بھی انسپکٹر جنرل پولیس متعین رہ چکے تھے اور ان سے میری تھوڑی بہت دوستی بھی تھی۔وہ اونچی آواز میں ہوٹل والوں کو حکم دے رہے تھے کہ بند کریں یہ سب،ورنہ سخت ایکشن لیا جائے گا۔میں نے ان کے پاس جا کر کہا ، صاحبزادہ صاحب، اسلام علیکم،میں آپ کو جانتا ہوں اور آپ مجھے جانتے ہیں،تو یہ کس کو ڈرا رہے ہیں؟ سردار قیوم کو ڈرا رہے ہیں؟ ، انہوں نے کہا تھا کہ گرفتار کر لیں گے ، میں نے کہا کہ یہ پہلا اور آخری موقع نہیں ہے کہ وہ آزاد کشمیر کی نمائندگی کر رہے ہیں،تو یہ کیا ڈرامہ ہے کہ کہتے ہیں کہ سردار قیوم کو جیل میں ڈال دیں گے؟کوئی اور بات کریں،مجھے سردار قیوم صاحب کی طرف سے ہدایت ہے کہ یہ جلسہ ہو گا اور اسی جگہ پہ ہو گا،اگر ہمیں ایسا نہ کرنے دیا گیا تو جلسہ ہوٹل کے ہال کی جگہ ہوٹل کے باہر سبزہ زار کے میدان میں ہو گا۔

اسی دوران دو گھنٹے میں مسلم کانفرنسی جیالے،دہلی مسلم ہوٹل والے،کشمیری وہاں مجمع کی شکل میں اکٹھے ہو گئے۔انہوں نے دیکھا کہ یہ تو مسئلہ بن جائے گا،تو انہوں نے دو قدم پیچھے لئے اور کہا کہ جلسہ کر لو۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔اس تقریب میں سردار قیوم نے ایک گھنٹہ انگریزی میں کشمیر پر تقریر کی ۔مختلف ملکوں سے آئے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیئے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ سردار صاحب یہاں انگریزی میں کیا گل کھلاتے ہیں ! لیکن ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے اچھے طریقے سے انگریزی میں تقریر کی اور سوالات کے جواب دیئے۔اس وقت صورتحال یہ تھی کہ سردار قیوم صاحب کو حکومت سے نکالنے کو تیا رتھے، ان کے آنے پہ بھٹو صاحب ناراض تھے، پاکستان میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی،وہ کسی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔بھٹو صاحب اپنے بھرپور عروج پہ تھے۔ (جاری)
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612473 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More