روزبروز بڑھتی بجلی ،گیس ، پٹرول ، ڈالر کی قیمتوں
اور اشیائے خورد و نوش کی ہوشربا گرانی نے پاکستانی شہریوں کو تشویش میں
مبتلا کررکھا ہے۔ ایک طرف ملک میں معاشی بدحالی کے ڈیرے ہیں تو دوسری جانب
ہر گزرتے دن کیساتھ روپے کی قدر میں کمی ، بجلی ، گیس سمیت اشیائے خورد و
نوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہونے والی مہنگائی سے غریب اور متوسط طبقے
کا جینا دوبھر ہو کررہ گیا ہے ۔ مزید ستم یہ کہ نیشنل الیکٹرک پاور
ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے
دی ہے ، فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جانے والا یہ اضافہ اکتوبر میں
استعمال کی گئی بجلی پر لاگو ہوگا ۔ جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت اس دعوے کے
ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ چوروں ، لٹیروں کا کڑا احتساب کرکے غریبوں
کو ریلیف فراہم کرے گی اور عوام خوشحال ہوں گے۔ مگر جس دن سے پاکستان تحریک
انصاف برسر اقتدار آئی ہے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈی ختم کردی گئی
ہے، روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آرہا۔ آئی ایم ایف
کی کڑی شرائط بارے سن کر غریب اور متوسط آمدنی والے افرادافسردہ اور پریشان
ہیں۔ جنوری سے گیس کی قیمت میں مزید ڈھائی سو فیصد اضافے کا بم گرایا جا
رہاہے ، شاہراہوں پر ٹول ٹیکس کی شرح میں اچانک اور بغیر کسی پیشگی اطلاع
کے بڑا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ زرعی اجزاء، کھاد کی قیمتوں میں اضافے نے
کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ،صوبوں کے وسائل روک کر انسانی ترقی کو
تباہی سے دوچار کردیاگیا ہے، ادویات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ
اورہسپتالوں میں دی جانے والی مفت ادویات کی سہولت ختم کردی گئی ہے۔ اسی
لاکھ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں، اس سب کے باوجود
آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے لیے
مسلسل دباؤ ہے اور اس کے سامنے حکومت نے سرتسلم خم کررکھا ہے ۔ ملک میں
صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور برآمدات بری طرح متاثرہیں، معاشی ترقی کا ہر
اشاریہ تیزی سے نیچے جارہا ہے ، اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان اور ان
کی ٹیم معیشت کی بہتری کے دعوے کررہی ہے ۔
بظاہر حکومتی اقدامات کے مطابق پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ خراب
معاشی صورت حال پر قابوپانے کے لئے دی جا رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی
معاشی ٹیم آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی اداروں اور دوست ملکوں سے مدد
لینے کے علاوہ ملک کے اندرونی وسائل کو بھی بروئے کار لانے کیلئے سرگرداں
ہے ۔ معیشت میں بہتری لانے کی ان کوششوں کو متعدد عالمی تجزیاتی اداروں نے
سراہا ہے ۔ تاہم سب سے زیادہ توجہ طلب تجزیہ خود آئی ایم ایف کا ہے جو
اربوں ڈالر کے قرضوں اور معاشی ومالیاتی مشوروں کے حوالے سے پاکستان کی اس
اقتصادی جدوجہد کا ایک سنجیدہ کردار ہے ۔ آئی ایم ایف نے ایک جائزہ رپورٹ
میں متنبہ کیا ہے کہ تمام تر مثبت اشاریوں کے باوجود پاکستان کو آئندہ
برسوں میں بھی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ شرح نمو ہدف سے کم ہو سکتی ہے ۔
تجارتی و بجٹ کا خسارہ بڑھ سکتا ہے ایف اے ٹی ایف کی ممکنہ بلیک لسٹ سے
سرمایہ کاری میں کمی آسکتی ہے ۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں پیش رفت سست روی کا
شکار ہے ۔ آئی ایم ایف کے خدشات اور مشوروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو
حکومت اقتصادی محاذ پر ملک کے تمام علاقوں ، طبقوں اور صنعتوں کی یکساں
ترقی کے تقاضوں سے پوری طرح باخبر ہے مگر عوام کو لاعلم ہی رکھنا چاہتی ہے۔
ہمارے ہاں مقتدر ادارے سمجھتے ہیں کہ عوام اس قابل نہیں کہ ان کے سامنے کسی
اضافے کی وجہ بتائی جائے یا انہیں قائل کیا جائے کہ اضافہ ناگزیر تھا۔ اسی
لیے عوام اپنے آپ کو حکومت میں شریک محسوس نہیں کرتے ۔ حکومت اور عوام کے
مابین جو ایک ناگوار بیگانگی پائی جاتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے ۔ حکومتی
ادارے بند دفتروں میں بیٹھے ایسے فیصلے کرتے رہتے ہیں جن سے عوام متاثر
ہوتے ہیں،لیکن وہ کبھی وجہ بتانے یا ان فیصلوں کے ضروری ہونے کی وجوہات
عوام کے ساتھ شیئر نہیں کرتے ۔ انہیں احساس نہیں دلاتے کہ حکومت انہیں اہم
حصہ سمجھتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں حکمران اور عوام ریاست
میں دو الگ الگ دھاروں کی طرح رہتے ہیں جو باہم کبھی نہیں ملتے ۔ عوام
حکومت سازی کا ذریعہ ضرور ہیں، کہ اس کے بغیر چارہ نہیں، مگر ہمارے ہاں
جمہوریت کی روح کو ماننے کی بجائے اسے صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ مانا
جاتا ہے ۔ موجودہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے تو کررہی ہے مگر عملی
طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔یوٹیلیٹی سٹورز جو کبھی عوام کیلئے دال،
چینی ، گھی وغیرہ کی نسبتاً سستے داموں فراہمی کا ذریعہ تھے ،مگر موجودہ
حکومت نے عوام کی اس سہولت کو بھی تقریباً ختم کر دیا ہے ۔ اس کے متبادل کے
طور پر کتنے ہی منصوبے پیش کئے گئے ،جن میں ایک کم آمدنی والے گھرانوں کے
لیے راشن کارڈ کا اجرا تھا اور ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ایسے سٹور کھولے
جانے تھے جہاں سے سستے داموں اشیائے خورو نوش خریدی جا سکتیں، مگر کئی ماہ
گزرنے کے باوجود ان منصوبوں کا بھی کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ نتیجتاً
ملکی آبادی کا بیشتر حصہ خط غربت کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے، دوسری
جانب بیروزگاری بھی برق رفتاری سے بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ ان سنگین حالات
میں برسر اقتدار شخصیات کو غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے اداراک ہوناچاہیے
، اور مہنگائی کی بجائے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے عملی اقدامات کرنا
چاہیے تاکہ غریب و متوسط طبقہ سکھ کا سانس لے سکے ۔
|