مریخ پر سیلفی اور سنومین: 2019 کی بہترین اور لاجواب خلائی تصاویر

image


سنہ 2019 میں کچھ بہت مشہور خلائی مشن ہوئے جہاں سے لاجواب تصاویر زمین پر بھیجی گئیں۔ اسی دوران ہم نے زمین پر اپنی طاقتور ترین ٹیلی سکوپس کو بھی کائنات کے کچھ دلربا اہداف پر فوکس کر رکھا ہے۔

ذیل میں وہ اس سال کی بہترین خلائی تصاویر میں سے چند پیش کی جا رہی ہیں۔

بادلوں سے اوپر
 

image


ناسا کا خلائی جہاز جونو مشتری کے بادلوں کی خوبصورت تصاویر بھیج رہا ہے۔ جونو 2016 میں مشتری کے مدار میں داخل ہوا۔ اس خوبصورت تصویر میں جسے ایک سے زیادہ تصاویر کو جوڑ کر تیار کیا گیا ہے، ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سنگ مرمر کی تصاویر ہیں۔ یہ تصویر 29 مئی کو زمین پر پہنچنے والی چار تصاویر کو جوڑ کر تیار کی گئی ہے۔ اس وقت جونو سورج سے پانچویں نمبر پر موجود اس سیارے کے بادلوں کے اوپر 18 ہزار 600 کلومیٹر اور 8600 کلومیٹر کی دوری سے گزر رہا تھا۔
 

image


مشتری کے مدار میں لی گئی اس اس تصویر میں ایک دائرہ نما چیز کے گرد گھومتے ہوئے بادلوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

دی سنومین
 

image


سنہ 2015 میں پلوٹو کے پاس سے گزارے گئے ناسا کے خلائی جہاز نیو ہورائزنز کو پلوٹو کے بعد کائپر بیلٹ کے اندر ایک مختلف ہدف کی طرف روانہ کیا گیا۔ یہ بیلٹ نیپچون کے مدار سے کہیں آگے ایک ایسا علاقہ ہے جس میں ہزاروں قدیم اور برفیلی اشیا بکھری ہوئی ہیں جو نظام شمسی کی شروعات کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔

سائنسدانوں نے سنہ 2014 میں دریافت کیے گئے MU69 پر اتفاق کیا۔ پہلے الٹیما ٹولی اور اب ایروکوتھ کہلانے والا یہ جسم اصل میں 39 کلومیٹر طویل دو برفانی تودے ہیں جو بہت کم رفتار سے ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ سطح پر موجود تھولن نامی نامیاتی مرکب کی وجہ سے یہ سرخی نما رنگ پیدا ہوا ہے۔

فلکیاتی آتش بازی
 

image


ایٹا کیرائنے ستاروں کا ایک سسٹم ہے جو زمین سے 7500 نوری سال دور ہے۔ یہ کم از کم دو ستاروں پر مشتمل ہے اور دونوں ستارے سورج سے پچاس لاکھ گنا زیادہ توانائی خارج کرتے ہیں۔ ایک سیارہ گرم گیسوں کو خارج کر رہا ہے جس سے غبارے نما لوتھڑے پھول رہے ہیں۔ عشروں سے ماہرِ فلکیات یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ ستارہ تباہی کے دہانے پر ہے اور کیا یہ سپرنووا کی صورت میں ایک زبردست دھماکے کے ساتھ ختم ہوگا؟

فلکیاتی آتش بازی کی یہ تصویر رواں سال جاری کی گئی اور اسے ناسا کی ہبل سپیس ٹیلی سکوپ کے وائڈ فیلڈ کیمرہ تھری سے بنایا گیا ہے۔

مریخی سیلفی
 

image


ناسا کا ’کیوریوسٹی‘ روور 2012 سے مریخ کے گیل گڑھے کی معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس روبوٹ نے ماونٹ شارپ کی ڈھلوان کا معائنہ کرتے ہوئے اپنی ایک سیلفی بنائی۔ ماونٹ شارپ گیل گڑھے کا درمیانی حصہ ہے جو کسی شہابیے کے گرنے سے پیدا ہوا ہے۔

اس جگہ پر چٹانوں میں ڈرلنگ سے حاصل کیے گئے نمونوں میں چکنی مٹی یا گارے جیسی معدنیات کا پتہ چلا ہے۔ گارہ زیادہ تر پانی کی موجودگی میں ہی بنتا ہے اور پانی زندگی کا بنیادی جزو ہے۔ اس سے پہلے ملنے والی شہادتوں سے ایسا ثابت ہوتا تھا کہ گیل گڑھے میں پانی جمع ہوتا رہا ہے۔

چانگ 4 کی چاند کی’دوسری جانب‘ لینڈنگ
 

image


رواں برس 3 جنوری کو چین کا خلائی مشن ’چینگے 4‘ چاند کی اس جانب لینڈنگ کی جو زمین سے نظر نہ آنے کی سبب فار سائیڈ یا دور دراز جگہ کہلاتی ہے۔ اس سے پہلے کسی خلائی جہاز نے یہاں لینڈنگ نہیں کی ہے۔ چاند پر اترنے کے چند دن بعد روبوٹک روور اور لینڈر پر موجود کیمروں کو کمانڈ بھیجی گئی کہ دونوں ایک دوسرے کی تصاویر بنائیں۔
 

image


چینگے 4 پر کیمرے، سطح سے نیچے کی تحقیق کے لیے ریڈار اور معدنیات کی تحقیق کے لیے سپیکٹرومیٹر نصب تھے جبکہ اس کے علاوہ اس کے مشن میں آلو اگانے کا تجربہ کرنا بھی شامل تھا۔ چینی سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کیا مستقبل میں وہاں انسانی زندگی ممکن ہے یا نہیں۔

مئی میں چینی سائنسدانوں نے تصدیق کی کہ چینگے 4 نے چاند کے اس دور دراز حصے پر موجود ایک گڑھے کے بارے میں طویل عرصے سے موجود ایک تصور کی تصدیق کی ہے۔

ہماری کہکشاں جیسی ایک اور دنیا
 

image


یہ تصویر ہبل ٹیلی سکوپ سے بنائی گئی ہے جس میں این جی سی 772 کہکشاں نظر آ رہی ہے۔ یہ ہم سے 13 کروڑ نوری سال دور ہے۔ این جی سی 772 کہکشاں بھی کئی لحاظ سے ہماری کہکشاں سے مشابہت رکھتی ہے۔ دونوں کہکشاؤں میں سیٹلائٹ کہکشائیں ہیں جو اپنے اپنے مدار میں ان بڑی کہکشاؤں کے گرد گھومتی ہیں۔

البتہ ان دونوں میں کچھ چیز مختلف بھی ہیں۔ مثال کے طور پر این جی سی 772 کے مرکز میں ایک مخصوص پٹی یا بار موجود نہیں ہے جو گیس اور ستاروں سے بنتی ہے۔ اس پٹی کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ کہکشاں کے درمیان سے مادے کو گزرنے میں مدد دیتی ہے جس سے ستاروں کی پیدائش میں تیزی آتی ہے۔

بادبانی کی طرح شمسی بانی کا خیال
 

image


دی پلینٹری سوسائٹی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ یہ تنظیم ایک لائٹ سیل یعنی شمسی بانی کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ زمین کے سب سے نچلے مدار میں شمسی توانائی کے ذریعے اڑا جا سکتا ہے۔

یہ خیال ایسے ہی ہے جیسے ہوا کے ذریعے پانی کی سطح پر تیرا جا سکتا ہے۔ سورج کی روشنی آئینے کی سطح پر دباؤ ڈالتی ہیں چنانچہ ان کی مدد سے سیلنگ کا خیال کم از کم نظریے کی حد تک، تو قابل عمل لگتا ہے۔

لائٹ سیل 2 نامی پراجیکٹ 25 جون 2019 کو لانچ کیا گیا تھا۔ اس تصویر میں وہ پینلز دیکھے جا سکتے ہیں جن کا کام سورج کی روشنی سے خلائی جہاز کو آگے دھکیلنا ہوگا۔


Partner Content: BBC URDU
YOU MAY ALSO LIKE: