طارق مسعود (مرحوم) کی زبانی تاریخی واقعات 6ویں و آخری قسط

میری شادی جسٹس یوسف صراف صاحب کی بیٹی سے ہوئی۔یوسف صراف صاحب واحد شخصیت ہیں کہ جو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل اور سیکرٹری جنرل پیپلز پارٹی آزاد کشمیر بھی رہے۔ جسٹس یوسف صراف صاحب پہ مقدمہ بنا۔ہوا یوں کہ جب پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء لگا،ضیاء الحق کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اچھی طرح رگڑا۔پاکستان میں رگڑا تو صوبوں میں بھی رگڑا گیا۔آزاد کشمیر میں انہوں نے حیا ت خان کو یہ کہہ کربھیجا گیاکہ انہیں درست کر دو۔انہوں نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے۔کرنل منشائ، میاں غلام رسول،ممتاز حسین راٹھوراور بہت سے دوسرے افراد کے خلاف مقدمات بنا دیئے گئے۔انہوں نے چھپ چھپا کر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دے دی۔صراف صاحب چیف جسٹس تھے۔انہوں نے ان سب کو،ضمانت پر نہیں،بلکہ ایک ایک روپے کے ذاتی مچلکوں پر پیپلز پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کو چھوڑ دیا۔اس پر پورے پاکستان میں تھرتھلی مچ گئی۔ایک روپے کے مچلکے پر رہا کرنے کا مطلب تھا کہ حکومت کے منہ پر چانٹا مار دیا گیا ۔ضیاء الحق اس وقت کوئٹہ میں تھا۔وہاں ضیاء الحق سے کہا گیا کہ آپ آزاد کشمیر نہیں دیکھتے جہاں ایک روپے کے مچلکے پر پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو رہا کیا گیا ہے۔انہوں نے حیات خان کو بلا کر حکم دیا کہ '' حیات خان ،فکس دیم،فکس دیٹ چیف جسٹس''۔

چودھری رحیم دادصاحب(کوٹلی والے) آزاد کشمیر میں ایک سنیئر جج تھے۔انہیں چیف جسٹس ہائیکورٹ نہیں بنایا گیا تھا اور صراف صاحب چیف جسٹس بن گئے تھے۔یوں انہیں پہلے ہی اس بات کا عناد تھا۔ انہوں نے مختلف پرانے لوگوں کے ساتھ مل کر ریکارڈ چھان مارے، انہیں صراف صاحب کے خلاف کچھ نہیں ملا۔جسٹس صراف صاحب'' نیپا'' کورس پرگئے تھے۔انہوں نے کہا کہ ان کا ٹی اے بل نکالو۔کہا گیا کہ ٹی اے بل میں اس مد میں زیادہ پیسے لگائے گئے ہیں،ایک دن ایکسٹرا لگ گیا تھا،اسی طرح کی کوئی بات تھی ،بن گیا مقدمہ۔صراف صاحب نے فیصلہ کیا ، اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے،کہ انہوں نے اب نوکری نہیں کرنی،میں نے ججی نہیں کرنی،اب میں نے سیاست کرنی ہے،تو میں نے اس مقدمے میں قانونی بنیادوں کے بجائے سیاسی طور پر اپنا دفاع کرنا ہے اور ہر قیمت پر ان کی پگڑی اچھالنی ہے۔چناچہ رحیم داد کے سوالوں کے انہوں نے جارحانہ انداز میں جواب دیئے۔رحیم داد کو سوال کرنے ہی نہیں آتے تھے، یہ بہت 'شارپ'' آدمی تھے۔جسٹس رحیم داد کو اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر متعین کیا گیا تھا۔صراف صاحب نے ہر بات پہ اعتراض کیا کہ آپ یہ مقدمہ نہیں سن سکتے،آپ یہ نہیں پوچھ سکتے،آپ کے مفادات وابستہ ہیں۔رحیم داد کو سمجھ نہ آئے کہ کریں کیا۔

انہوں نے مشورہ وغیرہ کرنے کے بعد صراف صاحب کو توہین عدالت میں چھ مہینے کی سزا دے دی۔ اس کی کوئی مثال نہیں تھی کہ توہین عدالت میں کسی حاضر چیف جسٹس کوسزا دی گئی ہو۔انہوں نے ضمانت کی کوئی درخواست نہیں دی۔صراف صاحب کو میر پور جیل لیجایا گیا۔اس پر '' بی بی سی'' سے دن میں تین بار نشر ہونا شروع ہو گیاکہ'' نام نہاد آزاد کشمیر نے اپنے چیف جسٹس کو توہین عدالت کے الزام میں جیل بھیج دیا ہے''۔ اس پر تھر تھلی مچ گئی۔اس پر ضیا ء الحق کو مشورہ دیا گیا کہ یہ آپ کہاں پھنس گئے ہیں،اس معاملے سے جان چھڑائیں۔قصہ مختصر کے صراف صاحب چار یا پانچ دن میر پور جیل میں رہے۔دلچسپ بات کہ ضیا اء الحق کا ملٹری سیکرٹری،جو ان کا فیورٹ بھی تھا،صراف صاحب کا رشتہ دار تھا،صراف صاحب کی بیوی کا کزن تھا۔وہ اپنے طور پر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔لیکن جب ضیاء الحق نے کہا کہ اسے چھوڑ دیا جائے تو صراف صاحب کو چھڑانے کے لئے ملٹری سیکرٹری کو بھیجا گیا۔

صراف صاحب نے اس کے بعد میر پور میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی۔لیکن انہوں نے دیکھا کہ میر پور میں اب پریکٹس نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ حیا ت خان کے خلاف ہیں۔چناچہ انہوں نے میر پور میں اپنا مکان بیچا اور راولپنڈی میں مکان لے لیا۔ مجھے ڈر تھا کہ حیات خان مجھے بہت تنگ کرے گا۔اسی دوران مجھے حکومت پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری کی طرف سے فون آیا کہ ان سے بات کر لیں۔میں راولپنڈی گیا،ان سے بات کی۔وہ ہمارے پرانے چیف سیکرٹری تھے،حسن ظہیر، جن کا شمار سب سے famousچیف سیکرٹری کے طور پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طارق اگر تم خود کو آزاد کشمیر میں غیر محفوظ محسوس کرتے ہو تومیں تمہیں باہر نکال لیتا ہوں۔میں نے کہا ٹھیک ہے۔ انہیں وہاں بیٹھے احساس ہو گیا کہ صدر نے سزا دی صراف صاحب کو توہین عدالت کی،یہ ان کا داماد ہے،نہ جانے اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

لیکن میں دیانتداری سے کہتا ہوں کہ حیات خان نے اپنے اس دور میں مجھے کوئی تکلیف نہیں دی۔حیات خان ایک آڈنری شخص تھا۔اس کا رتبہ صوبیدار میجر کا تھا۔محنتی تھا،اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا،کامے ،فل سٹاپ لگاتا تھا،لیکن اس کا ویژن نہیں تھا،جیسا کہ سیاسی لوگوں کا ایک وژن ہوتا ہے کہ اس طرح کر دیا تو اس طرح ہو جائے گا،وہ ان میں نہ تھا۔ایک آدھ موقع پر مجھے یاد ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے میری تعریف بھی کی۔مجھے ایک چیف سیکرٹری ایم ایم کاظم نے بتایا کہ '' میں تمہاری سالانہ رپورٹ لے گیا تھا،اس فارم پہ خانے بنے ہوتے ہیں کہ خراب،اوسط،اچھا،بہت اچھا۔اگر بہت اچھا سے زیادہ excilentمیں شمار کرنا ہو تو اس کے لئے اپنے ہاتھ سے نیا خانہ بنا کر اس میںexcilent لکھنا پڑتا تھا .، کاظم صاحب نے کہا کہ میں تمہاری فائل لے گیا تھا صدر حیات خان کے پاس،تو حیات خان نے کہا کہ وہ (طارق مسعود) very goodسے زیادہ کا مستحق ہے،اس کے لئے excilentکا نیا خانہ بنایا جائے۔مجھے کوئی گلہ نہیں،میرے ساتھ انصاف ہوا ہے۔

میں محکمہ زراعت کا سیکرٹری تھا،میں نے ایک موقع پر صدر حیات خان کو بریفنگ دی،انہوں نے سوال کئے جن کے میں نے جواب دیئے۔اس زمانے میں میرے ساتھیوں میں کوئی اتنے زیادہ قابل نہیں تھے،وہ اس حوالے سے مجھ سے متاثر تھے۔انہوں نے میرے کام کی بھی تعریف کی۔اگر وہ میرے خلاف کچھ کرنا چاہتے کہ اس کے سسر نے حیات خان کے خلاف کیا کیا کہا ہوگا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔میں انہیں اس بات کا کریڈٹ دیتا ہوں۔حالانکہ میرے نزدیک ان کی کوئی عزت نہیں کہ وہ سیاست دان نہیں تھے،وہ صدر کے عہدے کے لئے اہل نہیں تھے،وہ بریگیڈ کے' ڈی کیو '،سٹاف افسرکے لئے فٹ تھے۔

جنرل عبدالرحمان پہلے آیا،ہم دو میں سے ایک نے ڈی سی بننا تھا،کسی نے عبدالرحمان خان کو پہلے ہی میرے خلاف کافی ' پوائیزن'' کیا ہوا تھا،میرے خلاف تھا یا دوسرے کے حق میں تھا،بہر حال وہ آئے تو انہوں نے مجھے لفٹ نہیں کرائی۔میں مظفر آباد میں گیسٹ ہائوس ان سے ملنے گیا لیکن وہ مجھ سے نہیں ملے۔میں اپنی جگہ حاضر ہو گیا۔اس کے بعد جنرل صاحب دورے پر آئے،ڈی سی صاحب تھے مرزا وزیر حسین۔انہوں نے چار پانچ باتیں پوچھیں جن کا جواب مرزا صاحب نہیں دے سکے۔مرزا صاحب درباری قسم کے آدمی تھے،وہ اور باتیں بڑی ٹھیک ٹھاک لیکن فوجی کے سوالوں کا prescribeجواب نہیں دے سکتے تھے۔اس پر جنرل صاحب نے راستے میں گاڑیاں کھڑی کر کے مجھے بلایا گیا۔ میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ ایس ڈی ایم صاحب آپ میرے ساتھ آ کر بیٹھیں۔

راستے میں وہ سوال کرتے رہے اور میں جواب دیتا گیا۔شام کو انہوں نے درخواستوں کا ایک ڈھیر میرے حوالے کیا کہ آج دن کو یہ درخواستیں آئی ہیں،ا ن کو ذرا پروسیس کرو۔ان سے میرے کوئی پرسنل تعلقات نہیں تھے۔کوئی فالتو بات میں نے ان کے ساتھ نہیں کی ہوئی تھی صرف ان کی باتوں کے جواب دیتا گیا۔ میں درخواستیں لے گیا۔میں ایس ڈی ایم تھا،میری اتنی واقفیت ہوگئی ہوئی تھی کہ میں کہا کرتا تھا کہ میں درخواست سونگھ کر بتا سکتا ہوں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔کیونکہ پونچھ میں چار پانچ مسائل پر ہی درخواستیں آتی تھیں،راشن ڈپو،خالصہ نتوڑ اس طرح کی چار پانچ چیزیں۔رات کو بیٹھ کر میں نے دو گھنٹے میں ایک چارٹ بنایا،ان کی ٹرانسلیشن کر کے صبح ان کو پکڑا دیں۔وہ حیران ہوئے کہ یہ کام کر لیا آپ نے؟ میں نے کہا کہ جی،کہا کہ کب کیا؟میرے متعلق ان کا موڈ ہی بدل گیا اور وہ میری عزت کرنے لگے۔

فائل جس پر ڈسپیوٹ تھا ہمارا، وہ چلتے چلتے پریذیڈنٹ کی ٹیبل پر پڑی رہ گئی،پچھلے چھ ماہ ،سال سے۔جب جانے لگے تو مجھے بلایا اور کہنے لگے '' او طارقیا ، میں ہنڑ جا ریا آں، اے اک فائل پئی اے ،اے میں تیرے سپرد کرنے لگا آں،تو اس تے جو لکھڑاں ایں لکھ کے لے آ ، میں دستخط کر دیاں گا''۔میں اس پر کوئی ایسی چیز نہیں لکھ سکا جو میرٹ کے خلاف ہو۔دوسری بار اس عہدے پر آیا تو وہ مجھے بلا کر فون پر کسی کو کہہ رہے تھے کہ جائنٹ سیکرٹری تو مان رہا ہے لیکن یہ طارق نہیںمان رہا۔رحمان خان بہت اچھا تھا۔

ہم نے کچھ غلطیاں الیکشن میں کی ہوئی تھیں، ایک بڑی غلطی مجھ سے بھی ہوئی تھی،اور وہ ایسی غلطی تھی کہ جو جان بوجھ کر میں نے نہیں کی ،گورنمنٹ نے کہا کہ یہ بے ایمانی کرنی ہے۔ہم تینوں ڈی سی چیف سیکرٹری کے پاس گئے کہ پریذیڈنٹ خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں کر نی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اور واپس چلے گئے۔خان صاحب کا ٹیلی فون آیا تو انہیں بتایا کہ چیف سیکرٹری نہیں مانتا،کہنے لگا اچھا۔ دو دن بعد پھر ٹیلی فون آیا۔پھر تینوں ڈی سی چیف سیکرٹری کے پاس پہنچے۔چیف سیکرٹری کہنے لگے کہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے ، اس وقت منسٹر ایڈ مرل اے آر خان تھا، کا ٹیلی فون آیا تھا،انہوں نے کہا تھا کہ یہ جو بندے ہیں، خان صاحب ہمارے سرکاری امیدوار ہیں،ان کو سپورٹ کرنا ہے،ان کو کامیاب کرنا ہے۔اس کے نتیجے میں غازی محمد امین کا قصہ، غازی محمد امین کو پونچھ سے کامیاب کرانا تھا،اس میں میرا بھی کردار تھا۔

خان عبدالحمید خان سیاسی شخصیت نہیں تھے،وہ جج تھے، موم کی ناک تھی کہ پکڑکر ادھر کر دیا۔خان عبدالحمید خان کو بنانے کی دو وجوہات تھیں۔ایک تو یہ کہ حکومت پاکستان کو'' سوٹ '' کرتے تھے کہ ایسا آدمی بیٹھا ہوا ہے جسے جس طرح کہا جائے گا،جائنٹ سیکرٹری جس طرح کہے گا، امان اللہ خان نیازی کی بات ٹال نہیں سکتے تھے وہ۔بجائے اس کے وہاں بیٹھا ہو کے ایچ خورشید یا سردار قیوم یا کوئی۔اس لئے انہی کو بنانا ہے۔دوسرا اس کام کے ذریعے خان عبدالقیوم کو بھی قابو کرنا تھا،خان عبدالقیوم خان کو قابو کرنے کے لئے اس کے بھائی کو بھی '' اکاموڈیٹ '' کرنا تھا۔اور آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کو قابو میں رکھنے کے لئے بھی تھا کہ ان کا اپنا آدمی ہو۔خان صاحب کے کریکٹر کو سمونا بڑا مشکل ہے۔خان صاحب اللہ توکل، رات کا آٹا ہے دن کا نہیں ہے۔کھانے والے گھر کے دس بندے اپنے ہیں ،بیس بندے مہمان ٹہرے ہوئے ہیں،تیس بندے کھانے کے وقت آ گیا،ان کو بھی کھانا کھلانا ہے ،انکار نہیں ہو سکتا،وہ انکار نہیںکرتے تھے۔فیصلے کرنے کی قوت بہت کمزور تھی۔کوئی انتظامی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔انتظامی فیصلے میں '' نہ '' کرنا ہوتا ہے۔ہر ایک کوکندھے پہ نہیں بٹھایا جاتا۔نہ کرنے والے وہ تھے نہیں۔ان حالات میں ایسے بندے ایک دو نہیں،چار نہیں پندرہ بیس بندے ہیں جو مظفر آباد میں اور دوسری جگہوں پہ،بڑے کاریگر قسم کے بندے،ان کے آگے پیچھے رہتے۔ان میں ایسے بھی تھے جو ان کے گھر کا خرچہ بھی چلاتے تھے۔انہوں نے نہیں کہا کہ گھر کا خرچہ چلائو،لیکن وہ بندے طریقے سے کہ چالیس افراد کھانے والے ہیں،کیسے ہو گا، وہ کہتے جائو فلاں کی دکان کھلوا کر اس سے سامان لے آئو۔چھوٹے افسر بھی جانتے ہیں ،میں کیا ان کا نام لوں ،چند افراد ان پر حاوی تھے۔کوئی پیسے کی وجہ سے کوئی کسی اور وجوہات سے،ان میںجرات بھی تھی۔ میں آپ کو ایک قصہ سنائو،ایک مرتبہ دن بھٹو صاحب مظفر آباد آ گئے، وہ جمعہ کا دن تھا، پرانے گیسٹ ہائوس میں۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب کو ذرا ٹائیٹ کریں، اتنے میں آذان ہو گئی، خان صاحب اٹھنے لگے، بھٹو نے کہا بیٹھو خان صاحب ورنہ وہ آ رہا ہے،وہ آپ کے خلاف باتیں کرے گا،اب یاد نہیں ممتاز راٹھور تھے یا کوئی اور تھا۔ خان صاحب نے کہا کہ بھٹو صاحب ،اللہ مالک ہے،اس کا اللہ مالک ہوتا ہے ،دنیا کو کوئی انسان ایسا نہیں کر سکتا،میں تو چلا ہوں نماز پڑہنے،باقی اللہ مالک۔یہ ان کی شخصیت کا ایک پہلو ہے۔کوئی بھی انسان سارے کا سارا خراب نہیں ہوتا، سارے کا سارا اچھا نہیں ہوتا، انسان کا کوئی ویک پوائنٹ ہے یا سٹرانگ پوائنٹ ہے ،اس کو دیکھنا چاہئے۔

( اتنے میں طارق مسعود صاحب کو ٹیلی فون پر خلیل قریشی صاحب کی وفات کی خبر ملی)طارق مسعود صاحب کہنے لگے، خلیل قریشی میرا بیج میٹ ہے،ہم نے اکٹھے ٹریننگ لی،تقریبا ساٹھ سال سے ہمارا ساتھ ہے۔ان کی کئی جائزکا م تھے لیکن کوئی کرتا ہی نہیں تھا،تو میں ان کے کام کے لئے درخواست لکھ کر دستخط کرا کے،فرحت میر ، اللہ جزا دے اسے،میں فرحت میر سے ہی کہتا ، یا ہمارا ایک اور افسر ہے ڈاکٹر آصف ،یہ ہمارا کام کرتے ہیں،میں سوچ رہا تھا کہ صبح اسے ہسپتال آئی سی یو میں دیکھنے جائوں گا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ اس کا انتقال ہو جائے گا۔(اس انٹرویو کے '' بیک اپ'' کے طور پر ان کے ساتھ مزید نشستیں ہونی تھیں،جو نہ ہو سکیں۔) اس انٹر ویو کے چند ماہ بعد طارق مسعود صاحب کا انتقال ہو گیا۔

اطہر مسعود وانی
03335176429


 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609883 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More