ہم سب عائشہ کے کمرے میں اکھٹے ہوتے ہیں۔اُس کو آوازیں
دیتے ہیں یک دم عائشہ آنکھیں کھولتی ہیں اور پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھنا
شروع کر دیتی ہے مجھے کیا ہوا تھا عائشہ کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں ابھی تک
اپنے ہوش میں نہیں آتی ہے عبداللہ اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ زور سے
عبداللہ کو دھکا دیتی ہے اور وہ دور جا کر گرتا ہے ۔ اُس کے بعد وہ بے ہوش
ہو جاتی ہے ۔عبداللہ ڈاکٹر کو فون کر کے بلاتا ہے ڈاکٹر عائشہ کو چیک کرتا
ہے اور آرام کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔عبداللہ ڈاکٹر کو باہر گیٹ پر چھوڑنے
آتا ہے۔ اور واپسی پر گیٹ بند کرکے جیسے ہی مڑتا ہے اس کو ایک آواز آتی
ہے۔تیرے گھر میں بیماری نے نہیں موت نے نظر رکھی ہوئی ہے۔ وہ واپس پلٹتا ہے
دیکھے کون ہے وہاں پر کوئی نہیں موجود ہوتا ہے۔ اگلے دن نجم النساء باباجی
کو اپنے گھر بلاتی ہے۔کہتی ہے بابا جی میرے لیے دعا کریں میرے گھر کو پتہ
نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے ۔بابا جی اُس کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔
کون سا گھر یہ گھر تمہارا نہیں ہے ۔ وہ جواب دیتی ہے میرا گھر ہے اور کس کا
ہے۔ میرے شوہر نے اسے خریدا ہے ۔ بابا جی کہتے ہیں تم سورت فلق اور سورت
الناس اور دورد شریف تین تین دفعہ پڑھ کر پھونکا کرو۔کیونکہ دیواریں بھی
بولتی ہیں۔ اور کوشش کرنا اپنے رب کو ناراض مت کرنا وہ خوش تو سب خوش ہوتے
ہیں۔ اگلے دن مریم کے ساتھ کچھ عجیب سی بات ہوئی اُسے محسوس ہوا جیسے کوئی
باہر اُسے آواز دے رہا ہے وہ باہر جا کر کیا دیکھتی ہے گھر کے لان میں ایک
بوڑھی عورت کھڑی ہوتی ہے اور بھیک مانگنے کے انداز میں بول رہی ہوتی ہے
مریم اُس سے سوال کرتی ہے کہ آپ کیسے اندر آ گئی اُس بوڑھی عورت نے جواب
دیا بیٹے میں تو یہاں ہی رہتی ہوں میں نے کہاں سے آنا ہے یہ سن کر مریم
اندر کی طرف بھاگتی ہے ۔ مریم نجم النساء کےساتھ لان میں آتی ہے وہاں کوئی
بھی نہیں ہوتا۔ عائشہ کی حالت عجیب سی ہوتی جارہی تھی۔ یک دم اُس میں
تبدیلی آ جاتی تھی بات کرتے کرتے عجیب سی حرکتیں شروع کر دیتی تھی ۔ منع کر
نے پر اُس کا رویہ بہت ہی خراب ہو جاتا تھا۔ ایک دن عاطر اپنی بال کے ساتھ
کھیل رہا ہوتا ہے ۔ کہ اچانک اُسے ایک عورت کی آواز آتی ہے ۔ ادھر آئو میرے
بچے آئو میرے ساتھ ہم مل کر کھیلتے ہیں ۔ اور وہ عاطر سے بال لے لیتی ہے ۔
عاطر ڈر جاتا ہے اور اُس جگہ سے بھاگ جاتا ہے ۔ مریم اپنی ساس سے عاطر کی
بات کر رہی ہوتی ہے ۔ پتہ نہیں عائشہ کو کیا ہو جاتا ہے وہ اپنی ماں کے گلے
کو پکڑ لیتی ہے ۔ اور زور سے دبانے لگتی ہے شاید اُس کے سامنے عاطر کا ذکر
ہوتا ہے جو اُس کو پسند نہیں آتا۔ مریم مجھے اور عبداللہ کو پاس بیٹھاتی ہے
اور کہتی ہے ابو آپ کی مہربانی اس حویلی کو چھوڑ دے ۔ ہم جب سے آئے ہیں
ہمارے ساتھ کچھ عجیب سا ہو رہا ہے ۔ آج جو کچھ عائشہ نے کیا ہے کنفرم ہو
گیا ہے اُس پر سایہ ہے مریم کی بات سن کر میں نے کہا بیٹا کیا اوول فول
بولے جا رہی ہو ایسی بات نہیں کوئی سایہ نہیں ہے ۔ اُس دن کے بعد تو جیسے
میرے گھر میں مصیبتوں کے پہاڑٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک واقعہ
رونما ہونے لگتا ہے۔ مریم بچوں کو اسکول سے لے کر گھر آتی ہے ۔کہ باہر
عبداللہ اُسے آواز دیتا ہے ۔ کہ بچوں کو میں لے کر جا رہا ہوں۔ مریم دوپہر
کا کھانا بنانے میں مصروف ہوتی ہیں ۔ کہ دوبارہ بیل بجتی ہے ۔مریم کہتی ہے
اب کون ہے ؟جب باہر جاتی ہے تو عبداللہ موجود ہوتا ہے وہ حیران ہوتی ہے
ابھی تو عبداللہ بچوں کو لے کر گے ہیں اتنی جلدی واپس کیسے آ گئے ہیں ۔ وہ
پوچھتی ہے کہ بچے کہاں ہیں عبداللہ اس کی طرف دیکھتا ہے مجھے کیا پتہ وہ
تمارے ساتھ اسکول سے آئے تھے۔وہ کہتی ہے آنے کے بعد آپ کے ساتھ باہر گئے
ہیں ۔ عبداللہ کہتا ہے ۔ کب میں تو ابھی آیا ہوں۔ میرے ساتھ تو کوئی بھی
نہیں آیا۔ مریم یہ سن کر پریشان ہو جاتی ہے دونوں میاں بیوی بھاگ کر بچوں
کے کمرے میں جاتے ہیں۔ جہاں بچے سو رہے ہوتے ہیں ۔ رات مریم کی چیخنے کی
آواز آتی ہے۔ عبداللہ بھاگ کر کمرے میں داخل ہوتا ہے ۔ |