نوآبادیاتی عہد میں تقریباً دنیا کسی نہ کسی طاقت کے زیر
تسلّط رہیں اس لحاظ سے دنیا میں دو طرح کی قومیں آباد ہیں ایک وہ ہیں جنہوں
نے آزادی کے بعد اس عہد کو یکسر نظر انداز اور فراموش کردیا جیسے ہسپانیہ
صدیوں عربوں کے ماتحت رہے، تقریباً اہلیان یورپ سلطنت عثمانیہ یعنی ترکوں
کے زیر اثر رہے اس کے علاوہ افریقہ، امریکہ، لاطینی امریکہ پر مختلف یورپی
اقوام نے سینکڑوں سال حکومت کی لیکن ان سب نے اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر
یکسر نظر انداز کردیا اور اس کا جائزہ لیکر اپنی کمزوریوں، غلطیوں کو
سدھارا اور نوآبادیاتی نظام و نسل پرستی کو انسانیت کے لیے لعنت سمجھا جبکہ
دوسری قوم ہندوتوا پرستوں پر مشتمل ہے جو ہر لمحہ اسی سوچ کو لیکر مریضوں
کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں کہ ان کے اجداد ہزار سال مسلمانوں کے غلام
رہے اور پھر سو سال تک انگریزوں نے ان کو چھڑی کے ساتھ ہانکا، ہندوتوا ماضی
سے سبق سیکھنے یا ماضی کے سیاہ باب کو بند کرکے نسل پرستانہ دور کے دروازے
بند کرنے کی بجائے احساس ندامت اور شرمسار ہی ہیں اور اس زہریلے مرض کا
شکار ہوکر اب ہندوتوا دہشتگرد معاشرے کے لیے ناسور بنتے جارہے ہیں، ہندوتوا
مریض انسانی معاشرے کو تیزی سے نوآبادیاتی عہد میں دھکیل رہے ہیں جیسا کہ
ماضی میں جب کوئی قوم کسی قوم پر غالب آجاتی تو شروع میں وہ مہذب و ہمدرد
ہوتے لیکن جوں ہی ان کی گرفت و طاقت بڑھتی تو وہ وحشی و ظالم بن جاتے تھے
بالکل اسی طرح ہندوتوا نسل پرست BJP کی شکل میں بھارت پہ قابض آئے تو شروع
میں انکی طاقت کم تھی تو سب کے ہمدرد تھے لیکن جوں ہی ان کی طاقت و اختیار
بڑھا تو انہوں نے نوآبادیاتی سوچ و فکر کا عملی اظہار شروع کردیا جس کے تحت
یہ خود کو اعلیٰ و برتر اور مہذب سمجھتے ہیں جبکہ دلت و دیگر اقلیتوں
بالخصوص مسلمانوں کو کم تر و غیرمہذب سمجھتے ہیں لیکن اس میں خوفناک ترین
پہلو یہ ہے کہ ہندوتوا سوچ و فکر معاشرے کو جاہلیت کے اندھیروں کی طرف ہی
لے کر جائیگی جیسے کسی بچے کو جب کہا جاتا ہے کہ وہ رہا چاند تو بچہ فوراً
انگلی کی طرف دیکھتا ہے جوکہ چاند نہیں ہوتی بلکہ چاند کی طرف ایک ڈائریکشن
یا زریعہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح اگر ہندوتوا سوچ و فکر کا جائزہ لیا جائے
تو آج کے جدید دور میں بھی ہندوتوا وزیر و سرغنہ لوگوں کو گائے کے گوبر و
گائے موتر کی تعلیم ہی دیتے پھرتے ہیں اور معاشرے کو ایک بار پھر دو ہزار
سال پیچھے لے جانے کے منصوبے پہ عمل پیرا ہیں کہ جس میں برہمن و اونچی ذات
کے ہندووں کے لیے ہی جینے کی آزادی تھی جبکہ دلت و دیگر طبقات کی زندگی
جانوروں سے بھی بدتر تھی، تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کی عوام کو اس سیاہ
دور سے نکال کر مہذب راستوں پر ڈالنے میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ
روشن رہا ہے اور ہندوتوا نسل پرست جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہوتے ہوے ان کا
یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ RSS نے BJP کی صورت اقتدار پہ
قبضہ کرکے بھارت کو نسل پرستی کے دور میں دھکیل دیا ہے جس میں ان کا سب سے
اہم منصوبہ مسلمانوں کے کردار و موجودگی کو ختم یا بیاثر کرنا ہے اور اس
ایجنڈے پہ عمل پیرا رہ کر BJP نے سب سے پہلے کشمیر کے اسٹیٹس کو تبدیل کرکے
وہاں کی آبادی کو ہندو اکثریت میں بدلنا شروع کردیا، اس کے بعد تاریخی ورثے
بابری مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کا عمل اختیار کیا اور پھر RSS کے
دیرینہ مطالبے CAB سٹیزن امینڈمنٹ بل کو عملی شکل دیکر مسلمانوں کو ان کی
اپنی ہی زمین پر بیگھر کردیا، جس کے خلاف نہ صرف مسلمان بلکہ سیکیولر و امن
پسند ہندو بھی سراپا احتجاج ہیں، صورتحال کو دیکھتے ہوے مکار امیت و شاہ و
نریندر مودی نے جھوٹ و مکاری سے کام لیتے ہوے بیان دیا کہ یہ مسلمانوں کے
خلاف نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان میں ظلم کا شکار بننے والے
ہندووں و دیگر اقلیتوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کے طور پر شناخت دینا ہے لیکن
یہ بیانیہ بھی RSS و دیگر سنگھ پریوار تنظیموں کا ہی ہے اور یہ دیرینہ
مطالبہ RSS کا ہی ہے جس پر RSS کے سرکریواہ (sarkaryawah) شری بھیا جی جوشی
کے ویڈیو بیان سے پھوٹ گیا ہے جس میں جوشی صاحب نے BJP بالخصوص نریندر مودی
اور امیت شاہ کا RSS کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوے کہا کہ ''ہم مودی و امیت
شاہ کا ہمارے دیرینہ مطالبے کو عملی شکل دینے پہ تہہ دل سے شکر ادا کرتے
ہیں اور اس بل کو مذہبی تفریق قرار دینے والوں کو بتادیں کہ 1947 میں
ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی'' جس میں واضح طور پر اشارہ
ہے کہ RSS اور BJP بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پہ بضد ہیں، اس کے علاوہ اگر
RSS کی قرار دادوں پر نگاہ ڈالی جائے تو CAA یعنی سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ کی
حقیقت اور امیت شاہ و نریندر مودی کے بیانات کی مکمل عکاسی ہوجاتی ہے کہ
حرف بہ حرف RSS کا بیانیہ و ایجنڈہ ہے، سب سے پہلے 1964 میں RSS کی ونگ
اکھل بھارتیہ پرادنیدی نے یہ قرارداد پیش کی، پھر 1978 اور 1993 میں اکھل
بھارتیہ کریاکری منڈل اور 2002 & 2013 میں یہ مطالبہ اکھل بھارتیہ پرادنیدی
سنھا نے دہرایا جسے وقتی طور پر مودی عددی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پورا
نہ کرپائے لیکن جوں ہی BJP کو R&AW بھاری اکثریت سے اقتدار میں لائی تو
ہندو راشٹر کی طرف ہندوتوا نسل پرستوں کے قدم تیزی سے بڑھ رہے ہیں، بھارتی
فوج کے موجودہ آرمی چیف کے سیاسی بیان جس میں بھارتی آرمی چیف نے BJP کی
ترجمانی کی ہے سے واضح ہے کہ بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت ہندوتوا نظریہ پہ
قائم ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی جائیداد ضبطی کا حکمنامہ جاری کرکے
ادیتیاناتھ یوگی نے ثابت در ثابت کردیا ہے کہ بھارت ایک نسل پرست ریاست ہے
اور UP کے ایک وزیر کپل اگروال نے بجنور کے دورے پر ایک زخمی ہندو شخص کے
گھر کا دورہ کرکے اور ساتھ ہی بھارتی پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والے دو
مسلمانوں سلمان اور انس کے گھر نہ جاکر یہ اشارہ دیدیا ہے کہ ان کے نزدیک
مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور اب اس کے بعد RSS کی سیاسی ونگ BJP جلد
ہی پاپولیشن کنٹرول بل کو لانا چاہتی ہے جس کا مطلب مسلمانوں کو شدید متاثر
کرنا ہے ماضی میں نریندر مودی کے اس بیان سے اس بل کے مقصد کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے، 2002 کے گجرات مسلم کش فسادات کے بعد مودی نے بیان دیا تھا کہ
''یہ سبق ہے انکے لیے جو آبادی کو ڈبل کرتے ہیں'' اب پاپولیشن کنٹرول بل کا
کیا مطلب ہوگا یقیناً مسلمانوں کو جائیداد اور انکے مذہبی حقوق سے محروم
کرکے ختم کرنا جبکہ دوسری طرف خوف پھیلانے کے لیے نسل پرست ہندوتوا
دہشتگردوں نے تلنگانہ میں جرمن نازیوں کی طرز پر لاٹھی بردار ریلی نکال کر
لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے، پوری دنیا میں ہندوتوا دہشتگردوں کے
انسانیت دشمن اقدامات پر تشویش کا اظہار کررہی ہے لیکن عالمی بااثر ریاستیں
اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں مصلحت کا شکار ہیں جوکہ عالمی امن کے
لیے بہت خطرناک ثابت ہوگا، BJP جرمن طرز پر ایک دفاعی سویلین چیف طعینات
کرنے کا ایجنڈہ رکھتی ہے جس طرح ہٹلر نے دفاع کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں
لیا تھا پھر کیا ہوا وہ دینا کے سامنے ہے اور اب جس دن BJP نے بھارتی دفاعی
معاملات RSS کے سپرد کردئیے تو یقینی طور پر دنیا کی تباہی کا عملی آغاز
ہوجائیگا اب یہ عالمی بااثر ریاستوں پر ہے کہ وہ ایسا واقعی چاہتی ہیں یا
دنیا کو ایک بار پھر 1945 سے پہلے کے عہد میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔
|