کلن خان دبئی ہوائی اڈے سے باہر آتے ہوئے ایک پرانا نغمہ
گنگنارہا تھا’’وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے‘‘۔
اس بیچ للن سنگھ نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر کہا کس کس کو یاد کروگے ہو
کلن بھائی ۔ اس پردیس میں ہمارا سب سے پسندیدہ مشغلہ یاد کرنا ہی تو ہے۔
جی ہاں لیکن یار للن سچ بتاوں میں تو اپنے پردھان سیوک مودی جی کو یاد
کررہا تھا۔
یار تم تو ان پیچھے ہی پڑے رہتے ہو۔ وہ درمیان میں کہاں سے آگئے؟ تم یہ
بتاو کہ تمہارا یہ ائیر انڈیا کا سفر کیسا رہا َ۔ مجھے تو اندیشہ تھا کہ
شام تک پہنچوگے۔
میں بھی سفر کی بات کررہا تھا۔ مودی جی مجھے بار بار یاد آتے رہے اب بھی
ایسا لگ رہا ہے کہ میرے ساتھ للن سنگھ نہیں پردھان سیوک ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ میں تمہارا پردھان سیوک ہوں لیکن تم صبح صبح مودی جی
کے چکر میں کیوں پڑگئے؟
ارے بھائی میں کہاں ؟ وہی ہر کسی کے گلے پڑ رہے ہیں ۔
میں سمجھا نہیں دوست، ذرا کھول کر سمجھاو ۔
اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ جو سانحات میرے ساتھ پیش آئے تمہارے ساتھ
ہوتے تو تمہیں بھی ان کی خوب یاد آتی۔
دیکھو یار پہیلیاں نہ بھجواو۔ صاف صاف بتاو۔
اچھا سنو جب میں ہوائی اڈے پر پہنچا تو وہاں تفتیش کرنے والے افسر نے
پاسپورٹ اور ٹکٹ دیکھے بغیر کہہ دیا خان صاحب کابل کا جہاز شام کوہے۔
میں نے اسے بتایا کہ مجھے تو دبئی جانا ہے؟
وہ بولا نہیں آپ دبئی نہیں جاسکتے آپ کو کابل جانا پڑے گا۔
میں نے کہا بھائی میرا ٹکٹ تو دیکھو ۔
وہ بولا مسئلہ ٹکٹ کا نہیں پاسپورٹ کا ہے۔
میں بولا کیوں؟ میرے پاسپورٹ کو کیا ہوگیا ؟ اس کی میعاد تو پانچ سال بعد
ختم ہوگی ۔
وہ مسکرا کر بولا آپ کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں خان صاحب ؟ شاہ جی نے جو
نیا قانون بنایا ہے اس کے مطابق یہ پاسپورٹ منسوخ ہوگیا ہے۔
اچھا میں نے حیرت سے پوچھا تو پھر اب میرا کیا ہوگا ؟
کچھ نہیں آپ کو افغانستان روانہ کردیا جائے گا ۔
میں نے کہا بھیجنا ہی ہے توذرا آگے دبئی بھیج دو۔ میرے پاس وہاں کا ویزہ
ہے ۔ ٹکٹ ہے ، ملازمت ہے اور وہاں میر ادوست للن انتظار کررہا ہے۔
افسر بولا نہیں آپ تو کابل ہی جائیں گے ۔
ارے بھائی تم مجھے کابل بھیجنے پر کیوں تلے ہوئے ہو؟
وہاں کے پردھان سیوک اشرف غنی نے یہ شرط لگائی ہے کہ جتنے ہندو واپس آئیں
گے ان میں سے ہر ایک کے بدلے ایک مسلمان روانہ کرنا ہوگا۔
میں نے پوچھا ’’کیا دہلی سے لے کابل تک ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے؟ ‘‘
وہ ہنس کر بولا نہیں صاحب جائیے آپ اپنے جہاز میں بیٹھئے اور میرا پاسپورٹ
واپس کردیا ۔
للن بولا وہ چوکیدار پاگل تو نہیں تھا ؟ تم نے اس کی شکایت نہیں کی؟
جی نہیں ۔ ویسے تو جب سے مودی جی نے خود کو چوکیدار کہا ہے ہر چوکیدار اپنے
آپ کو وزیراعظم سمجھنے لگا ہے۔
ارے بھائی چوکیدار سمجھناتو ٹھیک ہے لیکن یہ کیا پاگل پن ہے ؟
مودی جی نے پاگل اور چوکیدار کو ہم معنیٰ بنادیا ہے۔
لیکن تم نے اس بدتمیز کی شکایت کیوں نہیں کی ؟
وہ ایسا ہوا کہ میں نے پاسپورٹ واپس لے کر پوچھا لیا کہ وہ ایسی بہکی بہکی
باتیں کیوں کررہا تھا ؟
اچھا تواس نے کیا جواب دیا؟
وہ بولا صاحب کوئی مسافر نہیں تھا اس لیے وقت گزاری کے لیے میں دل لگی
کررہا تھا ۔ اب دن بھر ہمیں مسافروں کے ساتھ ہی ٹائم پاس کرنا پڑتا ہے۔
للن سنگھ نے حیرت سے کہا اچھا؟؟؟ اب میری سمجھ میں آیا کہ تمہیں مودی جی
کیوں یاد آئے لیکن قانون تو شاہ جی نے بنایا ہے۔
کلن کا زوردار قہقہہ ہوا میں بلند ہوا۔ وہ بولا شاہ اور مودی تو ایک جان دو
قالب ہیں ۔ ان کا ہر فیصلہ مشترک ہوتا ہے۔
اچھا خیر یہ بتاو کہ پھر کیا ہوا؟
اس کے بعد میں بورڈنگ کارڈ لینے پہنچا تو وہاں مسافروں کاا ژدہام تھا ۔
مجھے تو خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں فلائیٹ چھوٹ نہ جائے۔
اچھا وہ کیوں ؟
بھئی آج کل خزانہ خالی ہے اس لیے اضافی اسٹاف لیا نہیں جاتا ۔ جنہیں لیا
جاتا ہے ان کو تنخواہ نہیں ملتی ۔ بھوکے پیٹ آدمی کام تو دھیمے ہی ہو
گا۰۰نا
سمجھ گیا بھائی سمجھ گیا کہ اس منحوس مودی راج میں اتنی بیروزگاری کیوں ہے؟
لیکن پھر تمہیں فلائیٹ ملی کیسے؟
فلائیٹ کے وقت مقررہ سے دس منٹ قبل مجھے بورڈنگ کارڈ ملا تو میں نے پوچھا
اب کیا فائدہ؟
کاونٹر کلرک مسکرا کر بولا فکر کی بات نہیں آپ اس جہاز میں ضرور جائیں گے
۔
میں نے ہنس کر کہا بھائی ایمگریشن باقی ہے وہاں بھی اسی طرح کا اژدہام ہوگا
اور اس کے بعد سیکیورٹی ؟ یہ ناممکن ہے۔
اس نے بتایا صاحب ہم نے آپ کے لیے فلائیٹ کو دوگھنٹہ لیٹ کردیا ہے ۔
میں نے پوچھا میرے لیے یا اپنے لیے؟
وہ بولا صاحب مودی جی کرتے تو سب اپنے لیے ہیں اور کہتے ہیں جنتا کے لیے ۔
ہم لوگ بھی نمک خوار ہیں اس لیے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں ۔
میں یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ ’لعنت ہو اس خواری پرکہ بلاتنخواہ بھی یہ
بھجن گارہاہے‘‘۔
للن نے پوچھا ارے بھائی تاخیر سے چلنا تو ائیر انڈیا کے مہاراجہ کا شعار
ہے۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟
جی ہاں لیکن ایمیگریشن مجھے ایک اور مودی بھکت مل گیا ۔
اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ ۰۰۰۰۰۰۰۰
ارے بھائی مودی جی تو احتجاج کرنے والوں کو لباس سے پہچانتے ہیں مگر ہم تو
فساد کرنے والوں کو چہرے سے پہچان لیتے ہیں ۔
لیکن چہرہ شناسی میں بھول چوک بھی تو ہوسکتی ہے؟
کیوں نہیں مگر پھر حرکات و سکنات سے تصدیق جو ہوجاتی ہے۔
اچھا تو اس بھکت نے اپنی مودی بھکتی کا کون سا ثبوت پیش کیا؟
اتفاق سے میرے پاسپورٹ کے پہلے ہی صفحہ پر پاکستان کا ویزہ لگا ہوا ہے۔ وہ
اس کو دیکھ کر پوچھنے لگاکہ آپ پاکستان گئے تھے ۔
مجھے ہنسی آئی کہ ویزہ اور آنے جانے تفصیل سامنے ہے پھر بھی پوچھ رہا ہے
یہ احمق ۔ میں نے حامی بھرتے ہوئے سر ہلادیا۔
اس نے پھر سوال کیا تھا کب گئے تھے؟
مجھے تو نہ تاریخ یاد تھی نہ سال ۔ میں نے کہا بھائی اس ویزے پر اردو میں
لکھا ہوتو لاو پڑھ کر بتا دوں ۔ انگریزی میں ہو تو خود پڑھ لو۔
اچھا تو پھر اس بدمعاش نے کیا کہا ؟ للن نے سوال کیا
کہتا کیا؟ کلن بولا ۔ برا سامنہ بناکر پاسپورٹ پر مہر لگائی اور لوٹا دیا۔
للن بولا یا ر ماننا پڑے گا تمہارا یہ سفر دلچسپ تھا اچھا یہ بتاو کہ آگے
کیا ہوا؟ تم جہاز میں بیٹھ کر الٹے بانس بریلی کی مانند ۰۰۰۰۰۰
نہیں یارسیکیورٹی چیک اپ میں میرے آگے دو مسافر تھے جن میں سے ایک کی ٹانگ
ٹوٹی ہوئی تھی اور اس پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
اچھا ۔ اس تکلیف کے باوجود وہ بیچارہ سفر کررہا تھا ؟
جی ہاں تمہاری طرح مجھے بھی اس پر رحم آرہا تھا۔لیکن سیکیورٹی افسر کو
نہیں آیا ۔
اچھا ؟ تعجب ہے ۔
جی ہاں اس نے ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے اوپر سے اپنا میٹل ڈٹیکٹر پھیرا تو وہ چیخ
پکار کرنے لگا۔
خیر مشین تو مشین ہے وہ انسان کی تکلیف کیا جانے لیکن وہاں موجود افسر نے
کیا کیا؟
وہ اسے جانچ کے لیے سامنے بنے کمرے میں لے گیا ۔
اچھا تو کیا پٹی کھول کر دیکھنا چاہتا تھا ۔
ارے بھائی اس گدھے کو کیا معلوم کہ ہڈی کو جوڑنے کے لیے لوہے کی پٹی لگانی
پڑتی ہے جس کو پٹی کھول کر بھی دیکھا نہیں جاسکتا ۔
اور تم لوگ جو قطار میں کھڑے تھے ان کا کیا ہوا؟
ہم انتظار کرتے رہے ۔ میں نے احتجاج کیا کہ تو آگے والا مسافر بولا کہ آج
کل یہ کتنا ضروری ہے آپ نہیں جانتے ۔
میں نے جواب دیا جب تمہاری ٹانگ بھی ٹوٹ جائے گی نا تو تمہیں پتہ چل جائے
گا ۔
اچھا تب تو تمہارا اس سے جھگڑا ہوگیا ہوگا۔
نہیں وہ کینہ توز نظروں سے مجھے دیکھ کر منہ ہی منہ میں کچھ بدبداتا رہا۔
میں سمجھ گیا مجھے بھسم کرنے کے لیےمودی منتر پڑھ رہا ہے۔
لیکن یار کلن ان لوگوں کا سارا جنتر منتر فیل ہوتا جارہا ہے۔ ہریانہ ،
مہاراشٹر اور اب جھارکھنڈ !
جی ہاں میں اس کا نظارہ کرکے آرہا ہوں اور اس کی وجہ بھی مجھے معلوم ہوگئی
ہے۔
اچھا وہ کیسے؟
ہوا یہ کہ تفتیش سے فارغ ہوکر میں بیت الخلاء میں پہنچا تو وہاں مودی جی کا
ہنستا ہوا نورانی چہرہ اور نیچے ’’سوچھّ بھارت‘‘ کا اشتہار تھا ۔
اس میں کون سی نئی بات ہے ۔ مودی جی تصاویر تو کیا دوکان اور کیا مکان ہر
جگہ چسپاں ہے۔
جی ہاں باہر پوسٹر مگر اندر نہ تو پانی اور نہ ٹائیلیٹ پیپر۔اب اگر انسان
اپنے آپ کو پاک نہ کرسکے تو دیش کو کیسے سوچھّ بنا سکتا ہے ؟
للن سنگھ بولا یار اتنے مشکل سوال کا جواب تو پردھان سیوک کے علاوہ کوئی
اور نہیں دے سکتا۔ خیر اس کے بعد جہاز میں سوار ہوے یا نہیں؟
ہاں لیکن اس جہاز میں سوار ہونے سے قبل انتظار کے دوران ہر پانچ منٹ میں
ایک اعلان ہوتا تھا کہ فلاں گیٹ کے مسافر فلاں دروازے پر جائیں ۔
یار یہ کیا تماشہ ہے ؟
میں نے یہ سوال ایر انڈیا کے ایک ملازم سے پوچھا تو وہ بولا مودی جی کی ’فٹ
انڈیا‘ مہم کے تحت لوگوں کو زبردستی چلانا پھرانا پڑتا ہے ۔
اچھا تو کیا اس کے لیے پہلے مسافروں کوایک دروازے پر بھیجا جاتا اور پھر
دانستہ جہاز دوسرے گیٹ پر لگا دیا جاتا تھا؟
جی ہاں ہر مسافر ایک کونے سے دوسرے سرے تک چلا جارہا تھا ۔ بس یہ سمجھ لو
کہ نوٹ بندی کی سی افراتفری تھی۔
اچھا اس عالم میں تم کسی اور جہاز میں تو نہیں سوار ہوگئے ؟
جی نہیں میں بھی بھاگتے دوڑتے اپنے جہاز میں بیٹھا اور پھر جب اناونسمنٹ
شروع ہوا تو پھر مودی جی یاد آگئی ؟
اچھا وہ کیسے؟ کہیں جہاز میں مودی بھجن تو نہیں شروع ہوگیا؟
وہ کیا ہوا کہ شور شرابہ تو ہورہا تھا لیکن اسپیکر خراب ہونے کے سبب کچھ
سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
لیکن اس میں مودی کہاں سے آگئے؟
وہ بھی تو کشمیر میں ٹیلی ویژن بند کرکے ٹیلی تقریر میں کشمیریوں کو نصیحت
کرتے ہیں آسام میں انٹرنیٹ بند کرواکے آسامیوں کو ٹویٹ کرتے ہیں ۔
جی ہاں تمہاری بات درست ہے ۔ وہ جس سے مخاطب ہوتے ہیں وہ بیچارہ نہ سنتا ہے
اور نہ سمجھتا ہے بس بلا وجہ کا شوروغل ہوتا ہے۔
ارے بھائی کیا بتاوں جہاز پر رن وے پر دوڑا تو سرکاری بس کی یاد آگئی ۔
وہ کیوں ؟
اس لیے کہ اس کا ہر پرزہ فریاد کررہا تھا۔ مجھے تو ڈر تھا کہیں میرے پاس
والی کھڑکی نہ کھل جائے۔
جی ہاں جہاز ہو یا بس اس کی مرمت پر توجہ نہ دی جائے اور خرچ نہ کیا جائے
تو انجر پنجر ڈھیلے ہو جاتے ہیں ۔
یہی تو ہمارے ملک میں پچھلے ۶ سال سے ہورہا ہےعوام کی مرمت توخوب کی جاتی
ہے مگرخرچ نہیں کیا جاتا۔
للن بولاجی ہاں سمجھ گیا اسی لیے تیرے سارے کل پرزے ڈھیلے ہوگئے ہیں۔ توآج
آرام کرلے کل سے ڈیوٹی پر آجانا۔
کلن نے کہا لیکن دوست تجھے یہ تو سمجھ میں آگیا نا کہ میں وہ گانا کیوں گا
رہا تھا ؟
للن نے پوچھا کون سا نغمہ میں تو بھول ہی گیا؟
ارے بھائی وہی ’’ وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے ‘‘
|