ہم سب کو ہی تبدیلی کا نعرہ بہت بھاتا ہے۔ ہر کوئی تبدیلی
کو ووٹ دینے کے بعد اب سے تبدیلی کی توقع کر رہا ہے۔ تبدیلی کو بالکل کسی
آن لائن فوڈ ایپ سے آرڈر کئے ہوئے کھانے کی طرح جلد سے جلد حاصل کرنا
اوراپنی دنیا و آخرت سنوارنا چاہتا ہے۔ کرنا ان سب کے لئے کیا چاہتا ہے آج
کا انسان۔ جوکہ وہ کر چکا ہے یعنی کہ بس ووٹ ڈالنا۔
مجھے ایک کے خیالات سن کر ایک ہی وقت میں صدمہ بھی ہوا اور حیرت بھی۔ ان کا
خیال تھا کہ تبدیلی کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کو شادی بیاہ اور مرگ
تک بھی جانے کے اصول و ضوابط اور تمیز سکھانی چاہئیں۔ لوگ ایک خاردار جنگل
کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں مطلب کہ ہماری آبادی کتنی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے
مگر مجال ہے ہم تمیزدان پیدا کرسکے ہوں۔
ایک تصور ہے جسکو
Cotton candy satisfaction
کہا جاتا ہے یعنی کہ دل بہلانے کو خیال اچھا ہے۔ اس میں آپ مستقل مسئلے کا
حل تلاش نہیں کرتے صرف وقتی طور پر اچھا لگنے والا کوئی قدم اٹھاتے ہیں اور
اصل مسئلے سے وقتی چھٹکارا پاتے ہیں آگے اللہ اللہ تے خیر صلا
مجھے تبدیلی سے دو کام ایسے لگتے ہیں جنکو ہم خود تبدیل کر سکتے ہیں جنکے
لئے ہمیں نہ بیرونی امداد کی ضرورت ہے نہ حکومتی سبسڈی کی۔
وہ دو ایریاز ہیں ہمارے کھانا پینا اور موبائل استعمال کرنا
اگر ہم پہلے کھانے پینے کی بات کریں تو ہم لوگ بحیثیت قوم بیمار قوم بن رہے
ہیں فربہی کا شکار ہونے والوں میں ہمارا ملک سرفہرست ہے۔
بلڈ پریشر ، شوگر شاید کبھی چالیس پچاس کی عمر میں جا کر ہوتا ہوگا مگر اب
بہت سے بچے بھی وزن کی ذیادتی اور ساتھ میں ان مسائل کا شکار نظر آئیں گے۔
ہم لوگ اب گھر کے کھانے سے ذیادہ باہر کا کھانا کھاتے ہیں اور بے تحاشا
کھانا ہمارا دوسرا مسئلہ ہے۔ ایک دفعہ کھانا سامنے آنے پر ہم اس پر ایسے
ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے پہلی اور آخری دفعہ دیکھ رہے ہوں۔
ہم کھاتے ہیں اور کھائے چلے جاتے ہیں۔ ہم اشیا کی مہنگائی کا رونا روتے ہیں
مگر آن لائن کھانا منگوانے کی سہولت نے ہمیں مزید سست تو بنایا ہے اور مزید
فربہ کرنے کا پراجیکٹ بھی جاری ہے۔
کم کھانا بھوک رکھ کر کھانا کولڈ ڈرنکس سے بچنا میٹھا بہت معمولی مقدار میں
کھانا یہ سب ہم بھول گئے ہیں۔ بہت کچھ کھاتے ہیں اور ساتھ ٹی وی دیکھتے
جاتے ہیں جوکہ ہمیں مزید ذیادہ ٹھونسنے میں مدد دیتا ہے۔
اگر موبائل استعمال کرنے کی بات کریں تو موبائل نے ہمیں کہیں کا نئیں چھوڑا
نہ دین کا نہ دنیا کا نہ دن کا ۔ رات رات بھر موبائل استعمال کر کے اپنی
نیند قربان کرنا ہماری قوم کا مشغلہ ہے۔ ہم اس میں بری طرح سے جکڑے ہوئے
ہیں۔ ہم جب کوئی بات کر رہا ہو اسکی طرف رخ پھیرے بغیر موبائل استعمال کرتے
ہیں اور ساتھ ساتھ موبائل کے خود کو بھی لعن طعن سُنواتے ہیں۔
تبدیلی کا نعرہ لگانا بے حد آسان ہے۔ ہمیں تبدیلی کا آغاز خود سے کرنا ہوتا
ہے۔ اگر ہم کھانا ڈھنگ سے کھانا سیکھ لیں اور موبائل کے استعمال اپنی زندگی
کو ڈسٹرب نہ ہونے دیں تو اسکے لئے تبدیلی سرکار کی طرف دیکھنے کی قطعی
ضرورت نہیں ہے۔
|