آجکل بھارت میں شہریت کا ترمیمی ایکٹ (CAA) پیش کیا گیا
ہے جس پر بھارت میںمظاہرے اور احتجاج سامنے آ رہے ہیں۔انکا وزیرِ داخلہ
نیشلرجسٹریشن آف سٹیزن متعارف کرانے کی وجہ اور ضرورت یہ بتا رہے ہیں۔ کہ
وہ پاکستان ،ا فغا نستان اور بنگلہ دیش میں غیر مسلموں پر ہونے والے مظالم
کی وجہ سے غیر مسلم خصوصی طور پر ہندو نقل مکانی کر کے بھارت آ جاتے ہیں۔
انکو شہریت دینے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ایک جھوٹا سیاسی بیان ہے ۔سب سے
پہلے اس الزام کی تردید کرتا ہوں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں غیر مسلموں پر
کسی زیادتی اور ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں
رہنے والے ہندو اپنے اندرونی تعصّب کی وجہ سےیہ سمجھتے ہیں کہ شائد بھارت
میں انکو پاکستان سے زیادہ سہولتیں ملیں گی۔(بھارت میں کیا ہوتا ہے یہ تو
بھارت پہنچ کر ہی پتا چلتا ہے)حالانکہ اسلامی ملک میں انکو کسی حد تک مقامی
مسلمان آبادی سے زیادہ اہمیت اور حقوق دیئے جاتے ہیں۔ کیوں کہ انکو ہمارے
اسلامی ملک میں مہمان کا اسٹیٹس بھی ملتا ہے۔ اب اگر کوئی مقامی مسلمان
آبادی کا کوئی شخص اپنی جہالتاو غرورا ور کینہ کی وجہ سے اس طرح کی زیادتی
کا مرتکب ہوتا ہے تو قانون غیر مسلم کے ساتھ ہو گا۔ اگر یہ میعار بنا لیا
گیا ہے کہ مسلمان ظلم کرتے ہیں تو کروڑوں بھارتی خلیج کی ریاستوں میں
ملازمتوں کے لیئے کیوں جاتے ہیں۔اور ریاست کی طرف سے کوئی زیادتی ممکن ہی
نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق ریاست میں غیر مسلموں کے بہت حقوق ہیں۔
غیر مسلموں کی قیادتو ں نے اسلام کو بد نام کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔اور
شیطانکے ان پجاریوں نے یہ موقف اس لیئے اختیار کیا ہوا ہے اگر عوام النّاس
نے اسلام کی سلامتی کو اختیار کر لیا تو انکی فسَاد پھیلانے کی حکمت عملی
نا کام ہو جا ئے گی۔جیسَاَ کہ سورَہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے۔
وَاِذَا قِيلَ لَهُم لَا تُفسِدُوا فِى الاَرضِۙ قَالُوٓا اِنَّمَا نَحنُ
مُصلِحُونَ ﴿۱۱﴾ اَلَا ٓ اِنَّهُم هُمُ المُفسِدُونَ وَلاٰـكِن لَّا
يَشعُرُونَ۔﴿۱۲﴾
(عمومی طور پر یِہ اَمن کے چمپین بنتے ہیں) جب ان سے کہو کہ زمِین پر فَساد
نَہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ بلا شبہ وہی فسَادی ہیں
لیکن اِسْکا شعور نہیں رکھتے۔
اب امن کے استحکام کےلیئے اسکے سوا کیا رہ جاتا ہے کہ انکو بزورِ طاقت
روکنا پڑے گا۔ اسلام اس کوشش کو جہاد کہتا ہے تو آگ لگ جاتی ہے۔ اور اسلام
سے ڈرانے کیلئے اسلامو فوبیا کی اصطلاح بنا ڈالی۔آزادی کی حدود وہاں تک
ہوتی ہیں جب تک دوسرے کی آزادی متاثر نَہ ہو۔اسلام تو نظم و ضبط کا مذہب ہے۔
ڈسپلن قائم کرنے کے لیئے اللہ کے قانون کی بالا دستی نَہ ماننے والے(کافروں)
سے نمٹنے کا طریقہ سزا اور جزا کا عمل ہی ہو سکتا ہے۔اب بہت سے کفّار (یعنی
غیر مسلم) قرآن میِں یِہ دکھاتے ہیں۔ کہ کفّار کو قتل کرنے کو کہا ہے تو
دنیا کے قانون میں دہشتگرد کی کیا سزا ہے الفاظ اور ناموں کی تبدیلی سے کیا
ہوتا ہے۔دہشتگرد بھی ایک کافر ہے۔ مگر ان شیطانوں نے مسلمانوں کو ہی
دہشتگرد کہنا شروع کر دیا۔ ان کا خیال ہے کہ جھوٹ بولتے بولتے جھوٹ سچ ہو
جائےگا۔
اَمِت شاہ کی کوشش یہ ہے کہ بھارت کو ہندو راشتر بنا دیا جائے ۔اور اس کوشش
میں مسلمانوں کو جتنا زیادہ نقصان ہو گا۔ انکے انتقام کو اتنا سکون ملے گا۔
حالانکہ ہندوؤں کے پاس مسلمانوں کے ظلم کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔یہ سب برہمنوں
کا جھوٹ ہے۔اور ان برہمنوں نے جو مظالم دَلِت آبادی پر ڈھائے ہیں، وہ آجتک
دلتوں پر جاری ہے، بھارت کی آبادی کا ساڑھے تین فیصد برہمن نے، پچّاسی فیصد
دَلِت آبادی کو ہمیشہ اپنا غلام بنائے رکھّا۔
اور انکو مندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کو قتل کرنے
کیلئے ہندو ہیں۔ یا انکی عورتوں سے بلاتکار کرتے ہیں زبر دستی اٹھا لیجاتے
ہیں۔
مودی اور امت شاہ کو شرم آنی چاہیئے۔ کیاانکے مظالم ابھی انتہا کو نہیں
پہنچے؟۔ |