سردار کوڑے خان محسن پاکستان(محسن مظفرگڑھ)

دنیامیں کئی مخیرپیداہوئے اورہوبھی رہے ہیں پاکستان میں ایک ایسامخیراس وقت پیداہواجب کہ اس کاتصوربہت کم تھاان اہم اورچیدہ لوگوں میں سے سرائیکی وسیب جیسے پسماندہ اورناخواندہ علاقہ میں سردار کوڑاخان جتوئی کانام نمایاں ہے۔سردارکوڑاخان جتوئی ایک ایسامخیرتھاجس نے اس جاگیرداری دورمیں سب کودرجہ حیرت میں ڈال دیا1894میں سردارکوڑاخان جوکہ ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کے رہائشی تھے جنہون نے اس وقت اپنی جاگیرکا1/3حصہ جوکہ 86000کنال رقبہ بنتی ہے اپنے علاقہ کے غریب عوام کی فلاح وبہبودکیلئے وقف کردی حالانکہ اس جاگیرداری دورمیں ان سے بھی بڑے جاگیردارجن میں لغاری برادری،کھوسہ برادری،دریشک برادری،بزداربرادری،قیصرانی برادری،دستی،جکھڑ،کھرگوپانگ،قریشی،گیلانی،گردیزی،نواب،موجودتھے۔مگراﷲ پاک نے سردارکوڑاخان کے ہی دل میں ڈالاکہ اﷲ کی مخلوق اورآنے والی نسلوں کیلئے کچھ کرناچاہیے اسی لیے انہوں نے 86000کنال رقبہ وقف کردیا۔اس کے علاوہ 1947میں سرائیکی وسیب کے لوگوں نے انڈیاسے آنے والے لوگوں کیلئے اپنی حویلیوں کے دروازے کھول دیے جس میں خواجہ غلام فرید کی دربارجس کارقبہ جولاکھوں ایکڑمیں ہے ایسی قربانیوں سے ہمیں بھائی چارے کی مثال ملتی ہے اس کے برعکس جوہوااس کی بھی مثال نہیں ملتی ۔

سردارکوڑاخان محسن سرائیکستان 18صدی کے حاتم طائی تھے جنہوں نے اپنی خطیراراضی وقف کی ان کی پانچ بیویاں تھیں مگراولاد کوئی نہ تھی وہ انگریز حکومت کے مجسٹریٹ تھے انہوں نے اس رقبہ کے انتظام واانفرام کااختیارضلع کونسل جوکہ اس وقت حکومتی ادارہ ھا اس کی تحویل میں دے دیا۔سردارکوڑاخان تمام جائیدادکووقف کرناچاہتے تھے لیکن قانون ایساتھاکہ وہ صرف جائیدادکا1/3ہی وقف کرسکتے تھے اس رقبہ کی اکثریت تحصیل جتوئی میں ہی موجودہے اورکچھ حصہ تقریباً 14ہزارکنال رقبہ راجن پورمیں موجود ہے شروع میں یہ رقبہ غیرآبادتھا پھراس رقبے کوکاشتکاروں کو دیاگیا تاکہ زمین آبادہوسکے جو آج بھی کاشتکاری ہورہی ہے جس کی آمدنی پہلے لاکھوں میں ہوتی تھی اوراب کروڑوں میں ہوتی ہے جس کی نگرانی ضلع کونسل کرتی ہے جواس رقم کو مال غنیمت سمجھتی ہے اس لیے اس آمدنی سے غریب عوام کی فلاح وبہبود تونہ نہیں ہوامگرضلع کونسل کے افسران،ڈی سی ،کمشنرکی عیاشی کوپوراکرتاہے اور لاہورکے قمقموں میں بھی اس رقم کاحصہ شامل ہے۔ اس رقم میں سے طلباء کابھی کوٹہ ہے جوکچھ وقت تک 10,روپے،20روپے اور 50 روپے ملتے تھے اب وہ بھی ہڑپ کیے جارہے ہیں البتہ جس عظیم انسان نے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے 86000کنال رقبہ وقف کیا ا نکے نام کوروشن کرنے کے بجائے لوٹ مارکاسلسلہ شروع کیاہواہے جتوئی میں کوڑے خان ہائرسیکنڈری سکول اورکچھ سالوں سے مظفرگڑھ کی باقی تینوں تحصیلوں میں بھی کوڑے خان مڈل سکول شروع کیے گئے ہیں جن کی فیس معاف کرناتودورکوئی مڈل کلاس آدمی ان مڈل سکولز کی طرف دیکھنے کابھی نہیں سوچتا کیونکہ اتنی زیادہ فیس ہونے کی وجہ سے یقیناً کوڑے خان کی روح کو سکون کے بجائے تڑپ ہوتی ہوگی۔بات ہورہی تھی ضلع کونسل کی تواس میں ایک سپریٹنڈنٹ اراضیات انچارج رقبہ ہوتے ہیں وہ یقیناً امیرسے امیرترہورہے ہونگے مستاجرین سے لین دین کرکے لاکھوں سے کروڑں ہڑپ کررہے ہیں انچارج اراضیات کے پاس اس رقبہ کی مکمل تفصیل موجود ہے راقم کی نیب سے درخواست ہے کہ اس اراضی کے متعلقہ لوگوں کوکٹہرے میں بلائیں اوردیکھیں ملک کون کون کھوکھلاکررہاہے۔اس رقبہ کی بندربانٹ دیکھ کر ایک انسان دوست مظفرخان مگسی نے سپریم کورٹ میں رٹ دائرکی جوبیس سال چلی اورآخرفیصلہ ہواکہ رقبہ کاٹرسٹ بناکر اس کاچیئرمین ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفرگڑھ کوبنایاجائے اوراسکے ساتھ اکاؤنٹ ڈپٹی کمشنرکارکھاجائے اس رقبہ کامقصدتھانے دفاترجوڈیشری کمپلیکس گرلز بوائز ہائی سکولز ،ویٹرنری ہسپتال،اورکئی سرکاری عمارات جس میں واپڈادفاتر،گریڈاسٹیشن،قائم ہیں 1979میں راقم نے ایک ویلفیئرادارہ اور سرادارکوڑے خان اکیڈمی بنائی۔اوراس ادارہ نے ارباب اختیارسے مطالبہ کیا کہ وقف رقبوں میں موجود سکولوں کانام سردارکوڑے خان رکھاجائے۔

اب جب کہ عدالت نے فیصلہ سنادیا ہے تواب جو اس رقبہ پرقابض ہیں وہ کرایہ اداکریں مگراعلیٰ افسران کے آشیرباد سے پرائیویٹ سکولز کی عمارتیں اوردکانیں بناکے موج میں ہیں باقی جوزمین بنجر،غیرآباد اور دریابردہے تو اسے وقف زمین ظاہرکرتے ہیں کہ کوئی انگلی نہ اٹھائے اورہماری اوپری کمائی رک نہ جائے مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی میں بھی اس طرح کی صورت حال ہے سرداران جتوئی کے پاس اس زمین کا2/3حصہ ہے جبکہ کوڑے خان کا وقف کردہ حصہ 1/3ہے ریکارڈمیں سردارکوڑے خان کامقبرہ 35کنال بتایاجاتاہے اگرکوئی وزٹ کرے توپتہ چلتاہے کہ یہ توصرف1مرلہ رہ گیاہے

اس امرپرافسوس ہوتاہے کہ ایسے محسن کی قربانی کو حکومتی سطح پرسراہانہیں گیامگرگنگارام اورگلاب دیوی نے ایک ہسپتال دیااپرپنجاب والے اسی کاڈنکابجاتے نہیں تھکتے ۔ گلاب دیوی اورگنگارام کاتعلق اپرپنجاب سے تھا اوران پراجیکٹس پرتوجہ بھی دی گئی جبکہ سردارکوڑے خان ایک پسماندہ علاقہ کانیم خواندہ ،مہذب،محب وطن تھے ۔سردارکوڑے خان کی مثالدنیاکے مہذب جاگیرداروں سے دی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنی قوم اورعوامکی غربت بے روزگاری ،صحت وتعلیم کیلئے قربانی دے کر اتنی خطیراراضی وقف کردی اس رقم کوتواب تک لاہورکے اللوتللوں پرخرچ کیاگیاہے مگراب سرائیکی وسیب کی عوام جاگ چکی ہے اورانہیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ رقم ان کے مسائل کے حل کیلئے خرچ کی جانی چاہیے اس زیادتی کاتسلسل جاری ہے اوراس کے ساتھ ساتھ روہی تھل ،دامان،کالاکھوں ایکڑرقبہ آباد کراکرمقامی کسانوں کومسلسل محروم رکھاجارہاہے ۔اس رقبہ پرٓبادکاروں کے علاوہ سول،ملٹری اوربیوروکریسی کے اندرریوڑیوں کی طرح بانٹاجارہاہے اس بندربانٹ میں چولستان کے روہیلے تھل اوردامان کے سرائیکی کسان چیخ رہے ہیں بلکہ جوخاندان برسوں سے موجود تھے ان کے نام پرزمینیں الاٹ کرکے انہیں بے دخل کردیاگیا۔اب عوام اپناحق مانگ رہے ہیں انصاف حکومت کوانصاف کرکے ان لوگوں کواپناحق دیناچاہیے ۔سردار کوڑے خان اراضی جہاں جہاں موجود ہے وہ زمین کسانوں کودی جائے اورکوڑاخان ٹرسٹ جس کے افسران کرتادھرتاہیں اس پرعوامی مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے تاکہ صاف وشفاف طریقے سے نیلامی ہوسکے کیونکہ اس رقبہ کوایمانداری کے ساتھ نیلامی کی جائے تو 20سے 25کروڑ آمدنی ہوسکتی ہے بہرحال عوام کے اندرایک لہرپیداہورہی ہے اورمطالبہ کرتے ہیں کہ :اس رقبہ کی آمدنی سے اس رقبہ پرسردارکوڑے خان یونیورسٹی قائم کی جائے ،سرائیکی وسیب میں سرکاری اراضیات جوچولستان تھل دامان میں لاکھوں ایکڑ موجود ہے وہ صرف اورصڑف مقامی کسانوں میں الاٹ کی جائے ،جتوئی میں سردارکوڑاخان پبلک سکول میں 50فیصدبچوں کومفت تعلیم دی جائے،سرائیکی وسیب میں بے روزگاری عام ہے لہٰذا وسیب کی غربت ،پسماندگی اورناخواندگی کے خاتمہ کیلئے ترجیح بنیادوں پرملتان میں مقابلے کے امتحان سنٹربنایاجائے اورانکو اپرپنجاب کے برابرحقوق دیے جائیں لاہورمیں 25اوراسلام آباد میں 30یونیورسٹیاں ہیں مگرسرائیکی وسیب میں صرف 2اوروہ بھی صحیح فنکشنل نہیں ،کوڑے خان ٹرسٹ کاکام پراناکرپٹ عملہ کررہاہے جس کیلئے عوامی مانیٹرنگ کمیٹی کی نگرانی ضروری ہے ۔آخر میں قارائین کوبتاتاچلوں کہ سرائیکی اب اپنے حقوق کیلئے جاگ چکے ہیں جنہوں نے لانگ مارچ کوٹ سبزل سے ملتان تک کاپہلامرحلہ مکمل کرلیاہے اوردوسرامرحلہ ملتان سے اسلام آباد کی تیاریاں بھی آخرمراحل میں ہیں اگرزیادتیوں کاسلسلہ نہ رکاتوپھردمادم مست قلندرہوگا۔

 

Ashiq Zaffar Bhatti
About the Author: Ashiq Zaffar Bhatti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.