السلام علیکم ورحمتہ الله وبرکاتہ
💞ﺑِﺴْــــــــــــــــﻢِ ﺍﻟﻠﻪِ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﻴْـــﻢ💞
نیا سال اس احساس کو جنم دیتا ہے کہ سب کچھ بدل جائے گا۔ وہ جو دکھ ماضی کا
حصہ تھے وہ دکھ اور وقت کٹ گیا، اب نئے تقاضے ہمارے منتظر ہیں لیکن درحقیقت
نئے سال کے ساتھ نیا احساس نئے تفکر نئی منزل اور نئے راستوں جیسے عناصر کو
مجتمع کر دیا جائے تو ہم اپنے گھر کی دہلیز پر امیدوں اور امنگوں کا سورج
لگا سکتے ہیں جس کی روشنی سے پورا گھر منور ہو جائے گا۔ ریاست کی مثال بھی
گھر کی مانند ہوتی ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے تصور کو ہی الجھا
دیتے ہیں۔ حضرت واصف علی واصف کا قول ہے کہ زندگی الجھے ہوئے سوال کا نام
نہیں ہے، ایسے حسین خیال کے حسن کو وہ کیا محسوس کرے گا جو ذات کے پیکر میں
گم انسانیت سے بہت دور ہے۔ درحقیقت کامیابی یہ نہیں کہ ہم اپنی ذاتی زندگی
کس حد تک خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ کامیابی کا معیار تو یہ ہے کہ ہم دوسروں
کی زندگی خوشگوار بنانے میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ زندگی کے سفر
کے مشاہدے میں یہی سیکھا ہے کہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے والا خود کو ہلکا
پھلکا محسوس کرتا ہے اور دوسروں پر جبراً بوجھ لادنے والا کئی قسم کے فوبیا
اور بوجھ میں دبتا چلا جاتا ہے۔ سال گزشتہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
یہ ایک گھمبیر سوال ہے لیکن ہر آنے والا پل ہمیں بہت کچھ سکھا کر جاتا ہے۔
ہم ان پلوں میں وہ کچھ سیکھ جاتے ہیں جس کا ادراک ہمیں پہلے نہیں ہوتا۔
سوال تو یہ ہے کہ ہم نے کس حد تک خامیوں کا ازالہ کیا اور خوبیوں کا احاطہ
کیا۔ بات پھر وہیں آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ کامیابی کسی جزوی کامیابی کا
نام نہیں بلکہ مکمل زندگی کے کامیاب ہونے کا نام کامیابی ہے۔ ظاہر ہے کہ
موت زندگی کو مکمل کرتی ہے اور جب تک موت کامیاب نہیں ہوتی زندگی کے کامیاب
ہونے پر شبہ رہتا ہے اور کامیاب موت ضمیر کے بوجھ سے مبرا ہوتی ہے۔ فرعونوں
کے شہر کا یہ دستور تھا کہ وہاں پر جنگل کا قانون چلتا تھا، کمزوروں کو دبا
کر رکھا جاتا تھا۔ ایسا معاشرہ جہاں جنم لیتا ہے وہاں زور اور زر کی زرہ
بکتر پہنے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہاں قانون طاقت نہیں طاقت
قانون ہوتی ہے اور معیشت کی گائے بھی زورآور کے گھر میں آ کر دودھ دیتی
ہے۔ نئے سال کے تقاضوں میں تو تجدید وفا تجدید حب الوطنی اور احساس کا جذبہ
گر مطمع نظر بن جائے تو ہر آنے والا سال نئی نوید اور خوشخبریاں لے کر
آتا ہے لیکن اگر اس کے برعکس صورتحال ہو تو یہی کہا جا سکتا ہے
نظر کے سامنے پھیلا ہے صحرا
برس کا پہلا دن ہے میں ہوں
کسی بھی سال کسی بھی حال کے بدحال ہونے کے باوجود خوشحال ہونے کی نوید اور
امید ترک نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جسے ہم تاریکی سمجھ رہے
ہوں یہی صبح کاذب صبح صادق کا آغاز ہو۔ گویا کہ لمحوں میں احساس بھر دیا
جائے تو سالوں تک احساس خودرو پودے کی طرح پنپتا رہتا ہے۔ بس کبھی کبھار
خلوص اور محبت کا پانی اس فصل کو لگتا رہے۔ قارئین کرام بس ایک اصول یاد
رکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی واقعہ اپنے صحیح تناظر میں نظر نہیں آتا۔ مزاج
کسی واقعہ کا پس منظر بدل دیتا ہے اور مفاد پیش نظر منظر کو دھندلا دیتا ہے۔
پھر ہر سال دھندلا جاتا ہے۔ گھر کے دروازے پر سال نو نئی تبدیلیوں کی دستک
نہیں دیتا ہے۔ یہ دستک بھی عجیب چیز ہے۔ ہم دستک دینے کے عادی ہیں، سننے کے
نہیں۔ جس دن ہم اندر کی دستک کو سننے کا ہنر سیکھ لیں گے باہر کی دستک کا
مفہوم اور معانی سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے اور دستک اگر صراط مستقیم کی
ہو تو کیا بات ہے۔ عام طور پر مختصر راستے محفوظ راستے نہیں ہوتے لیکن صراط
مستقیم وہ راستہ ہے جو محفوظ بھی ہے اور مختصر بھی… جس پر سکون ہی سکون ہے۔
وقت کی قید سے آزاد سالوں کی بندش سے مستثنیٰ… اور اگرسال نو کے آغاز سے
ہی یہ مطمع رکھ لیا جائے کہ سارا حسن تو منزل کے حصول میں ہے تو ہر قدم
منزل بن جاتا ہے۔ ہر منزل خود بخود اپنے راستوں کی طرف بڑھتی ہے اور ترقی
کا سفر آسان ہو جاتا ہے اور منزل کا حسن گھر بیٹھے ہی آشکارا ہونے لگتا
ہے۔
وہی بات آپ کو ہمیشہ کی طرح کہنی ہے آخر میں میں آپکو اپنی دعاؤں میں اور
آپ مجھے اور مجھ سے جڑے ہر رشتے کو آپ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں دعائیں وہ
پھول ہیں جو زندگی کی پریشانی میں آسانی اور کامیابی کی خوشبو بکھیرتی ہیں۔
دعا ھے کہ آپ صحت والی زندگی کے ساتھ سلامت رہیں ۔ یااللہ ہم سب کی ایمان
جان مال عزت و آبرو کی حفاظت فرما اور ہمارے رزق و روزی و عمر میں برکت عطا
فرما ، بیماروں کو شفاء کاملہ عطا فرما ، ہماری اور ہمارے تمام عزیز و
اقارب و دوست احباب کی مغفرت فرما۔
آمیـــــــــــــــــن ثم آمیـــــــــــــــــن یا رب العالمین ﷻ بطفیل
سید المرسلین ﷺ . •┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈•
💖✨صلی الله علیہ وآلہ وبارک وسلّم✨💖
آپ کی دعاؤں کا طلبگار
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
|