اب ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ بچپن سے آج تک، یہ کچھ
نہ کرنے والی، اگر نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ ہم سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ ہر
پل یہ ساتھ رہ کر ہمیں، ہمارے زندگی کو راہ دکھاتے ہوئے بغیر کسی احسان اور
شہرت کے اپنا کام کرتی ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق، ہندوستانی خواتین
خوشیوں کے معاملے میں بھی پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ شاید ان کا ’’کچھ نہ کرنا‘‘
ہے۔ ایک خاتون، جب گھر والوں کے اردگرد اپنی زندگی بنا لیتی ہے تو یہ تین
الفاظ اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے، یہ
اسے خوشی تو نہیں دے گے۔ کسی بھی گھر، سماج اور ملک کی ترقی میں ان ’’کچھ
نہ کرنے‘‘ والے ہاتھوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔
مال میں جانے پر کبھی کبھی ’ہالی ڈے‘ کوپن ملتے ہیں اور ایسا ہی ایک کوپن
رضیہ نے جیتا تھا۔ ۲؍ دن بعد، شوہر کے ساتھ اس کوپن کو لینے پہنچی، تو وہاں
موجود سیلزمین نے نام، عمر اور کام کی جانکاری بھرنا شروع کی، اور اس نے
بتانی۔ کام کے بارے میں پوچھنے پر، اس کے بولنے سے پہلے ہی اس کے شوہر نے
کہا ’’یہ کچھ نہیں کرتی ’ہاؤس وائف‘‘ ہیں۔ بات صحیح تھی، فارم میں بھر دی
گئی مگر فارم پر چلنے والی قلم اس کے دل پر تلوار کی طرح چل رہی تھی۔
’’کچھ نہیں کرتی....!‘‘ یہ سوچ سوچ کر اسے جانے کیسے کیسے خیال آرہے تھے۔
غصہ، ناراضگی اور رہ رہ کر آنکھ بھر جاتی۔
گھر پہنچ کر کام نمٹاتے ہوئے اسے ساڑھے ۱۰؍ بج گئے، لیکن الجھن ختم نہیں
ہوئی اور اس نے ٹی وی دیکھتے ہوئے اپنے شوہر سے پوچھ لیا ’’آپ نے ایسا
کیوں کہا کہ مَیں کچھ نہیں کرتی؟‘‘ ’’تو.... کیا کہتا.... اب تم حقوقِ
نسواں کے بارے میں تقریر شروع مت کر دینا! ارے گھر میں رہتی ہو تو کہہ دیا
کچھ نہیں کرتی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے کروٹ بدلی اور رضیہ کل کے کاموں کی
فہرست بناتی رہ گئی۔
شاید ایسا بہت سی خواتین نے محسوس کیا ہوگا۔ کسی نے کہا ہوگا اور کسی نے
نظرانداز کر دیا ہوگا۔ کئی بار ذکر ہوا، کئی بار بحث ہوئی، سیکڑوں مضامین
لکھے گئے، لیکن ہر گھر میں کبھی نہ کبھی یہ ضرور سنائی دیتا ہے ’’یہ کچھ
نہیں کرتی!‘‘
ملک کی نصف آبادی میں سے زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین گھر سنبھالتی ہیں۔ حال
ہی میں ہوئے ایک سروے کے مطابق ۱۳۱؍ ملکوں میں سے ہندوستان ۱۲۰؍ واں ملک
ہے۔ یہ سروے ملازمت پیشہ خواتین کی گنتی کا تھا۔
عموماً ہندوستان میں رہنے والی زیادہ تر خواتین ’’کچھ نہیں کرتی!‘‘ اور یہ
تین الفاظ ان کے اعتماد کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں۔ برسہا برس یہ سنتے
ہوئے اور گھر کے اہم فیصلوں کے لئے صرف مشیر (کبھی کبھی وہ بھی نہیں) کی
ذمہ دار نبھاتے ہوئے، وہ بھی بھول جاتی ہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں۔
اگر ایک گھر سنبھالنے والی خاتون کے دن کا جائزہ لیں تو اکثر صبح ۴؍ سے ۶؍
کے درمیان ہوتی ہے۔ بچوں کو اسکول اور شوہر کا آفس، ان دونوں کی تیاری
اکثر ایک دن پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کے معمول، گھر سنبھالنے
والی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، یا یوں کہیں کہ اگر یہ صبح نہ اٹھائیں تو صبح
ہی نہ ہو۔ ان کے جانے کے بعد تو کوئی کام ہی نہیں رہتا۔ بس گھر کی صاف
صفائی، جسے بکھیرنے کا کام ۲؍ یا ۳؍ لوگوں نے کیا ہے۔ پورے گھر کے کپڑے،
دھلائی اور استری کرنا اور ساتھ ہی دھول مٹی صاف کرنا بس! بڑے شہر کی بات
نہ کریں تو آج بھی زیادہ تر گھروں میں یہ کام گھر کی خواتین ہی کرتی ہیں۔
سب کے پسند کا کھانا ناشتہ، بس دن میں تین سے چار بار! اور بچوں کی پڑھائی
کا دھیان اور بڑے بزرگوں کی صحت کا خیال، آنے جانے والے دوستوں کی خاطر
داری اور وقتاً فوقتاً رشتے داروں کی خیر خیریت معلوم کرنا۔ اسکول کے دیئے
پروجیکٹ کرنے سے لے کر تہوار پر سب کے لئے تحفے خریدنے تک اور مہمانوں کو
چائے ناشتے سے لے کر، گھر آنے والے رشتے داروں کو شہر گھمانے کا کام، سب
اس ’’کچھ نہ کرنے‘‘ والوں کے کندھے پر ہوتا ہے۔ باہر کے کام تو بس، راشن
اور سبزی لانے، بجلی کے بل بھرنے، اسکول کی فیس اور ضرورت پڑنے پر بینک کے
کام۔ بس اور کیا؟ اب اتنے سے کام، کچھ نہیں میں ہی تو آتے ہیں۔
وہ تو بات الگ ہے کہ صاف صفائی کے لئے ۳؍ سے ۵؍ ہزار تو ہوتے ہی ہیں۔ کھانا
بنانے والی بھی آسانی سے ملتی ہے، چار لوگوں کا ۴؍ سے ۶؍ ہزار، بس زیادہ
نقص نہ نکالئے گا، ورنہ اس کے پاس دوسرے گھر ہیں۔ بچوں کو پڑھانے تو گھر تک
آجائیں گے لیکن انہیں دلار نہیں کریں گے اور ان کے مستقبل کے خواب نہیں
دیکھیں گے... باقی چھوٹے موٹے کام تو ہو ہی جاتے ہیں۔
تو بس اتنا سا کام، کاموں میں نہیں آتا۔ وہ بھی تب، جب مفت میں کام ہو رہا
ہو کیونکہ جذبات کی کوئی قیمت تو ہوتی نہیں۔ اب، کُل ملا کر بات تو صحیح ہے
کہ ’’وہ کچھ نہیں کرتی!‘‘
اب ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ بچپن سے آج تک، یہ کچھ نہ کرنے والی، اگر
نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ ہم سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ ہر پل یہ ساتھ رہ کر
ہمیں، ہمارے زندگی کو راہ دکھاتے ہوئے بغیر کسی احسان اور شہرت کے اپنا کام
کرتی ہیں۔
ایک اور سروے کے مطابق، ہندوستانی خواتین خوشیوں کے معاملے میں بھی پیچھے
ہیں۔ اس کی وجہ شاید ان کا ’’کچھ نہ کرنا‘‘ ہے۔
ایک خاتون، جب گھر والوں کے اردگرد اپنی زندگی بنا لیتی ہے تو یہ تین الفاظ
اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے، یہ اسے
خوشی تو نہیں دے گے۔
کسی بھی گھر، سماج اور ملک کی ترقی میں ان ’’کچھ نہ کرنے‘‘ والے ہاتھوں کا
اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر کامیاب آدمی اور خاتون کے پیچھے، ایک ’’کچھ نہیں
کرنے‘‘ والی ضرور ہوتی ہے جس کی عزت کرنا اور احساس ماننا بے حد ضروری ہے،
اپنی اور اس کی خوشی کے لئے۔
آیئے، اپنے آس پاس ہر شخص کو اس بات کا احساس دلائیں اور ’’کچھ نہ کرنے‘‘
والے ہاتھوں کو چند لمحوں کے لئے تھام کر شکریہ کہیں
|