کلاس کی پہلے قطاروں میں بیٹھے ہوئے چند عام لڑکے،جن کے
قیافے سے ان کی غربت اورافلاس کااندازہ ہوتاتھا۔پرانے بوسیدہ کپڑوں میں
ملبوس تھیاور پھٹے ہوئیجوتے پہنے ہوئے تھے۔ان طلباء کی تعداددس یابارہ
ہوگی۔میرے لکچرکو پوری کلاس میں صرف یہی چند نوجوان غورسنتے ہیں اور لکچرکے
اختتام پر سبق میں سوالات پوچھناشروع کردیتے ہیں جبکہ باقی طلباء صرف میری
ذات اورمیرے گذشتہ تجربے سے متعلق غیرضروری سوالات پوچھتے ہیں۔ یہ دس بارہ
طالب علم ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جوروزانہ کالج تک آنے کے لئے
دوگھنٹے کی مسافت طے کرتے ہیں۔میں نیادارے کے دیگراساتذہ سے بھی سناکہ پوری
کلاس میں یہی چند نوجوان ایسے ہیں، جو سبق کو غورسے سنتے ہیں اورہمیشہ مثبت
انداز میں جواب دیتے ہیں۔باوجود طویل مسافت کے یہ طلبہ صبح سب سے پہلے کلاس
کے لئے پہنچتیہیں۔انکے علاوہ باقی طلبہ کالج کے قرب وجوارمیں رہتے ہیں۔
انکے پاس کالج آنے کے لئے بائیک اورموٹرکاربھی ہیں،مگروہ کبھی وقت پر کالج
نہیں آتے اورنہ سبق میں انکی طرح دلچسپی لیتے ہیں۔کافی دنوں سے یہ دس بارہ
طالب علم اصرارکررہے تھے کہ وہ اپنے اساتذہ کی دعوت کرناچاہتے ہیں، تاکہ
اساتذہ انکے علاقے کو دیکھ لیں ۔ ایک دن اساتذہ نے متفقہ طورپر ہامی بھرلی
اورانکے علاقے کی جانب عازم سفرہوئے۔ پیدل سفرشروع ہوا۔ کچھ فاصلہ میدانی
علاقے میں تھاجبکہ اسکے بعدایک پہاڑ کو سرکرنے کاسفرشروع ہوا۔سفرکیاتھا،
ختم ہونے کانام نہیں لے رہاتھا۔ ہمارے طلباء پہاڑسے اترکرہماراانتظارکررہے
تھیاورہمارے ساتھ ہوکر ہمیں علاقے کی خوبصورتی کے بارے میں بتارہے تھے۔
تقریباً دوگھنٹے کی طویل مسافت کے بعدہم پہاڑ کے چوٹی پرپہنچے، جہاں
خوبصورت اورسرسبزوشاداب کھیتوں میں چند کچے مکانات بنے ہوئے تھے،جن میں اس
علاقے کے غریب لوگ رہائش پذیرتھے۔ ہمارے طالب علموں کاتعلق انہیں گھرانوں
سے تھا۔اس علاقے میں بجلی نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ کبھی ہم نے اپنے طالب
علموں کے ہاتھوں میں موبائل فون نہیں دیکھے تھے اورنہ ہی وہ انٹرنیٹ
اورسوشل میڈیا کی دنیا سے محظوظ ہوتے تھے۔ انہیں بس کتاب سے
سروکارتھااورسارے ساتھی کتاب کو جنون کی حد تک چاہتے تھے۔ انہوں نے
ہمارابہت خیال رکھا اورپرتکلف دعوت کااہتمام کیاتھا۔ انہوں نے ہمیں وہ
مقامات بھی دکھائے، جہاں وہ انتہائی پرسکون ماحول میں بیٹھ کراپنی کتابوں
کامطالعہ کرتے ہیں۔انکے ہاں ادب ہے، سلیقہ ہے، عاجزی ہیاورسب سے بڑھ
کرکامیابی حاصل کرنے اورمنزل تک پہنچنے کاجذبہ اورامنگ ہے۔یہی اسباب انسان
کو منزل تک پہنچاتے ہیں اورایسے نوجوان ہی دراصل اقبال کے شاہین ہیں۔
واپسی پر ہم پر یہ بات منکشف ہوگئی کہ تاریکیوں میں رہنے والییہ چند طلبہ
علم کے حصول کے لئے کس قدر زحمت اٹھاتے ہیں، جوسائنس اورٹیکنالوجی کے اس
ترقی یافتہ دورمیں رات کو چراغ کی روشنی میں پڑھائی کرتے ہیں جبکہ دوسری
طرف ہمہ وقت روشنیوں میں رہنے والے کس قدرغافل ہیں۔ موبائل اورانٹرنیٹ نے
ان نوجوانوں کے دل ودماغ کو کس قدرماؤف کردیاہے۔ نہ کتاب میں دلچسپی، نہ
تحقیق کی جستجو، نہ وقت کی قدر، نہ اپنے استادکااحترام اورنہ اپنے مستقبل
کی فکر۔ بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرفرداہیں۔ تن آسانی نے انہیں
نکماکردیاہے۔انہیں فرصت نہیں، دنیاکے رنگینیوں سے۔ انہوں نے کتاب کاوقت بھی
فیس بک کی نذکردیاہے۔ یہ نوجوان والدین کی توقعات کوخاک میں ملاتے ہیں
اورناکامی انکامقدربن جاتی ہے۔
یہ حقیقت ہم پر اس وقت کھل گئی جب ادارے میں میڈٹرم کے امتحانات
ہوئیاورنتائج کے بعد طلباء کو انعامات دینے کادن آیا۔ کمیٹی نے اپنی اپنی
کلاس میں اورپھرادارے میں بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبہ کی فہرست
بنائی۔اسکے علاوہ سب سیکم چھٹی کرنے والے طلبہ کے ناموں کی بھی نشاندہی کی
گئی۔ انعامات کی تقسیم کاسلسلہ شروع ہوا، توپورے ادارے میں انہیں دس بارہ
طالب علموں نے امتحانات میں اچھی کارکردگی کے ایوارڈز جیت لئے۔اسکیبعد
باقاعدگی سے کالج میں آنے والے طلبہ کی باری آئی، توخداکی قدرت دیکھو، کہ
اس میں بھی انہیں طالب علموں کے نام نکل آئے۔میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ
جوطالب علم سب سے زیادہ طویل مسافت طے کرکے سکول آتے ہیں، انکی ایک بھی
غیرحاضری نہیں نکلی جبکہ ادارے کے قرب وجوارمیں رہنے والوں کی غیرحاضریاں
ان سے زیادہ تھیں۔ اسی طرح رات کی تاریکی میں چراغ کی روشنی میں پڑھنیوالوں
نے امتحانات میں بہترین کارکردگی دکھائی جبکہ جہاں ہمہ وقت برقی قمقمیروشن
ہیں، وہاں کے پڑھنے والے پیچھے رہ گئے۔جب پہاڑکی چوٹی پررہنے والے ان چند
نوجوانوں نے اپنااپناایوارڈہاتھ میں اٹھائے ہوئے گروپ تصویربنائی،تب سارے
طالب علم انگشت بدندان مایوسی اورتہی دستی کے عالم میں انکی طرف دیکھ رہے
تھیاورانکے پاس ندامت کے سواہ کچھ نہ تھا۔آج مجھے یقین ہواکہ علم کے لئے
قربانی دینے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے اورایسے لوگ ہمیشہ تاریکیوں سے
روشنیوں کی جانب سفرکرتے ہیں اورکامیابی کے ساتھ منزل سے ہمکنارہوتے ہیں۔ |