موت تو برحق ہے اور ہر ذی شعور نے اس کا مزہ چکھنا ہے۔
لیکن بعض لوگ ایسے بھی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں جس کی موت پر سارا زمانہ
روتا ہے۔ ایسے ہی افراد میں ایک نام ریاض بٹالوی صاحب کا بھی ہے۔ گنگا رام
ہسپتال ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔وہ حسب معمول پھول ہاتھوں میں
لیے ہوئے گنگارام ہسپتال جارہے تھے کہ راستے میں ان کی طبیعت خراب ہو گئی‘
قریب ہی کھڑے رکشے والے کو اشارے سے بلایا اور گنگا رام چلنے کو کہا۔ C.C.U
کی سیڑھیوں کے قریب پہنچ کر اندر سے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو بلانے کے لئے
بھیجا۔ جیسے ہی رکشا والے نےC.C.U میں جا کر ڈاکٹر کو بتایا تو تمام ڈاکٹر
بھاگے ہوئے باہر آئے اور ریاض بٹالوی صاحب کو ہاتھوں میں اٹھا کر اندر لے
گئے۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے دوست اور رفیق کو موت کے منہ سے نکالنے کی
بھرپور کوشش میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے تھے۔مگر موت جو
ایک اٹل حقیقت ہے قریب ہی کھڑی مسکرا رہی تھی‘ ان تمام کاوشو ں کے باوجود
فرشتۂ اجل اپنا کام دکھا گیا ۔ یوں دوسروں کے دکھوں کی کہانی لکھنے والے
ریاض بٹالوی خود اپنی جدائی کی دکھ بھری داستان چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت
ہوگئے ۔
یوں زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ جونہی گھر میں ان
کے انتقال کی المناک خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ ابھی دو دن پہلے ہی تو
ریاض بٹالوی کا ایک بیٹا پاکستان میں اپنے والدین کے ساتھ چھٹیاں گزار کر
واپس امریکہ گیا تھا۔ ابھی وہ واپس امریکہ پہنچا بھی نہیں ہوگا کہ والد
حقیقی کی ناگہانی موت کی خبر وہاں ان کی منتظر تھی۔ ذرا غور کیجیے وہ بیٹا
کس کرب اور صدمے سے دوچار ہوا ہوگا جو اپنے باپ کی میت پر دو آنسو بہانے کے
لیے بھی نہ آ سکا ہو۔ بٹالوی صاحب کا دوسرا بیٹا بھی ان دنوں سعودی عرب میں
تھا۔ وہ بھی اپنے باپ کے سفر آخرت میں شریک نہ ہوسکا۔ بٹالوی صاحب کا صرف
ایک ہی بیٹا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرنے اور دل کی پیاس بجھانے کے
لیے ان کے پاس موجود تھا۔
عموماً میں‘ پاکستان ٹیلی ویژن کا خبرنامہ نہیں دیکھتا اس کی وجہ شاید یہ
ہے کہ اس میں نشر ہونے والی تمام خبریں جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں اور تصویر
کا حکومتی رُخ ہی ہمیشہ دکھایا جاتا ہے۔ لیکن اس دن اتفاق سے میں PTV کا
خبر نامہ دیکھ رہا تھا۔ جونہی خبرنامے میں بٹالوی صاحب کی المناک موت کی
خبر نشر ہوئی تو یقین کیجیے کہ خبر سنتے ہی میرے ہاتھوں سے روٹی کا نوالہ
گر گیا اور بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا
کہ غم کا پہاڑ میرے سر پر آ گرا ہو۔ قریب ہی بیٹھی میری اہلیہ میری کیفیت
کو دیکھ کر مجھے دلاسہ دینے لگی لیکن بار بار میری آنکھوں میں بٹالوی صاحب
کی صورت اور ان کی پیاری پیاری باتیں ایک فلم کی مانند چلنے لگیں۔
ریاض بٹالوی صاحب سے میرا خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ مجھے ان کے ساتھ کام
کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا‘ لیکن مجھ سے محبت کرنے والوں میں وہ سب سے آگے
تھے۔ زندگی کا پہلا تعارف ان سے اس وقت ہوا جب بٹالوی صاحب روزنامہ جنگ میں
’’عوام کی آواز‘‘ کے انچارج تھے اور اس حوالے سے میں نے جتنی بھی تحریریں
انہیں اشاعت کے لیے بھیجوائیں انہوں نے مجھے دیکھے اور جانے بغیر ان
تحریروں کو نہایت خوبصورت انداز میں شائع کر دیا۔ پھر یہی شوق مجھے ایک دن
ان کے روبرو لے گیا۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی ملاقات میں مجھ پر اتنا اچھا
تاثر چھوڑا کہ میرے دل میں ہمیشہ کے لیے ان کا احترام پیدا ہوگیا۔ پھر ایک
دن نیازمندی حاصل کرنے کے اپنی کتاب ’’کارگل کے ہیرو‘‘ کی تقریب رونمائی
میں ان سے بطور مقرر تشریف لانے کی درخواست کی۔ تو انہوں نے میری حوصلہ
شکنی کرنے کی بجائے فرمایا‘ ’’میں اس تقریب میں سامعین کی حیثیت سے ضرور آ
جاؤں گا۔لیکن بولنے کے لیے تم عابد تہامی صاحب کو بلا لو میں بھی انہیں کہہ
دیتا ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کئی مرتبہ میری ان کی ملاقات پی ٹی
وی سنٹر کے بالمقابل ہوئی جہاں تلملاتی دھوپ میں وہ سر پر اپنا چھوٹا سا
رومال رکھے پیدل ہی فٹ پاتھ پر مشرق اخبار سے روزنامہ جنگ تک کا سفر روزانہ
طے کرتے تھے۔ میں نے ایک نہیں کئی بار انہیں اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر
بیٹھنے کی دعوت دی لیکن اکثر مرتبہ انہوں نے محبت سے میرے کاندھے پر ہاتھ
رکھ کر فرمایا ‘ بیٹا تم زحمت کیوں گوارا کرتے ہو۔ تھوڑی ہی دور جنگ کا
دفتر ہے میں آرام سے چلا جاؤں گا۔ پھر کئی بار ’’تصویر مشرق‘‘ کے دفتر میں
بھی ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں جب بھی جاتا تو آپ نہ صرف مجھے ملنے کا
معقول وقت دیتے بلکہ اپنے ساتھیوں سے میرا اتنا بڑھاچڑھا کر تعارف کراتے کہ
خود مجھے بھی شرم آنے لگتی۔ پھر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ بہت جلد وہ ایک
میگزین نکال رہے ہیں اس پرچے میں عوام کی پکار کے عنوان سے عوامی مسائل اور
ان کے حل کے بارے میں مضمون باقاعدگی سے میں نے لکھنا ہے۔ ان کے حکم پر میں
نے تین آرٹیکل لکھ کر بھی ان کے سپرد بھی کر دیئے جن کو بٹالوی صاحب نے
بوقت ضرورت نہ صرف کئی مرتبہ اپنے رسالے میں شائع کیا بلکہ ہر مرتبہ مجھے
داد بھی دی۔
کچھ عرصے بعد وہ خبریں اخبار سے منسلک ہوگئے۔ وہاں گراؤنڈ فلور پر انہیں
کمرہ بیٹھنے کے لیے دیا گیا۔ خبریں میں قیام کے دوران آپ نے عوام کی آواز
کو مدھم نہ ہونے دیا بلکہ اس آواز کو مسلسل حکمرانوں کے اونچے ایوانوں تک
پہنچاتے رہے۔ پھر اچانک ان کے کالم روزنامہ انصاف لاہور کے صفحہ نمبر2پر
نظر آنے لگے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کرنٹ آفیئر سے متعلقہ اپنا
رسالہ بھی امتیاز چیمبرز عابد مارکیٹ لاہور سے نکال لیا۔ انہی ایام میں آپ
ایڈیٹر کی حیثیت سے پنجاب پوسٹ کے اخبار سے منسلک ہوگئے۔
(2)
وہاں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن ہر ملاقات میں وہ ایک عام سے ٹیبل کے
دوسری جانب پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے نظر آئے۔ مجھے اچانک دیکھ کر
مسکراتے پھر فرماتے‘ ’’تم بہت اچھی کتابیں لکھ رہے ہو تمہاری کتابیں پڑھ کر
نوجوان نسل کو بہتر راستہ اپنانے کا موقعہ ملے گا -اس لیے میں نے تمہاری
کتاب ’’شہادتوں کا سفر ‘‘ اور ’’وطن کے پاسبان‘‘ میں شامل افواج پاکستان کے
جری جوانوں کے ایمان افروز کارناموں پر مشتمل داستانیں پنجاب پوسٹ کے
ادارتی صفحے پر تسلسل سے شائع کرنی شروع کر دی ہیں۔
جب ریاض بٹالوی صاحب کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے تو میں ان الفاظ کو اپنے
لیے ایک سند تصور کرتا۔ کیونکہ میری نظر میں ان سے اچھا لکھنے والا کوئی
نہیں تھا بلکہ مجھے ان کی سرپرستی اور محبت پر بلاشبہ ناز بھی تھا۔ میں
گزشتہ تین چار ماہ سے ان سے درخواست کر رہا تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے
بارے میں چھوٹا سا انٹرویو دے دیں۔ جنہیں میں ’’شعبہ صحافت کے انمول ہیرے‘‘
کتاب میں شائع کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ان کی محبت اور سادگی ملاحظہ کیجیے کہ
انہوں نے میری دل شکنی بھی نہیں کی اور اپنے بارے میں بتایا بھی کچھ نہیں۔
وہ ہر بار فرماتے چند دنوں بعد اطمینان سے گھر میں بیٹھیں گے ‘ چائے کے
ساتھ ساتھ گپ شپ بھی ہوجائے گی اور انٹرویو بھی ہوجائے گا۔ لیکن اس گپ شپ
کا موقعہ آنے کی بجائے وہ منحوس گھڑی آ پہنچی جس نے دوسروں کی محبت میں
آنسو بہانے والے ریاض بٹالوی کو ہی ہم سے چھین لیا۔
جب 16جنوری صبح ساڑھے دس بجے ان کے گھر واقع میسن روڈ سے ریاض بٹالوی کا
جنازہ اٹھایا گیا تو مجید نظامی‘ مجیب الرحمن شامی‘ نذیر حق‘ ڈاکٹر ایم اے
صوفی‘ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ‘ شعیب بن عزیز‘ ڈاکٹر گلریز‘ ڈاکٹر عاطف
‘ پروفیسر عابد تہامی اور مجھ سمیت مرحوم کے درجنوں دوست ان کے سفر آخرت
میں شریک ہونے کے لیے جمع تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر دل غمگین تھا۔ نکتہ
انجماد کے قریب سخت سرد موسم میں بھی لوگ تعزیت کے لیے جوق درجوق چلے آ رہے
تھے۔ پھر مرحوم کا جنازہ دوستوں عزیزوں کے کاندھوں سے ہوتا ہوا اسی پارک
میں آ ٹھہرا جس پارک کے ایک ایک پودے کی آبیاری بٹالوی صاحب نے اپنے خون سے
کی تھی۔ ایل ڈی اے سے لڑجھگڑ کر انہوں نے اس ویران اور کوڑا کرکٹ والی جگہ
کو گل گلزار کر دیا۔ پھر پھولوں اور پودوں کی نگہداشت کے لیے وہاں ایک مالی
بھی تعینات کروایا۔ جس کی ایل ڈی اے والے اکثر تنخواہ روک لیتے تھے۔ لیکن
ریاض بٹالوی صاحب کی آواز اس مالی کی پکار میں شامل ہوکر تلوار بن کے ایل
ڈی اے حکام کی گردنوں پر ایسے پھرتی کہ مالی کی رکی ہوئی تنخواہ ازسر نو
جاری ہوجاتی۔ بہرکیف نماز جنازہ شروع ہونے سے پہلے مالی نے بتایا کہ مرحوم
اس پارک سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اگر اس میں کوئی بچہ پتنگ اڑانے کے لیے
بھی داخل ہوجاتا تو مرحوم اس بچے کے گھر جا کر شکایت لگاتے اور فرماتے کہ
اڑتی ہوئی پتنگ کی ڈور کسی بھی ٹہنی یا پھول کونقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس
مالی کے بقول اگر اس پارک میں اب تک پودے ٗپھول دیتے ہیں اور ہر طرف ہریالی
کا بسیراہے تو اس کی وجہ ریاض بٹالوی صاحب کی ذات اور کاوش تھی۔ مالی نے
مزید بتایا کہ ریاض بٹالوی صاحب کو پھول اور پودوں سے اتنا پیا ر تھا کہ ان
کے گھر کی شاید ہی کوئی سمت خالی ہوگی وگرنہ ہر طرف پودے لہلہاتے اور پھول
مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس پارک کے وجود کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
جہاں سے بٹالوی صاحب ہر روزتازہ پھول لے کر گنگا رام ہسپتال کے انتہائی
نگہداشت وارڈ میں جایا کرتے تھے۔ شاید ہی بٹالوی صاحب کی زندگی کا کوئی دن
ایسا ہو جس دن وہ پارک اور ہسپتال نہ گئے ہوں۔ اسی گفتگو کے دوران نماز
جنازہ کی سات لائنیں ترتیب پا چکی تھیں۔ یوں بٹالوی صاحب کی زندگی کا وہ
سفر جوان کے کان میں اذان سے شروع ہوا تھا ‘ نماز جنازہ کی جماعت پر ختم
ہوگیا۔
ریاض بٹالوی صاحب 1928ء میں ہندوستان کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے
بہن بھائیوں کی تعداد دس تھی ‘ پانچ بھائی اور پانچ بہنیں۔(اب صرف تین
بھائی باقی ہیں‘ دو کی رحلت ہوچکی ہے۔ جبکہ سبھی بہنیں حیات ہیں) قیام
پاکستان کے وقت آپ کا خاندان بٹالہ سے نقل مکانی کرکے گجرات شہر آبسا۔ یہیں
پر آپ نے تعلیم حاصل کی پھر آپ نے زندگی کی سب سے پہلی ملازمت روزنامہ
کوہستان راولپنڈی میں کی۔ پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ 35سال قبل لاہور میں آ
بسے اور یہاں روزنامہ مشرق میں بطور فیچر رائیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ آپ نے
اردو صحافت میں منفرد اسلوب تحریر متعارف کروایا۔ مرحوم بنیادی طور پر
افسانہ نگار تھے ۔ ان کے فیچر کی اہم خصوصیت افسانوی زبان اور حقائق تھے جن
کی تلاش میں بٹالوی صاحب بھیس بدل کر کبھی گداگروں کی ٹولی میں گھس جاتے
اور کبھی مسافر بن کر شہر کی گلیوں میں گشت کرتے نظر آتے۔ ان کے فیچرز پر
’’ٹی وی سریلز‘‘ ایک حقیقت ایک افسانہ ‘‘ اور ’’آئینہ اور چہرے‘‘ کے نام سے
شروع ہوئیں۔ ان کے فیچر ’’فرار‘‘ نے انہیں ملک گیر شہرت عطا کی ان کی تحریر
’’ریڈر سروس‘‘ اور ’’سنڈے فیچر‘‘ کو ہمیشہ قارئین نے پذیرائی عطا کی۔ ان کے
فیچرز کے موضوعات عموماً معاشرتی مسائل ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے
ذریعے نہ صرف لاکھوں انسانوں کو انصاف دلایا بلکہ سینکڑوں بچھڑے ہوئے افراد
کوبھی آپس میں ملا دیا۔ ریاض بٹالوی کی تصنیف ’’اور فرات بہتا رہا‘‘ اُردو
ادب میں ایک اچھوتا اضافہ ہے۔ ریاض صاحب نے اپنی اس کاوش میں جس عرق ریزی
سے تحقیق کی ہے اور جو اسلوب اپنایا ہے قاری اس کے سحر میں گم ہو جاتا ہے‘
یقیناً یہ کام ریاض صاحب جیسا وسیع النظر ہی کر سکتا ہے۔
بٹالوی مرحوم ایک اعلیٰ دماغ صحافی ہی نہیں ایک سچے پاکستانی بھی تھے۔
1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے درمیان انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے
ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ان کی ایک فیچر مہم
’’ٹیڈی پیسہ ٹینک‘‘ نے ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی اور لوگوں نے
کروڑوں روپے ملک و قوم کی نظر کر دیئے ۔ بٹالوی صاحب انسانوں سے پیار
اورہمدردی کی عملی تصویر تھے۔ آپ کی شان دار 41سالہ صحافتی خدمات پر آپ کو
تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
بے شک 15جنوری 2003 ء کی دوپہر شعبہ صحافت کے افق پر 41سال حکمرانی کرنے
والے ریاض بٹالوی صاحب مومن پورہ قبرستان میکلوڈ روڈ لاہور میں موجود ایک
قبر کی گہرائی میں اتر گئے لیکن وہ لاکھوں دکھی انسانوں‘ پریشان حال لوگوں
اور محبت کرنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ریاض بٹالوی ایک شخص
کا نہیں ایک تحریک کا نام تھا‘ جو ہمیشہ صحافتی افق پر چاند کی طرح چمکتا
دمکتا رہے گا۔ (بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے
ہیں)
(3)
ان کے ایک دیرینہ ساتھی نذیر حق نے بٹالوی مرحوم کی یادوں کو تازہ کرتے
ہوئے لکھا ۔
یہ 1959ء کے اواخر کا ذکر ہے۔ روزنامہ کوہستان کا ملتان سے اجرا ہوچکا تھا۔
اقبال زبیری ‘ جو قبل ازیں ’’تعمیر‘‘ راولپنڈی میں خدمات انجام دے چکے تھے
اور کوہستان راولپنڈی میں بھی بطور نیوز ایڈیٹر اپنے جوہر دکھا چکے تھے‘
دوبارہ کوہستان میں آ گئے تھے اور ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے۔
میں ان کے ساتھ بطور سب ایڈیٹر متعین تھا۔ ہم لوگ حسن پروانہ کالونی میں
رہتے تھے‘ جہاں عنایت اﷲ (مرحوم) نے ایک بڑا سا بنگلہ نما مکان کرائے پر
لیا تھا اور پورے دفتر کے کارکن اسی میں رہائش پذیر تھے۔
ایک روز شدید گرمی کی وجہ سے میری طبیعت خراب تھی۔ محترم زبیری صاحب نے‘(
جو اس مکان میں ہی رہتے تھے) دفتر جاتے وقت مجھ سے کہا کہ میں شام کے بعد
گھر سے نکلوں تاکہ ملتان کی تیز دھوپ سے بچ کر دفتر پہنچ سکوں۔ میں حسب
ہدایت شام کی نماز سے ذرا قبل دفتر پہنچا جو چوک شہیداں میں تھا۔ زبیری
صاحب کے پاس ایک خوبرو نوجوان بیٹھا تھا اور مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا
تھا۔ مجھے اس کی مسکراہٹ بڑی پیاری لگی۔ میں نے قریب جا کر سلام کیا تو
محترم زبیری صاحب (انہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے) بولے ’’لو
نذیر حق بھی آ گیا ہے۔‘‘ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ یہ ریاض بٹالوی
ہے‘ جس کا افسانہ ’’ماں‘‘ پڑھ کر تم رو پڑے تھے۔
میں نے آگے بڑھ کر ریاض کی طرف ہاتھ بڑھایا‘ مگر اس نے کرسی سے اٹھ کر مجھے
گلے لگا لیا: ’’اچھا تو تم میرے ’’فین‘‘ ہو۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا‘ میں
بھی قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ریاض بٹالوی کا یہ افسانہ پشاور سے نکلنے
والے اخبار ’’بانگ حرم‘‘ کے غالباً سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔ اس اخبار
کے مدیر پروفیسر سرور تھے اور یہ پشاور سے بذریعہ ڈاک ’’کوہستان‘‘ ملتان کے
دفتر میں آتا تھا۔ ’’
ریاض بٹالوی سے یہ پہلی ملاقات تھی‘ میں اس سے بڑا متاثر ہوا۔ اس وقت یہ
احساس نہیں تھا کہ چند سال بعد ریاض اور میں ایک ہی اخبار میں فرائض انجام
دیں گے۔ میں اس اخبار کے نیوز کے شعبے کو کنٹرول کروں گا اور ریاض صاحب
سنڈے ایڈیشن کے انچارج ہوں گے۔
ستمبر 1963ء کو مشرق منصۂ شہود پر آیا تو بٹالوی صاحب چند روز بعد ہی مشرق
کے عملہ میں شامل ہوگئے۔ ملاقات کی تجدید ہوئی اور پھر ہم تقریباً 32سال ہم
سفر رہے۔ ریاض صاحب معاشرتی مسائل پر فیچرلکھتے تھے۔ اس کام میں اقبال
زبیری‘ جو مشرق کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے (یہ عہدہ اردو اخبارات میں پہلی بار
متعارف کرایا گیا تھا) ریاض بٹالوی کی رہنمائی کرتے۔ موضوع تجویز کرتے‘
تصاویر کیسی ہونی چاہئیں‘ کہاں کہاں سے تصاویر بنیں گی اور کیا کیا فیچر
میں شامل ہوگا۔ پھر ریاض صاحب کام میں جت جاتے‘ لوگوں سے ملتے‘ کہانیاں
ڈھونڈتے‘ شام کو بیٹھ کر لکھتے اور پھر زبیری صاحب بسا اوقات فیچر کو
Rewriteکرتے‘ سرخیاں بناتے‘ خطاط اعلیٰ شریف گلزار کو بلا کر
Layoutسمجھاتے۔ سرخیاں کتابت ہوجاتیں تو پھر انہیں دیکھتے‘ تصاویر Fitکرتے
اور ریاض بٹالوی کا فیچر ٗ سنڈے ایڈیشن کے صفحہ اول پر جلوہ گر ہوتا۔ ان
دنوں سنڈے میگزین کا رواج نہیں تھا۔ یہ ’’بدعت‘‘ بھی محترم عنایت اﷲ نے ہی
متعارف کرائی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ریاض بٹالوی کے فیچر مقبول ہونے لگے۔ اب وہ سٹوری کو نہیں
‘ سٹوری انہیں ڈھونڈتی تھی۔ ریاض بٹالوی کے فیچر اور نام کا ڈنکا بج
رہاتھا۔ سنڈے کو اخبار عام دنوں کی نسبت زیادہ تعداد میں چھپتا اور زیادہ
بکتا۔ کوئی دو سال بعد (ستمبر 1965ء) بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ
ہوئی۔ اس جنگ کے آخری دنوں میں ریاض بٹالوی نے جنگ کے نقطۂ نظر سے فیچر
لکھا‘ جس میں ’’ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک‘‘ کا نعرہ دیا۔ تجویز یہ تھی کہ قوم
کا ہر فرد‘ چھوٹا یا بڑا‘ اگر صرف ایک پیسہ روز بچا کر قومی خزانے میں جمع
کرائے تو روزانہ ایک امریکی ٹینک خریدا جاسکتا ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول
ہوا کہ پورے ملک میں عموماً اور پنجاب کے سبھی شہروں میں خصوصاً دکانوں پر
چندے کے چھوٹے چھوٹے بکس رکھے ہوئے یا دیواروں سے لٹکے ہوئے نظر آنے لگے‘
جن پر ’’ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک ’’جلی حروف میں تحریر ہوتا تھا۔ پھر لوگ ان
بکسوں میں ڈالے جانے والے ٹیڈی پیسے یا دوسرے سکے لے کر ’’مشرق‘‘ کے دفتر
آتے‘ ریاض بٹالوی کو ڈھونڈ کر یہ پیسے انہیں دیتے ‘ وہ انہیں بنک کے
’’دفاعی فنڈ‘‘ میں جمع کراتے‘ جو ایوب حکومت نے قائم کر رکھا تھا۔
ریاض بٹالوی کے فیچرز کا ایک یادگار سلسلہ اس کے فرار کی داستانوں پر مشتمل
تھا۔ یہ بھی اقبال زبیری کے ذہن کی پیداوار تھی۔ چنانچہ اعلان کر دیا گیا
کہ ریاض بٹالوی فرار ہوگیا ہے اور جو شہری اسے ڈھونڈے گا‘ اسے نقد انعام
دیا جائے گا۔ ریاض معمولی بھیس بدل کر مختلف مقامات پر جاتا‘ تھانوں میں
مقدمہ درج کرانے کی کوشش کرتا‘ سرکاری دفاتر میں غریب سائل بن کر جاتا‘
جہاں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ پھر اس پر جو بیتتی اسے قلم بند
کرتا اور یہ فیچر یا کہانی روزانہ اخبار میں شائع ہوتی۔ اس مہم جوئی کے
دوران ایک مرتبہ اسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور یوں ریاض نے جیل کے
اندر کے حالات سے عوام کو باخبر کیا۔ اسی طرح کا ڈرامہ پشاور میں بھی کیا
گیا‘ جہاں سے مشرق نیا نیا نکلا تھا۔ اس سے اخبار کی سرکولیشن پر بھی مثبت
اثرات مرتب ہوئے۔ ریاض نے ایک کالم بعنوان ’’اسے بھی پڑھئے‘‘ شروع کیا۔ اس
میں عوامی شکایات اور مشکلات کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ یہ کالم بھی بڑا مقبول
ہوا۔ اس کالم اور سنڈے فیچرز کے ذریعے ریاض نے لوگوں کی مشکلات دور کیں۔ ان
کے رُکے ہوئے کام کروائے اور بچپن میں بچھڑے ہوئے کئی بچے‘ جو اب جوان
ہوچکے تھے‘ ماں باپ سے ملائے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت بچھڑ جانے والے کئی
خاندانوں کو بھی ریاض کے معاشرتی اور سماجی فیچرز کی بدولت اپنوں سے ملنے
کا موقع ملا۔ ایسے مواقع پر لوگ روتے ہوئے مشرق کے دفتر آتے‘ بچھڑوں سے مل
کر بھی آنسو بہاتے‘ مگر یہ آنسو خوشی کے ہوتے۔ بلکہ اکثر اوقات ریاض بٹالوی
بھی بچوں کی طرح رونے لگتے اور پھر یہ تمام تصاویر ریاض کی خوبصورت تحریروں
میں اشاعت پذیر ہوتیں۔ ریاض کی انہی خدمات پر انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے
نوازا گیا۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران بھی سرحدی علاقوں سے بے گھر ہونے والوں
کی امداد کے لیے ریاض بٹالوی نے اخبار میں اپیل کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشرق
(4)
کے دفتر کے باہر چاول‘ چینی ‘ دالوں ‘ آٹے اور ضروری استعمال کی دوسری
اشیاء کے ڈھیر لگ گئے۔ پھر پرائیویٹ کمپنیوں کے ٹرکوں کے ذریعے یہ سامان بے
گھر لوگوں تک پہنچایا جاتا۔ کسی کمپنی نے اپنے ٹرک کا کرایہ نہ لیا اور
پٹرول بھی اپنے پلے سے خرچ کیا۔
1965ء کی جنگ کے دوران مجھے ریاض بٹالوی کے ساتھ قصور کے محاذ پر جانے کا
اتفاق ہوا۔ دورے کا اہتمام آئی ایس پی آر نے کیا تھا۔ وہاں مشرقی پاکستان
کی ایک بٹالین بھی محو جنگ تھی۔ ہماری جوانوں سے ملاقات ہوئی‘ ان سے پوچھا
کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ کسی جوان نے بریانی اور زردہ کھانے کی
خواہش کا اظہار کیا۔ ان دنوں جنگ بندی ہوچکی تھی۔ چنانچہ ریاض نے واپس پہنچ
کر پوری یونٹ کے لیے عمدہ بریانی اور زردے کا اہتمام کیا اور فوج کی اعانت
اور اجازت سے جوانوں کو زردہ اور بریانی پہنچائی گئی۔
ریاض بٹالوی ایک عہد ساز فیچر رائٹر تھے۔ انہوں نے سنڈے فیچرز کو جو رنگ
دیا‘ جو طرز بخشی‘ کوئی مانے یا نہ مانے‘ آج کے سنڈے میگزین اسی رنگ میں
رنگے ہوئے ہیں اور اسی طرز کے خوشہ چیں ہیں۔ ریاض نے فیچر رائٹنگ میں نئی
راہیں تلاش کیں اور آنے والوں کو دکھائیں۔ آج فیچر رائٹر انہی راہوں پر
چلتے ہوئے کئی پگڈنڈیاں نکال کر استوار کر رہے ہیں۔ آج ریاض ہمیشہ کے لیے
تہ خاک جا سویا ہے‘ لیکن صحافت کی مملکت میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
***********
جناب ضیا شاہد چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں -ریاض بٹالوی مرحوم کی یادوں کو
تازہ کرتے ہوئے اپنے لکھتے ہیں کہ جب روزنامہ خبریں شروع کیاتو میں ریاض
بٹالوی صاحب کے گھر گیا او ر ان سے درخواست کی کہ وہ خبریں اخبار کے سنڈے
میگزین کو سنبھالیں ۔ بٹالوی صاحب نے مجھ سے کہا میں زیادہ کام نہیں کرسکتا
کیونکہ میری صحت اجازت نہیں دیتی البتہ ہر ہفتے میں ایک فیچر لکھنے کی ذمہ
داری لے لیتا ہوں ۔ میں نے ان کے لیے اپنے دفتر میں خاص طور پر ایک کمرہ
تیار کروایا نیا فرنیچر خریدا ‘ ڈائریکٹ فون لائن کا بندوبست کیا اور بڑے
احترام سے انہیں دفتر میں خوش آمدید کہا ۔ وہ صرف ایک یا دو دن کے لیے آتے
اوراپنے ساتھ ایک نوجوان کو لاتے کیونکہ اب وہ اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتے تھے
بلکہ ڈکٹیٹ کرواتے اور وہ نوجوان لکھتا ۔ اس طرح کئی ماہ گزرگئے لیکن وہ
اکھڑے اکھڑے سے تھے ۔ایک بار میں نے پوچھا تو بولے اب وہ جوانی کی ہمت کہاں
سے لاؤں جب میں ہر جگہ خود پہنچتا تھا اور دن میں بے شمار لوگوں سے ملتا
۔فیچر کے کرداروں کو ڈھونڈتا تھا ۔پولیس اور عدالتی کاغذات اور ریکارڈ
کریدتا تھا پھر خود اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا۔ ضیا صاحب آپ کی محبت ایک طرف
لیکن میں ہفتہ وار فیچر کی ذمہ داری بھی ٹھیک طریقے سے پوری نہیں کرسکتا
۔پھر چند دن بٹالوی صاحب خود تو خبریں کے دفتر نہ آئے لیکن وہی نوجوان ان
کی چٹ لے کر آیا جس پر صرف چار الفاظ رقم تھے ۔ "میری معذرت قبول فرمائیں
۔"
*************
یادر ہے کہ یہ تحریر( جس میں جناب نذیر حق کے تاثرات بھی شامل ہیں ۔)2003ء
میں لکھی گئی تھی ۔اب جبکہ یہ تحریر مارگلہ نیوز انٹرنیشنل میں شائع ہورہی
ہے تو ریاض بٹالوی مرحوم کے جنازے میں شریک مجید نظامی ‘ انتظار حسین ‘
ڈاکٹر ایم اے صوفی اور نذیر حق بھی اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اﷲ تعالی ریاض
بٹالوی ‘ سمیت تمام مرحومین کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔یہ پیغام ہم
سب کے لیے ہے جو اس وقت زندہ و تابندہ ہیں کہ ہر گزرا ہوا لمحہ واپس نہیں
آتا اس لیے اپنی زندگی اور اپنے قلم کو خدمت خلق اور دکھی انسانیت کے لیے
وقف کرنا چاہیئے تاکہ کل جب ہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے تو ہمارے جذبوں اور
خدمات کا اعتراف کرنے والا کوئی ایک شخص تو ہے ۔یہی زندگی کی کمائی ہے ۔بے
شک ریاض بٹالوی کا نام موجودہ نسل کے لیے شناسا نہیں ہے لیکن ان کی تحریریں
ان کی خدمات اور وجود کو منوانے کے لیے سب سے اہم حوالہ ہیں ۔ |