دل شکستہ - قسط نمبر : 5

سدرہ گل کے لئے اپنے ماں باپ کو اس نوکری کے لئے راضی کرنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن ساری ذندگی کسی غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا اس سے ذیادہ مشکل تھا۔
یہ تو کیا کہہ رہی ہے سدرہ آج سے پہلے پوری برادری میں کسی لڑکی نے نوکری نہیں کی تو نے سوچ بھی کیسے لیا میں اس کام کی اجازت دے دونگا۔ بختاور خان نے غصے سے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
میں کیسے نہ سوچتی بابا۔ جب پوری برادری اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف تھی تب آپ نے ہی تو اجمل خان کو قطرے پلوا کر برادری کے لوگوں کو قائل کیا تھا۔آپ تو چاہتے ہیں کے ہماری قوم کا ہر بچہ اس بیماری سے نجات حاصل کرلے۔میں بھی تو یہی کرنے جا رہی ہوں۔ سدرہ نے سوچی سمجھی باتیں دہرائیں۔
چاہتا ہوں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کے اپنی بیٹی کو اس کام کے لئے بھیج دوں۔

بس کردے سدرہ گل چل اپنے گاؤں چلتے ہیں کچھ نہیں رکھا شہر میں ساری زندگی پڑی ہے تیرے سامنے برادری کا کوئی بھی آدمی تجھ سے شادی کرلے گا۔زرمینہ بھی سدرہ کی نوکری کے خلاف تھی۔
ٹھیک کہہ رہی ہے تمہاری ماں بہت پڑھ لیا اجمل نے چھوڑ دے یہ ضد۔ بختاور خان نے فیصلہ سناتے ہوئے بولا۔
نہیں بابا میں واپس نہیں جاسکتی۔ اجمل خان کی تعلیم میری ضد نہیں اسکے باپ اصغر خان سے کیا ہوا وعدہ ہے۔ اور وعدہ میں نہیں توڑ سکتی۔ آپ دونوں جانتے ہیں اصغر خان خود بھی پڑھا لکھا تھا۔ اس سے میں نے اپنی مرضی سے شادی نہیں کی تھی۔ آپ دونوں نے میری شادی کروائی تھی۔ اب اگر میں بھی اس کی طرح سوچتی ہوں تو آپ دونوں کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔ میں گاؤں جاکر دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ 10 جاہل بچے پیدا کرنے سے بہتر ہے میں اپنے ایک بچے کو اچھی تعلیم دوں۔ اور میں ایسا ہی کرونگی۔ سدرہ ہار ماننے والی نہیں تھی۔
ساتھ ہی دے رہے ہیں سدرہ گل۔ اسی لئے اپنا گاؤں چھوڑ کر یہاں رہ رہے ہیں لیکن یہ نوکری والی بات نہیں مان سکتا۔ بختاور خان نرمی سے بولا۔
ضرورت صرف اس وقت تک ضرورت رہتی ہے بابا جب تک ہم دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔ جب ہم خود ہاتھ پاوںچلانا شروع کردیں تو وقت سے پہلے ہر ضرورت پوری ہوجاتی ہے ۔ آخر ہم کب تک اجمل کی پڑھائی کے لئے دارین صاحب کے محتاج رہیں گے؟ سدرہ نے جذباتی حملہ کیا۔
تم اس دن دارین صاحب کے آفس گئ تھیں۔ کوئی بات ہوئ ہے کیا سدرہ؟؟ زرمینہ نے بیٹی کی حالت سمجھ لی تھی شاید۔
کوئی بات نہیں ہے اماں۔ لیکن جب تک بغیر کہے پیسے دے رہے تھے ٹھیک تھا۔ ابھی 5 مہینے پیسے نہیں دیئے آئندہ پھر کبھی ایسا ہوا تو کیا دوبارہ مانگنے جاوئنگی آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں مجھے شرم آتی ہے دوسروں کے ہاتھ پھیلانے میں۔۔۔۔۔ وہ رونے لگی تھی۔
سدرہ گل ٹھیک کہہ رہی ہے زرمینہ ۔ ہماری بیٹی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتی۔ بختاور خان نے بہت سوچنے سمجھنے کے بعد فیصلہ سنایا۔اجمل کو پڑھانے کی خواہش اسکی بھی تھی لیکن وہ جانتا تھا چاہ کر بھی وہ اتنے پیسے نہیں کما پاتا کے اسکے اخراجات اٹھا سکے۔
ارے تو کیا دروازے بجا بجا کر لوگوں کے گھروں میں دھکے کھانے کی اجازت دے دیں گے آپ؟ زرمینہ ابھی بھی راضی نہیں تھی۔
بات اب غیرت کی ہے زرمینہ۔ سدرہ گل بختاور خان کا خون ہے اور ہم مر سکتے ہیں لیکن بھیک نہیں مانگ سکتے۔ اور تم جانتی ہو اپنے گاؤں میں تو میں خود پولیو ٹیم کے ساتھ جاتا تھا پولیو سے بچاو کے قطرے پلانے میری بیٹی کوئی غلط کام کرنے نہیں جارہی۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بابا یہاں شہر میں بھی ایسے کئ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو دوا نہیں پلانا چاہتے۔ میں اپنی زبان میں بات کرکے انہیں سمجھا سکتی ہوں۔ یہ تو نیکی کا کام ہے کسی کے بچے کو ساری زندگی کی معذوری سے بچانا۔ اور اتنے پیسے بھی مل جائیں گے کے میں اجمل کی فیس بھر سکوں۔ سدرہ نے اپنی ماں کو سمجھایا۔
جیسے تم دونوں باپ بیٹی ٹھیک سمجھو۔ ذرمینہ نے بھی ہار مان لی۔
بختاور خان اپنے گاؤں کی بااثر شخصیت تھا۔ اسی لئے جب پولیو ٹیم نے اسکے علاقے کا وزٹ کرنا شروع کیا سب سے پہلے اس سے رابطہ کیا۔ اس نے اپنی سمجھداری سے گاؤں کے اکثر لوگوں کو قائل کیا۔ آہستہ آہستہ اسکے گاؤں کے تمام لوگ اس بات پر آمادہ ہوگئے کے وہ اپنے بچوں کو پابندی سے ویکسین پلوائیں گے۔ اسی لئے سدرہ گل نے اپنے علاقے میں کام کرنے والی پولیو کی ورکر سے رابطہ کیا اور نوکری ملنے کی یقین دہانی کے بعد ہی اپنے ماں باپ سے بات کی۔ اسکے دو بھائی بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے وہ بختاور خان اور زرمینہ گل کا واحد سہارا تھی۔ اسی لئے وہ اسکی دوسری شادی کروانے کے لئے بھی ضد یا زبردستی نہیں کرتے تھے ہاں وہ اپنی خوشی سے راضی ہوجاتی تو الگ بات تھی۔یہی وجہ تھی کے وہ اکثر اپنی جائز بات منوانے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالوں کا ساتھ لمحوں میں ٹوٹ گیا تھا۔ ایک بار پھر ذندگی میں وہ تنہا رہ گیا تھا۔ دارین اداس تھا اپنے لئے ، ابیشہ کے لئے اور سدرہ کے لئے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو۔
وہ کمرے میں آکر لیٹی ہی تھی جب فون کی بیل بج اٹھی۔
تم کیا سمجھتی ہو خود کو میرا گھر برباد کرکے تم سکون سے رہ لو گی۔ میری بد دعائیں کبھی بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔
ابیشہ بی بی۔ وہ آواز پہچان کر گھبراہٹ سے بولی۔
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی سدرہ گل۔ بہت پچھتاوگی تم۔۔۔۔۔
ابیشہ نے لائن ڈراپ کردی تھی۔۔
ابھی تو خود اعتمادی کے چند لمحے ہی میسر آئے تھے ابھی تو احساس ہوا تھا کے میں اپنے رب کے سوا کسی کی محتاج نہیں۔ آخر کیوں ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو نوکری کرنے کے لئے اتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کاش اصغر خان وہ خط نہ لکھتا اور اماں ابا مجھے عدت پوری ہوتے ہی نوکری کرنے دیتے لیکن جب انہیں اعتبار نہیں ہوتا مجھ پر اب وہ سمجھ گئے ہیں میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اجمل کے لئے کر رہی ہوں۔
لیکن ابیشہ بی بی ۔۔۔۔۔۔۔میں تو ان سے معافی بھی نہیں مانگ سکی۔۔۔۔۔۔۔
 

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.