جناز گاہ (تجریدی افسانہ)

 جنازے کے وقت کا تواعلان کیا گیا لیکن جناز گاہ کے مقام کا اعلان نہ کیا گیا۔ اُس نے اپنے ساتھی نمازی سے پوچھا کہ کون سی جناز گاہ میں جنازہ پڑھا جاناہے۔ لیکن اسے بھی پکا پتہ نہ تھا، صرف اندازہ اس بات کے جواب کے لئے کافی نہ تھا ۔ وہ مسجد سے باہر نکلا اور ایک دکاندار سے استفسار کیا کہ جنازہ کہاں پڑھا جانا ہے تو اس نے ایک دُور کی جناز گاہ کا نام بتا کر پوچھنے والے کا مسئلہ حل کر دیا۔ اور وہ شخص اس خیال سے ، کہ اگر وہ گھر واپس جا کر وہاں سے جناز گاہ جائے گا تو اس کا فاصلہ بڑھ جائے گا، وہیں سے ہی جناز گاہ کی طرف چل پڑا۔

وہ جناز گاہ کے قریب پہنچا تو وہاں ایک ہی شخص کھڑا تھا اور اس کے علاوہ کوئی وہاں موجود نہ تھا ۔ اس نے اس شخص سے کوئی بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور سڑک کی دوسری جانب نیم کے ایک بڑے سے پرانے درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا ۔ اتفاق سے جمعہ کا دن تھا اور سڑک کے کنارے واقع دکانیں بند تھیں اور دکانوں کے شیڈ اس کی محفوظ پناہ گاہ محسوس ہو رہے تھے۔ سخت سردی کا مہینہ تھا اور اتفاق سے آج سورج بالکل نہ نکلا تھا اور صبح سے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور اس ہوا میں آہستہ آہستہ تیزی اور تندی بھی بڑھ رہی تھی۔

اس شخص نے وقت گزارنے کے لئے موبائل پر لئے گئے نیٹ کا سہارا لینے کی کوشش کی اور کچھ خبریں اور اداریئے پڑھے اور کچھ خوف محسوس کیا کہ سڑک پر سے جانے والا کوئی موٹر سائیکلسٹ اس سے چند سیکنڈوں میں اس کا قیمتی موبائل چھین کر رفو چکر ہو سکتا ہے۔ اس لئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ سڑک کنارے کھڑے ہو کر اپنے موبائل سے کھیلنے کی بجائے اسے کوٹ کی اندرونی جیب میں چھپا کر رکھے اور اگر کوئی موٹر سائیکل والا ،ہاتھ میں کوئی پستول پکڑ کر،جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر پوچھے تو پھر موبائل اس کے حوالے کر دے، ورنہ اسے چھپا ہی رہنے دے۔ خواہ مخواہ کسی بیل کو سینگ مارنے کی دعوت دینا تو پرلے درجے کی بیو قوفی ہے۔

لیکن مسئلہ پھر وہی تھا کہ انتظار کے بڑے بڑے لمحے کیسے گزریں گے۔ اس نے کئی بار لوگوں کے اکٹھے ہونے کا جائزہ لینے کے لئے جناز گاہ کے گیٹ ، جس کے سامنے تھوڑا سا ایک طرف ہٹ کر وہ خود کھڑا تھا ، کی طرف دیکھا تھا، لیکن وہاں وہی ایک شخص جو اس کے آنے سے پہلے کھڑا تھا، بس وہی کھڑا تھا ۔ پتہ نہیں وہ شخص وہاں کتنی دیر سے کھڑا تھا ۔ اسے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ وہ شخص بھی جنازہ پڑھنے آیا ہے یا کہ وہ کسی اور کام آ یا ہوا ہے۔ لیکن بار بار دیکھنے سے اسے انداز ہ تو ہو ہی گیا تھا کہ وہ شخص بھی غالباً جنازہ پڑھنے ہی آیا ہے کیوں کہ وہ بھی بار بار موبائل پر وقت دیکھنے کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں بھی دیکھتا کہ کوئی آ رہا ہے یا نہیں ۔ وہ بھی محوِ انتظار محسوس ہوتا تھا ، اس لئے بات واضح تھی کہ جنازگاہ کے سامنے کھڑا ہو کر وہ بھی جنازے کے آنے کا ہی انتظار کر رہا ہو گا ۔

جنازے کا انتظار لمبا ہی ہوتا گیا اور جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد میں خلافِ توقع کوئی اضافہ نہیں ہو رہا تھا ۔ اس کا اضطراب بڑھ رہا تھا کہ نہ جانے جنازہ کیوں نہیں آ رہا ۔ وہ کب تک اس کا انتظار کرتا رہے گا ۔ اسے یہ بھی شک گزر رہا تھا کہ کہیں وہ غلط جگہ تو نہیں آ گیا ۔


لیکن وہ اس بات کی تصدیق کرے بھی کس سے۔ جناز گاہ کے گیٹ پر کھڑے آدمی سے وہ کچھ فاصلے پر تھا اور اور کوئی شخص اس کی اپروچ میں نہ تھا جس سے وہ اس بات کی تصدیق کر سکے کہ جنازہ کیوں نہیں آ رہا ۔ لیکن وہ چونکہ جنازہ پڑھنے آ چکا تھا اس لئے اس کا خیال تھا کہ وہ پڑھ کر ہی جائے گا چاہے کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہو جائے۔

دفعتاً اس نے دیکھا کہ مغرب کی طرف کے آسمان کا رنگ گہرا سیا ہ ہونے لگا ہے۔ ہوا بھی تیز ہو چکی تھی جیسے وہ آہستہ چلنے سے اکتا گئی ہو۔ اور ابھی چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ آندھی کی سی تیزی سے ہوا چلنے لگی۔ بادلوں اور بارش نے ماحول پر اپنا تسلط جما لیا تھا ۔ وہ دکان کے شیڈ میں کھڑا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ۔ اس کو بادلوں کی گرج چمک ڈرانے لگی۔ بارش کی تیز بوچھاڑ نے اس کا کہیں بھاگ جانے کا خیال بھگو کے رکھ دیا ۔ وہ اپنے آس پا س کوئی بہتر پناہ گاہ تلاش کرنے لگا۔ گیٹ پر کھڑا شخص نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا ۔ ماحول میں اندھیرا چھا گیا اور وہ اپنے آُ پ کو غیر محفوظ سمجھنے پر مجبور ہو گیا ۔ اس مجبوری کے عالم میں وہ جناز گاہ کے ساتھ والے مکان کے دروازے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا ۔ مکان کی چھت کا شیڈ اسے بارش سے بچا نہیں سکتا تھا ۔ لیکن شایدتیز ہوا کے باعث اس مکان کا دروازہ اتفاق سے کھلا ہوا تھا ۔ لیکن وہ بنیادی طور پر شریف انسان تھا اور اجازت لئے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونا خلافِ آداب سمجھتا تھا اور خوف بھی رکھتا تھا کہ گھر والے کہیں الٹا اس پر کوئی الزام ہی نہ لگا دیں۔

وہ اسی خیال کے ساتھ وہاں کھڑا تھا، کپڑے بھیگ رہے تھے، سردی بڑھ رہی تھی ، اس کا جسم کپکپی کا شکار ہو رہا تھا کہ اس مکان کے اندر سے ایک خاتون دروازہ بند کرنے کے ارادے سے دروازے پر آئی ۔ اتفاق سے دونوں کی نظریں آپس میں یوں ملیں جیسے صدیوں بعد دو بچھڑے ہوئے ملے ہوں۔ان کے درمیان کچھ باتوں کا تبادلہ ہوا:

خاتون: آپ یہاں کھڑے ہیں، اندر آ جائیے! یہ میرا گھر ہے۔
شخص: سوری مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ آپ کا گھر ہے، ورنہ میں یہاں کبھی نہ رکتا ۔
خاتون: چلیں رک ہی گئے ہیں تو اندر آ جائیں۔ گھر میں کوئی نہیں ہے، میں اکیلی ہی ہوں۔
شخص: وہ، وہ آپ کا شوہر۔ کیا وہ گھر میں نہیں ہے۔ شخص نے لڑکھڑاتی زبان سے پوچھا ،اور آپ کے بچے ؟
خاتون: وہ کام پے گیا ہوا ہے اور شام سے پہلے نہیں آئے گا اور بچے پڑھنے گئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی شام کو ہی آئیں گے۔
شخص: اگر کوئی آ گیا تو خواہ مخواہ خرابی ہو سکتی ہے۔
خاتون: نہیں کوئی خرابی نہیں ہو گی۔ میں سب سنبھال لوں گی۔ خرابی کے دن اب گزر چکے ہیں۔ اب کیا خرابی ہونی ہے۔
شخص: چلیں ، بارش رکنے تک میں آپ کے پاس رک جاتا ہوں۔
خاتون: موسٹ ویلکم! میں آپ کے لئے چائے بناتی ہوں آپ ڈرائینگ روم میں بیٹھیں۔ میں ہیٹر بھی لگا دیتی ہوں۔ اپنے آپ کو گرمائی دیں بہت ٹھنڈے ہو چکے ہوں گے ،آپ!
شخص: نہیں کوئی ضرورت نہیں ، بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے مجھے طوفان سے بچا لیا ۔۔۔ باقی کسی تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔
خاتون: نہیں تکلف کس بات کا ۔ آخر آپ سے بہت پرانا تعلق رہا ہے۔ کیسی گزر رہی اب زندگی؟
لکھنے پڑھنے کا کام تو جاری ہو گا ؟ اچھا کیا وہ کتاب مکمل کر لی جو لکھ رہے تھے ، آپ؟
شخص: نہیں، وہ کتاب میں آگے نہیں لکھ سکا ۔ اس کتاب کو لکھنے کے لئے ایک نہیں، دو انسانوں کی ضرورت ہے۔ ایک سے وہ کام نہیں ہو سکتا ۔میں اُس وقت بھی یہی کہا کرتا تھا۔
خاتون: ہاں مجھے یاد ہے آپ کہا کرتے تھے۔ لیکن میرا خیال تھا کہ آپ بہت محنتی اور ذہین ہیں، آپ وہ کتاب لکھ ہی لیں گے۔
شخص: نہیں ، وہ کتاب ابھی تک ادھوری ہے۔ اب تک اس کتاب کو بیس سال بیت گئے لیکن وہ آگے نہ لکھی جا سکی۔ آپ اگر ساتھ دے دیتے تو شاید وہ اب تک شائع ہو چکی ہوتی اور اس کی دنیا بھر میں دھوم مچ چکی ہوتی۔ وہ کتاب میری زندگی کا مقصد تھی۔
خاتون: جی آپ اس وقت بھی بالکل یہی جملہ بولا کرتے تھے۔ مجھے آپ کے بولے ہوئے سارے جملے اب بھی یاد ہیں۔ اور میں اپنی تنہائی میں انہیں دھراتی بھی رہتی ہوں، بلکہ وہ خود ہی میرے خیالوں میں چلے آتے ہیں۔
شخص: بس قسمت ہماری فیور میں نہ تھی ورنہ شاید ہم جدا نہ ہوتے۔
خاتون: اُس وقت تو آپ قسمت کی طاقت بہت کم مانا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے آپ کہا کرتے تھے کہ قسمت تو بندہ خود بناتا ہے۔ آپ مثال دیا کرتے تھے کہ اگر کوئی طالبِ علم امتحان نہ دے، یا تیاری نہ کرے تو وہ کیسے پاس ہو سکتا ہے۔ آپ اس بات کا اطلاق مجھ پر کیا کرتے تھے اور مجھے کوسا کرتے تھے کہ میں اپنے حصے کا کام نہیں کر رہی۔ اور میں کہا کرتی تھی کہ اگر قسمت میں ہو گا تو اکٹھے رہ لیں گے اور اگر نہ ہوا تو نہیں ۔
شخص: اب میں نے قسمت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ میں اب قسمت کی بالا دستی مان چکا ہوں۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ قسمت انسان کی نوے سے پچانوے فیصد زندگی کا تعین کرتی ہے اور انسان کے پاس صرف پانچ فیصد کا اختیار ہے اور کبھی کبھی میں اس پانچ فیصد کا بھی انکاری ہو جاتا ہوں۔
خاتون: بہت اچھا ہوا، آپ نے بھی میرے والا خیال اپنا لیا ۔ اچھا بتائیں کبھی میری یاد آتی ہے ؟ کیا کبھی ان گزرے دنوں کا تصور آنکھوں کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے؟
شخص: جی بالکل کبھی کبھی تو وہ وقت، وہ دن اور وہ راتیں بہت یاد آتی ہیں، خاص طور پر شدید سردی یا شدید گرمی کے موسم میں ماضی کے وہ شب وروز زیادہ ہی پریشان کر دیتے ہیں۔
خاتون: آپ تو کہا کرتے تھے کہ آپ اس وقت کو کبھی یاد نہیں کیا کرو گے۔ اور دوبارہ کبھی ملنے کی خواہش بھی نہیں کرو گے؟
شخص: ہاں میں ملنے کی خواہش تو اب بھی نہیں رکھتا ، ماضی کو مکمل طور پر بھلایا بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے میں ماضی بھلانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ماضی کی یاد یں میرے اختیار سے باہر ہیں ۔ آپ بھی کبھی کبھی اس وقت میں واپس چلے جاتے ہیں اس وقت میں یا کبھی نہیں؟
خاتون: جی جب میں گھر میں اکیلی ہوتی ہوں تو اسی ماضی میں کھو جاتی ہوں اور جب میرے آس پاس دوسرے لوگ ہوتے ہیں تو میں اپنا آپ چھپا لیتی ہوں۔ اپنا آپ چھپانے میں مجھے بہت مہارت حاصل ہو چکی ہے۔ کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ میرے اندر کیا ہو رہا ہے۔
شخص: یہ مہارت تو آپ کے اندر بہت پہلے کی ہے۔ میں بھی اتنے سالوں کے قرب کے باوجود آپ کے اندر کی دنیا سے نا واقف ہی رہا ۔
خاتون: اندر کی دنیا ہوتی ہی چھپا کے رکھنے کے لئے ۔ ہر انسان اپنے اندر میں کچھ اورباہر سے کچھ اور ہوتا ہے۔ جیسا وہ باہر سے دِکھتا ہے اندر سے ویسا ہوتا نہیں۔
شخص: آپ درست کہتی ہیں۔ میں اب اپنے آپ سے بھی دور ہو چکا ہوں اور اپنے ماضی کی صدیوں سے بھی میرا تعلق بہت کمزور ہو رہا ہے۔ میں اپنے حال اور ماضی سے اپنے آپ کو چھڑا کر مستقبل کے حوالے کر دینا چاہتا ہوں۔ میں ، مجھے خود ہی لگتا ہے، زندگی سے اکتا چکا ہوں۔
خاتون: اتنی جلدی، آپ تو مجھے زندگی سے لڑنے کا درس دیا کرتے تھے اور اب خود ہی ہتھیار ڈال رہے ہو۔
شخص: میں زندگی سے بہت لڑا ہوں، لیکن اب میں اس میں اپنی شکست دیکھ رہا ہو ں۔
خاتون: شکست تو ایک دن ہو ہی جانی ہے، اس سے پہلے تو شکست نہیں ماننی چاہیئے۔
شخص: کہنے اور کر کے دکھانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میں بھی بہت باتیں کیا کرتا تھا لیکن اب میں خاموش ہوتا جا رہا ہوں۔
خاتون: چلیں آپ کی مرضی، میں کون ہوتی ہوں آپ کے ارادے بدلنے والی! یہ لیں چائے تیار ہو گئی۔ آپ چائے پی لیں۔آپ کو مرے ہاتھ کی بنی چائے پینے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا ۔

شخص چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑتا ہے اور ایک چسکی لگانے کے لئے اپنے ہونٹ کپ کی دیوار کے قریب لاتا ہے کہ دروازے پر ایک دستک سنائی دیتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں چند سیکنڈز کے لئے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ ماضی میں کیا کرتے تھے۔ پرانے دور کے جذبات ایک بار پھر سے آنکھوں میں امڈ آتے ہیں۔ لیکن خاتون دروازے پر ہونے والی دستک سے مجبور ہو کر باہر جانے لگتی ہے۔

شخص: آپ کا شوہر آگیا ہو گا۔
خاتون: نہیں وہ تو کل ہی آئے گا وہ دراصل کہیں گیا ہوا ہے۔ میں نے ویسے ہی کہا تھا کہ وہ شام کے بعد آئے گا ۔ میں باہر دیکھ کر آتی ہوں کہ کیا ہے ؟
عورت باہر کے دروازے پے جا کر دروازہ کھولتی ہے۔ باہر سے ہجوم کا شور سنائی دیتا ہے۔ وہ لوگوں سے تھوڑی سی گفتگو کرتی ہے:
خاتون: جی ،کون؟ کس سے ملنا ہے؟
دوسرا شخص: ہمارے جنازے کی میت ، جب ہم نے اس کی چار پائی جناز گاہ میں رکھی تو وہ اٹھ کر آپ کے گھر میں آ گئی ہے ،یعنی ہمارا مردہ آپ کے گھر میں گھس آیا ہے۔ ہم اسے واپس لینے آئے ہیں۔
خاتون: میرے گھر میں تو کوئی بھی نہیں آیا ، میں تو گھر میں اکیلی ہوں، میرا تو شوہر بھی گھر پے نہیں ہے۔
دوسرا شخص: بی بی ہم نے خود اسے آپ کے گھر میں ابھی ابھی داخل ہوتے دیکھا ہے۔ جب وہ چارپائی سے اٹھا تو ہم ڈر کے پیچھے ہٹ گئے اور وہ آرام سے ٹہلتا ہوا آپ کے گھر کے دروازے سے اندر داخل ہو ا ہے۔
خاتون: لیکن میرے گھر کا دروازہ تو اندر سے لگا ہوا ہے۔ باہر سے تو کوئی شخص، دروازہ اندر سے کھولے بغیر، داخل ہو ہی نہیں سکتا ۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ کسی اور گھر سے پتہ کریں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مردہ اٹھ کے کہیں چلا جائے؟
دوسرا شخص: نہیں بی بی ،خود اتنے سارے لوگوں نے اسے اسی گھر میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔ ہم خود بھی اس بات پر حیران ہیں، لیکن اگر آپ اجازت دیں تو ہم اندر آ کر خود اسے دیکھ لیتے ہیں۔ اور اگر آپ اجازت نہیں دیں گے تو پھر بھی ہم اندر گھس کر خود اسے تلاش کریں گے۔ ہم اسے چھوڑ کر جا ہی نہیں سکتے۔
عورت پریشان ہو کر واپس اندر آ جاتی ہے اور اندر آ کر پہلے شخص تو یہ ساری بات بتاتی ہے۔
شخص ؛ میں ان لوگوں کو جواب دیتا ہوں ، آپ اندر ہی رہیں۔ میں انہیں فارغ کرتا ہوں۔
اس نے خاتون سے ہاتھ ملایا۔ یہ ہاتھ ایک مدت کے بعد ملے تھے اور نہ جانے دوبارہ کبھی ملنے تھے یا نہیں۔
خاتون: کبھی موقع ملا تومیں آپ سے ملنے آؤں گی۔ او کے، اﷲ حافظ!
شخص: او کے، اﷲ حافظ !
دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کو سلام کہہ رہی تھیں اور دل ایک دوسرے کی محبت کا یقین کر رہے تھے۔ لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں قدم اٹھا رہے تھے۔
وہ شخص دروازے پر آیا تو ہجوم نے اسے پکڑ لیا اور کہا :
’ تم تو ہمارے جنازے ہو تم چار پائی سے اٹھ کر ادھر کیوں چلے آئے۔ ہم تو تمہارا جنازہ پڑھنے آئے ہیں۔ اور تم اٹھ کے کسی کے گھر میں گھس گئے۔ چلو جا کے چار پائی پے لیٹو، ہم نے تمہارا جنازہ پڑھنا ہے۔ اتنے سارے لوگ تمہارے انتظار میں کھڑے ہیں اور تم اس خاتون کے گھر میں کیا کر رہے ہو۔ تم ہم سے مذاق کر رہے ہو، ہمیں بیوقوف بنا رہے ہو۔ ہم تمہیں بھاگنے تو نہیں دیں گے۔ چلو چار پائی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ مولوی صاحب بھی تیار کھڑے ہیں۔ اب نمازِ جنازہ پڑھنے تک نہیں اٹھنا۔ ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہو گا ‘۔

وہ شخص ان کے آگے بے بس ہو گیا ۔ لاکھ منت سماجت کرنے کے باوجود انہوں نے اسے چار پائی پے لٹا دیا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھ دی گئی۔ اس سارے عمل میں وہ شخص پیش پیش تھا جو جناز گاہ کے دروازے پے اکیلا کھڑا تھا ۔

نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد وہ چارپائی سے اتر کر انجانی منزلوں کی طرف چل پڑا اس کے حواس پہلے جیسے نہ رہے تھے ۔اور لوگ اس کی تدفین کے لئے چار پائی لے کر قبرستان کی طرف روانہ ہو گئے۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283327 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More