محترم وجاہت مسعود کا نیا کالم''پاکستان کے شہری قائد
اعظم کا خاندان ہیں'' ، یوں پڑھا کہ ایک ایک لفظ جسم کو سیراب کرتا گیا۔
غاصب' مائینڈ سیٹ 'سے عوامی آگاہی پیدا کرنا بنیادی ضرورت ہے۔ ان کے پاس
دلیل کا فقدان ہے۔وہ دلیل سے برا مان جاتے ہیں۔دلیل کا مقابلہ طاقت سے کرتے
ہیں۔بقول شاعر
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پہ کلام نرم و ناک بے اثر
''وجاہت مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ '' پاکستان کے شہری قائد اعظم کا خاندان
ہیں ''، شاید اسی لئے غاصب حاکمیت شہریوں کو مسلسل سزایاب کر رہی ہے۔قائد
اعظم کی شخصیت ،کردار ،افکار کا بیان تو شاندار ہے لیکن حقیقت میں پاکستان
میں شہریوں کی حالت ابتر اور صورتحال ناقابل اصلاح معلوم ہوتی ہے۔قیام
پاکستان سے پہلے '' آدھی روٹی آدھا پیاز'' کھانے والے عوام نے قائد اعظم کی
آواز پہ لبیک کہتے ہوئے پاکستان بنایا۔ اب بھی پاکستان میں عام شہری '' آدھ
روٹی آدھا پیاز'' کھا کر بھی پاکستان کی فکر میں ہیں جبکہ پاکستان سے معاشی
، سماجی طور پر خوب خوب فیض یاب ہونے والے ارباب اختیار اس ملک کو برباد
کرتے ہوئے تباہ کرنے کے درپے ہیں۔سیاسی ، سماجی ، معاشی حقوق سے محروم
،غربت اور ذلت کے مارے عوام ۔ عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ خوشحال پاکستان ! خواص کی شاندار سماجی زندگی، بہترین طبی ،
تعلیمی سہولیات، ان کی نسلوں کا مستقبل تابناک ، غربت اور ذلت عوام کا مقدر
بنا دیا گیا ہے۔
ان کی عقل کا تو یہ عالم ہے کہ جس شاخ سے پیدا ہوتے،پھلتے ،پھولتے ہیں،اسی
کو کاٹنے کے درپے ہیں۔اپنی غاصبانہ حاکمیت کی تابعداری ، دفاداری کو ہی ملک
( در اصل اپنی حاکمیت) کی اطاعت قرار دیتے ہیں۔شعور رکھنے والے شہری کبھی
اس اغوا شدہ عورت کی مانند روئیے کا مظاہرہ نہیں کر سکتے جو ایک عرصہ اپنے
اغوا کنندہ کے ساتھ رہنے کے بعد اسے اپنا سب کچھ قبول کر لیتی ہے۔
کبھی سنتے تھے کہ پاکستان کے چند درجن امیر اور طاقتور خاندان۔اب آ کے
معلوم ہوا کہ ان خاندانوں میں ایک ایسا خاندان بھی ہے جو سب سے طاقتور
ہے۔جس کی طاقت ملک میں ناقابل چیلنج ہے۔ جو خاندان کسی کو جوابدہ نہیٰں
بلکہ ہر ایک اس کو جوابدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خاندان کی نظر کرم کسی کے بھی
دن پھیر دیتی ہے۔اس خاندان کی ناراضگی خاندانوں کے خاندان تباہ اور برباد
کر سکتی ہے۔ اس خاندان کا غصہ ملک کے تمام خاندانوں ہی نہیں بلکہ ملک بھر
کی ناراضگی اور غیض و غضب پر فیصلہ کن برتری رکھتا ہے۔اس خاندان کی ایک
صلاحیت یہ بھی ہے کہ ان کا غصہ ملکی مخلوقات پر ہی ظاہر ہوتا ہے۔ ملکی حدود
سے باہر تمام عالمی اخلاقی و قانونی روئیے حرف آخر قرار پاتے ہیں اور اس
معاملے میں غصہ کرنا حرام قرار پاتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ' آئی ایس پی آر ' میجر جنرل آصف غفور صاحب کا کہنا ہے کہ
فوج ایک خاندان ہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ تمام ملک کے شہری ایک خاندان ہیں
اور فوج ان کی طاقت کا بازو ہے۔ لیکن پتہ ہی نہیں چلا کہ کب کسی بچے کی
مانند وہ بازو اتنا بڑا ہو گیا کہ اپنے خاندان کی طاقت کے بازو سے الگ ہو
کر خود کو الگ خاندان سمجھنے لگ گیا۔ اب ایک پاکستانی خاندان کی'' فرسودہ''
سوچ پہ یقین رکھنے والے اپنے ملک کے اس بر تر ترین خاندان کی اطاعت کریں کہ
ان کی حاکمیت کی اطاعت ہی ملک سے وفاداری ہونا سمجھائی جاتی ہے۔ ان کی
حاکمیت نظر آئے یا نہ آئے، انہی کی اطاعت میں عزت ،جان و مال کے' ملٹی
پرپز' فوائد پوشیدہ ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور صاحب نے کہا ہے کہ فوج ایک خاندان ہے۔اس خاندان کا دماغ
ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ ملک کا سیاہ کیا جائے یا سفید۔اس خاندان کے علاوہ
کسی کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کے مفاد اور اس کی حدود و قیود کا
تعین کرے۔ یہی خاندان مقدس خاندان ہے جس کے احسانات کا بدلہ ملک میں رہنے
والی کوئی بھی مخلوق مر کر بھی نہیں چکا سکتی۔
ہم نے تو دنیا کو یہ بتانا تھا کہ اسلام کس طرح کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے
والے اپنے شہریوں کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ لیکن پاکستان میں غاصب طاقت نے
مذہب کی کم علمی تشریح کو فروغ اور اسے ایک ٹول کی طرح استعمال کرتے ہوئے
اپنی حاکمیت کا ایک ہتھیار بنا لیا۔پاکستان میں ہر شعبہ زندگی کا اپنا طبقہ
ہے، ملک میں رہنے والے تمام شعبوں کے لوگ ایک خاندان نہیں بلکہ فوج ایک
مضبوط خاندان ہے۔ شہریوں کا کیاکہنا ، وہ تو مفتوحہ لوگ ہیں جنہیں عرصہ
دراز ہوئے فتح کر لیا گیا ہے۔
|