بے روزگاروں سے سنگین مذاق

کسی بے روزگار نوجوان کو روزگار دینا تو حقیقت میں بڑا اچھا کام ہے لیکن بے روزگار نوجوانوں سے سنگین مذاق ‘ سب سے بڑا جرم قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس جرم میں حکومتی اور انتظامی ادارے بھی شامل ہیں جبکہ انتظامیہ کی چشم پوشی کی بنا پر پرائیویٹ ادارے تو تمام حدیں عبور کرچکے ہیں ۔اس حوالے سے چند اہم واقعات کی جانب میں توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ چار پانچ سال پہلے اخبارات میں پاکستان پوسٹ آفس کی جانب سے آسامیاں خالی کا ایک اشتہار شائع ہوا جس میں کمپیوٹر کا علم رکھنے والے گرایجویٹ نوجوانوں سے درخواست طلب کی گئی تھیں ۔در خواستوں کے ساتھ تعلیمی اسناد کی مصدقہ فوٹو نقل ‘ دو عدد تصویریں ‘ شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ 300روپے کا منی آرڈر بحق پاکستان پوسٹ آفس بھجوانے کی تاکید شامل تھی ‘ یہ تحریر بھی اشتہار کاحصہ تھی کہ 300روپے منی آرڈر کے بغیر کوئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی ۔چو نکہ سرکاری نوکریاں GOD Giftedتصور کی جاتی ہیں ‘ عام طور پر سرکاری ملازمتوں کے بارے میں یہ تاثر ذہنوں میں محفوظ ہے کہ کام کریں یا نہ کریں ماہانہ تنخواہ تو مل ہی جانی ہے ‘ جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کل تنخواہ کا 70فیصد حصہ بطور پنشن بھی مقد ر میں لکھ دیاجاتاہے دوسرے لفظوں میں سرکاری ملازمین کو حکومت کاداماد کہاجاتا ہے ۔ سمجھانے کے باوجود میرے بیٹے نے بھی سرکاری ملازمت کے شوق میں 300روپے سمیت تمام کاغذات کے ساتھ رجسٹرڈ پوسٹ کردیا ۔رجسٹرڈ پوسٹ پر 100روپے الگ خرچ ہوئے ۔اپلائی کرتے وقت میں نے کہا تھا بیٹا جی سرکاری ملازمتوں کے اشتہار اخبارات بعد میں شائع ہوتے ہیں ‘من پسند افراد کی سلیکشن پہلے ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ صرف خانہ پوری ہوتی ہے ۔اس وقت سے لے کر آج تک نہ توکوئی انٹرویو کال ملی اور نہ ہی 300روپے واپس ہوئے ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں افرادنے اپلائی کیا ہوگا اور پاکستان پوسٹ آفس کو بیٹھے بیٹھائے کروڑوں روپے مل گئے ۔اب یہ خطیر رقم کس کی جیب میں گئی ‘اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ اسی طرح دیواروں پر چسپاں "Call Center JoB"کا اشتہار ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے ۔ بے روزگاری سے تنگ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھام کے جب دیئے گئے موبائل نمبروں پر رابطہ کرتے ہیں تو انہیں انٹرویو کے لیے بلا لیاجاتا ہے۔مارننگ شفٹ کی تنخواہ 15سے 18ہزار روپے ‘ ایوننگ شفٹ کی تنخواہ 17سے 20ہزار روپے اور نائٹ شفٹ کی تنخواہ 20سے 30ہزار تک بتائی جاتی ہے ۔عمر کی کوئی قید نہیں لکھی ہوتی۔ایسے ہی اشتہار سے متاثر ہوکرایک تعلیم یافتہ نوجوان (ارسلان مرزا) بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا ۔انٹرویو کے دوران بتایا گیا کہ آپ کو ہم نے سلیکٹ کرلیا ہے آپ کی تنخواہ 20ہزار روپے ماہانہ ہوگی لیکن یہ تنخواہ اس شرط پر ملے گی اگر آپ کی گارکردگی ہمارے معیار کے مطابق ہوگی ۔2500 روپے سیکورٹی پہلے ادا کرنی ہوگی ۔ چھ مہینے تک ملازمت نہ چھوڑنے کی پابندی ہوگی ‘ اگر ملازمت چھوڑ دی تو آپ ہمیں 50ہزار روپے دے کر جائیں گے اس کی گارنٹی اسٹامپ پیپر پر لی جائے گی۔وہ نوجوان جس کے گھر میں فاقوں کا راج ہے‘ جو کرایہ بھی اپنے والد سے بمشکل لے کر گیا تھا وہ ایسی مشکوک اور خطرناک ملازمت کیسے کرسکتا تھا ‘ وہ انتہائی مایوس حالت میں واپس لوٹ آیا ۔اگلے دن وہی نوجوان ایک معروف اور بڑے ادارے میں ملازمت کی غرض سے چلاگیا تین دن تک مفت کام کروایا گیا ‘ چوتھے دن کہا آپ کو ہم ملازمت پر رکھ رہے ہیں ‘ صبح گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک ڈیوٹی ہوگی جبکہ تنخواہ دس ہزار روپے ہوگی ۔حالانکہ حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ 16ہزار روپے ہے لیکن انتظامی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تمام نجی ادارے اپنے ہاں کا م کرنے والے ملازمین کو آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ پر ملازم رکھ رہے ہیں۔یہی حالت پٹرول پمپوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے والے افراد کی ہے۔ محکمہ لیبر کے انسپکٹرز حضرات کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے غریب ملازمین کااستحصال روک سکیں اورانہیں حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ ہی دلوا سکیں ۔ یاد رہے کہ 16ہزار روپے تنخواہ ایک مزدور کی مقرر کی گئی ہے جبکہ گرایجویٹ نوجوانوں کو بھی کمترین تنخواہ ہی پر ملازم رکھنے کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جارہا ہے ۔کوئی پوچھنے والانہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن بہت ہے ‘ جب پیٹ بھر کے روٹی نہیں ملے گی تو جس کو موقعہ ملے گا وہ کرپشن ضرور کرے گا ۔بچے تو سب کے کھانے کے لیے روٹی مانگتے ہیں ‘ پہننے کے لیے کپڑا اور سکول جانے کے بعد بستہ ‘ وردی اور کتابیں کاپیاں مانگتے ہیں یہ سب کچھ آٹھ دس ہزار روپے کی تنخواہ میں کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے جبکہ سکولوں کی فیسیں بھی ہزاروں میں وصول کی جاتی ہیں ۔ان حالات میں لوگ چوری اور ڈاکہ زنی نہیں کریں گے ‘ رشوت وصول نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے ۔پیٹ تو سب نے بھرنا ہے چوری کرکے بھر لے یا رشوت کے پیسوں سے روٹی کھا لے ۔یہ درست ہے کہ نوکریاں دینا حکومت کا کام نہیں لیکن دھوکہ دھی کرنے والے اداروں اور بااثر لوگوں کو روکنا تو حکومتی اور انتظامی اداروں کا کام ہے ۔جو یکسر نہیں کیا جارہا ۔نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اگر نوجوان ہی مایوس ہوجائیں تو پھر اس قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.